بھارتی سیکولر ازم اور مودی کی سیاست

4212_109624585991_3851843_nبیرسٹر حمید باشانی

بھارت میں سیکولر قوتیں مضبوط تو ضرور تھیں مگر انہوں نے اپنی مضبوطی اور وزن کو سیکولرازم کے پلڑے میں ڈالنے سے گریز کیا اور کبھی بھی کھل کر سیکولرازم کی لڑائی نہیں لڑی۔اس کے بر عکس انہوں نے کئی محاذوں پر پسپائی اختیار کی جس کی وجہ سے ہندو نیشنلسٹ اور بنیاد پرست قوتوں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور ان کو پیش قدمی کا موقع ملا۔


احتجاج، احتجاج اور احتجاج۔نریندر مودی اس وقت واحد منتخب سیاست کار ہیں جن کے خلاف دنیا بھر میں اس تسلسل سے احتجاج ہو رہا ہے۔

اس احتجاج کا اغاز اس وقت ہوا جب نریندرہ مودی گجرات کے وزیر اعلی تھے۔اس وقت گجرات میں مسلمانوں کے قتل کے خلاف احتجاج کا ایک شدید اور طویل سلسلہ شروع ہوا۔دنیا کے تقریبا ہر اہم شہر میں مظاہرے ہوئے۔اور یہ احتجاج انتہائی منظم انداز میں کئی دنوں تک جاری رہے۔

عالمی سطح پر اس احتجاج کو منظم کرنے میں زیادہ تر بائیں بازو کے لوگ تھے۔ لیکن اس احتجاج میں بھارتی اور پاکستانی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل تھی۔اس احتجاج کا بہت نوٹس لیا گیا۔یہاں تک کہ امریکہ سمیت بعض مغربی جمہوریتوں نے نیریندر مودی کو ویزا دینے اور اپنے ملکوں میں آنے سے منع کر دیا۔بھارت کے اندر بھی بڑے پیمانے پر رد عمل ہوا۔

ایک منتخب سیاست کار کے لیے یہ ایک بڑا دھچکا تھا۔عام حالات میں اس طرح کی صورت حال میں کسی سیاست کار کا سیاسی کیرئر ختم ہو جانا چاہیے تھا۔ مگر مودی کے معاملے میں اس کے برعکس ہوا۔سنگین الزامات اور شدید احتجاج کے جلو میں نرنیدر مودی کو بھارت کا وزیر اعظم منتخب کر لیا گیا۔اس پر کسی کو کوئی خاص حیرت تو نہیں ہوئی لیکن کئی لوگوں کے لیے یہ ایک دلچسب کیس سڈی ضرور بن گیا۔

جس وقت نرنیدرہ مودی وزارت عظمی کے امیدوار بن کر سامنے آئے اس وقت بیشتر دانشور دو باتوں پر متفق تھے۔ایک یہ کہ بھارت میں سیکولر قوتیں بہت مضبوط ہیں، اور دوسرا یہ کہ بھارتی لوگ کسی بنیاد پرست ہندو کو وزیر اعظم نہیں بنائیں گے۔ وقت نے یہ دونوں باتیں کلی طور پر غلط تو ثابت نہیں کی۔لیکن ان دونوں باتوں کا پرچار کرنے والوں کے لہجے میں وہ پہلے جیسا اعتماد بہر حال نہیں رہا۔

اب ان دونوں باتوں پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت میں سیکولر قوتیں بہت مضبوط تھیں اور ہیں۔مگر ان سیکولر قوتوں نے بھارت کے اندر سیکولر ازم کے لیے کیا کچھ نہیں۔بھارتی تاریخ کے بیشتر دور میں بائیں بازوکی طرف جھکاؤ رکھنے والی سیکولر کانگرس بر سر اقتدار رہی، یا پھر ملک کی بعض ریاستوں میں کمیونسٹ پارٹی۔مگر ان دو قوتوں نے سیکولر ازم کے محاذ پر کوئی فیصلہ کن لڑائی لڑنے کے بجائے زیادہ تر یا تو در گزر سے کام لیا یا پھر سیکولرازم کے اصولوں پر ننگے سمجھوتے کیے۔

گویا سیکولر قوتیں مضبوط تو ضرور تھی مگر انہوں نے اپنی مضبوطی اور وزن کو سیکولرازم کے پلڑے میں ڈالنے سے گریز کیا اور کبھیبھی کھل کر سیکولرازم کی لڑائی نہیں لڑی۔اس کے بر عکس انہوں نے کئی محاذوں پر پسپائی اختیار کی جس کی وجہ سے ہندو نیشنلسٹ اور بنیاد پرست قوتوں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور ان کو پیش قدمی کا موقع ملا۔

جہاں تک اس بات کا تعلق تھا کہ بھارتی لوگ کسی انتہا پسند ہندو کو وزیر اعظم نہیں بنائیں گے، یہ بات بھی مکمل طور پر غلط بھی ثابت تو نہیں ہوئی، مگر اس میں اگر مگر کی بہت گنجائش تھی۔ سیکولر قوتیں اپنا کیس ثابت کرنے میں کلی طور پر ناکام رہی۔ وہ عام بھارتی لوگوں یا عام ہندو کو یہ باور کرانے میں ناکام رہے کہ نریندرہ مودی کوئی بنیاد پرست یا شدت پسند ہندو ہیں۔اور نچلی سطح پر وہ عام ہندو کو یہ سمجھانے میں ناکام رہے کہ ہندو بنیاد پرستی یا شدت پسندی کوئی بری چیز ہے۔

یہ کیفیت اب تک قائم ہے۔عام بھارتی نے نریندرہ مودی کو، جیسا کہ وہ ہے یعنی اپنی اصل شکل میں قبول کر لیا۔اور اقتدار میں انے کے بعد خود مودی نے بھی نسبتاً محتاط طرز عمل اختیار کر لیا جس سے کچھ لوگوں نے یہ باور کر لیا کہ وزارت عظمی کی ذمہ داریوں نے مودی سے انتہا پسندی کا ڈنگ نکال دیا ہے۔اور یہ کہ اس عہدے کو تقاضوں نے انہیں میانہ روی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

مگر حال ہی بھارت میں رونما ہونے والے چند واقعات پر وزیر اعظم کی خاموشی یا ان واقعات کی مذمت سے گریز کی پالیسی نے اس خیال کو غلط ثابت کر دیا ہے۔چنانچہ بھارت میں اس کے خلاف مختلف طریقے سے احتجاج ہو رہا ہے۔اس احتجاج کی ایک نمایاں شکل بھارت کے شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں کی طرف سے اعزازات و انعامات کا واپس کرنا ہے۔یہ سماج کے بہت ہی حساس اور اہم لوگوں کی طرف سے اہم احتجاج ہے۔

احتجاجوں کے اس سلسلے کی ایک شکل کشمیریوں کا احتجاج بھی ہے۔یہ احتجاج کشمیر کے اندر اور کشمیر سے باہر کئی شہروں میں دیکھنے میں آرہا ہے۔کشمیر کے اندر یہ احتجاج بڑی حد تک بنیاد پرست قوتوں کے ہاتھوں میں ہے۔اس کی وجہ سے اب کشمیر کا مسئلہ اسلامی بنیاد پرستی بنام ہندو بنیاد پرستی کی شکل اختیار کرچکا ہے۔

جہاں تک کشمیر سے باہر مظاہروں کا تعلق ہے تو اس میں کئی مکاتب فکر، اور کئی طرح کے لوگ شامل ہیں۔اس احتجاج میں وہ لوگ بھی سرگرم ہیں جو پاکستانی ریاست اور ریاستی ایجنسیوں کی اشیر باد کے بغیر کبھی کوئی ایسی سیاسی سرگرمی نہیں کرتے۔ اور کچھ ایسے لوگ بھی ہیں مخلص اور دیانت دار ہیں اور کشمیر کی حقیقی ازادی کے خواں۔

مگر دیکھنا یہ ہے کہ یہ لوگ اس احتجاجی سلسلے میں اپنی جداگانہ شناخت برقرار رکھنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں یا نہیں۔گویا اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ کچھ احتجاج برائے احتجاج ہے۔ کچھ احتجاج برائے مفادات۔اور کچھ اہتمام حجت۔اگر یہ کوئی ہندو بنیاد پرستی کا کیس ہے تو یہ کیس صرف سیکولر اور ترقی پسند قوتیں ہی لڑ سکتیں ہیں۔باقی سب دل کے پھپھولے پھوڑ رہے ہیں۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔

Comments are closed.