کامریڈ لال خان، محراب سنگت کے خط کے جواب میں۔۔۔

1458526_748476491832611_899374712_n

مہراب سنگت کے ساتھیو!۔

اس خط کے ذریعے میں آپ کو داد دیتا ہوں کہ آپ ہماری تحریریں پڑھتے ہیں۔ بطور ایک مارکسسٹ میں آپ کی تنقید کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ کی تنقید بلوچستان پر میرے بہت سے مضامین میں سے صرف ایک مضمون تک محدود ہے۔ ہم اسی ترتیب سے ان تنقیدوں کا جواب دینے کی کوشش کریں گے جس ترتیب سے آپ کے خط میں درج ہیں۔میں یہ بھی کہوں گا کہ اگر آپ نے پچھلے پینتیس سالوں میں بلوچستان پر میرے لکھے ہوئے سینکڑوں مضامین محتاط انداز میں پڑھے ہوتے تو آپ کے خیالات مختلف ہوتے ۔ میں یہ جواب انگریزی میں لکھ رہا ہوں کیونکہ اس کے ذریعے میں اپنے خیالات کا اظہار بہتر طریقے سے کر سکتا ہوں ۔ بہرحال اردو ، پنجابی اور انگریزی میری مادری زبان نہیں ہیں (اگر اس بات کی کوئی اہمیت ہے تو!)۔ اس سے اہم بات یہ ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ انگریزی سے بلوچی، پشتو،براہوی،دری یا بلوچستان میں بولی جانے والی کسی زبان میں ترجمہ قدرے آسان ہے۔ میں اپنے جواب کو مختصر کروں گا تاکہ پیچیدگی اور ابہام سے بچا جا سکے۔

پاکستان جنوب ایشیائی برصغیر کی 1946ء کے انقلاب، جو کراچی ، بمبئی اور مدراس کے جہازیوں کی بغاوت کے نتیجے میں شروع ہوئی تھی، کی المناک شکست کے نتیجے میں تخلیق ہوئی۔ اس برطانوی نوآبادی کی خونی تقسیم کے نتیجے میں بیس لاکھ سے زائد معصوم لوگ مذہبی نفرت کی بھینٹ چڑھ گئے اور جدید تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت دیکھنے میں آئی۔ پاکستان مذہب کی بنیاد پر بنا جس میں مختلف قومیتیں شامل تھیں۔ تاہم 68سال گزرنے کے بعد بھی حکمران طبقہ ایک یکجا ، جدید قومی ریاست اور ایک حقیقی پاکستانی قوم تشکیل دینے میں مکمل ناکام ہیں۔ طبقاتی استحصال کے ساتھ ساتھ قومی استحصال وجود رکھتی ہے اور محکوم قومیتوں کی بڑھتی ہوئی قومی محرومی بھی موجود ہے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ قومی جمہوری انقلاب کا فریضہ پورا کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ ریاست نے محنت کش طبقے اور محکوم قومیتوں پر جبر کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ریاست سب سے زیادہ قومی جبر بلوچستان میں کر رہی ہے۔ بے تحاشا قتل و غارت ، اغوا اور بالخصوص سیاسی ورکروں پر وحشت جاری ہے۔ تاریخی طور پر متروک ، معاشی طور پر برباد اور رجعتی حکمران ٹولے نے اپنی ریاستی مشینری کے ذریعے پاکستان کو مظلوم قومیتوں کے جیل خانے میں تبدیل کر دیا ہے۔

ایف ڈبلیو او کے لیے کام کرنے والے سندھی اور پنجابی مزدوروں کے قتل عام پر ہمارا مؤقف پاکستانی حکمران طبقے اور ان کے دانشوروں ، بشمول پاکستان ریاست کی کوئٹہ میں کٹھ پتلی حکومت کی کابینہ کے بلوچ وزیروں سے مکمل طور پر مختلف ہے۔ جس طرح آپ نے اس المناک قتل پر دکھ کا اظہار کیا ہم نے بھی کیا۔ تاہم ان غریب پرولتاریوں کے قتل کی حمایت یا تعریف کرنا انتہائی وحشت ناک عمل ہے۔ ہم نے یہ بھی کہا کہ یہ جابر ریاست کی طرف سے بلوچستان میں قومی تحریک آزادی کی تحریک کو سبوتاژ یا بدنام کرنے کا ہتھکنڈا بھی ہوسکتا ہے۔ ہم نے کبھی بھی ریاستی دہشت گردی کو مسلح جد وجہد کی انفرادی دہشت گردی کے برابر کھڑا نہیں کیا۔

ہم مکمل طور پر مارکس کی 1857ء کی ہندوستان کی جنگ آزادی اور برطانوی سامراج کی وحشت کے تجزیے سے اتفاق کرتے ہیں۔ تاہم ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ نیویارک ڈیلی ٹریبیوں کے اسی مضمون میں مارکس نے لکھا ، ’’ انگلش بورژوازی نہ تو لوگوں کو آزاد کرے گی اور نہ ہی ان کے سماجی حالات تبدیل کرے گی ، اس بات کا انحصار نہ صرف پیداواری قوتوں کی ترقی پر ہے بلکہ ان پر لوگوں کی ملکیت پر بھی ہے۔ لیکن وہ دونوں کے لیے درکار حالات ضرور پیدا کرے گی ۔ کیا بورژوازی نے کبھی اس سے زیاد ہ کیا ہے؟کیا اس نے کبھی افراد اور لوگوں کو خاک و خون ، ذلت اور رسوائی میں نہلائے بغیر کوئی ترقی لائی ہے ؟

برطانوی بورژوازی کی طرف سے ہندوستانیوں کے بیچ نئے سماج کے پھیلائے گئے عناصر سے ہندوستانی اس وقت تک فیضیاب نہیں ہوسکیں گے جب تک خود برطانیہ عظمیٰ میں آج کے حکمران طبقے کی جگہ صنعتی پرولتاریہ نہیں لیتا یا ہندوستانی خود اس قد ر مضبوط نہ ہوجائیں کہ انگریز راج کا خاتمہ کردے ۔ ہندوستان ، جس کی وسعت یورپ جتنی اور احاطہ 150ملین ایکڑ ہے ، پر انگلش انڈسٹری کے تباہ کن اثرات زیادہ واضح اور پیچیدہ ہیں۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ پورے پیداواری نظام ، جیساکہ وہ اب ہے ، کے نامیاتی نتائج ہیں۔ یہ پیداوار سرمایہ کی عظیم حکمرانی پر تکیہ کرتی ہے۔ سرمایے کی مرکزیت سرمایہ کی بطور ایک آزاد وجود کے لیے لازم ہے۔ دنیا کی منڈی پر اس مرکزیت کے تباہ کن اثرات ہر متمدن قصبے میں سیاسی معاشیات کے فطری نامیاتی قوانین کو وسیع پیمانے پر واضح کرتے ہیں۔

تاریخ کے بورژوا دور نے نئی دنیا کی مادی بنیادیں ، ایک طرف سے انسانیت کی باہمی انحصاریت کی بنیاد پر عالمی تعامل اور اس تعامل کے ذرائع اور دوسری طرف انسان کی پیداواری قوتوں کی ترقی اور مادی پیداوار کو فطری قوتوں پر سائنسی غلبے میں تبدیل کرنا، تخلیق کرنی ہے ۔ بورژوا صنعت اور تجارت ایک نئی دنیا کے لیے یہ مادی بنیادیں اسی طرح تخلیق کرتے ہیں جس طرح ارضیاتی تبدیلیوں نے سطح زمین کی تخلیق کی ہے۔ جب ایک عظیم سماجی انقلاب بورژوا دور کے ثمرات ، عالمی منڈی اور جدید پیداواری قوتوں کو اپنے قابو میں لاکر انہیں سب سے ترقی یافتہ قوموں کی مشترکہ ملکیت میں لائے گی ، تب ہی جا کر انسانی ترقی اس قابل نفرت کافر بت کی طرح نہیں رہے گی جو مردے کی کھوپڑی سے خون چوستا ہے۔ (مارکس اینگلز ، مجموعہ تصانیف ، جلد ۱۲، صفحہ نمبر ۲۱۷)۔

تاہم مارکس اور اینگلز نے کمیونسٹ مینی فیسٹو ، مارکسزم کی بنیادی دستاویز جسے ان عظیم استادوں نے ساری عمر مقدم رکھا ، میں قومی سوال پر اپنے مؤقف کو واضح طور پر پیش کیا ۔ انہوں نے مینی فیسٹو میں لکھا ، ’’کمیونسٹوں پر مزید تنقید یہ کی جاتی ہے کہ وہ ملک اور قومیت کو ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ محنت کش کا کوئی وطن نہیں ہوتا ۔ ہم ان سے وہ چیز چھین ہی نہیں سکتے جو ان کے پاس ہے ہی نہیں۔چونکہ پرولتاریہ کو سب سے پہلے سیاسی اقتدار حاصل کرنا ہے اور خود کو قوم کا اگوا طبقہ بنانا ہے ، بلکہ خود قوم بننا ہے ۔ اس لئے اس حد تک وہ خود قومی ہے۔ مگر اس لفظ کا وہ مفہوم نہیں جو بورژوا سمجھتے ہیں۔ بورژوازی کی نشوونما ، آزاد تجارت ، عالمی منڈی ، طرز پیداوار اور حالات زندگی کی یکسانیت کی وجہ سے قومی تفریق اور تضادات ختم ہورہے ہیں۔ ‘‘

مارکس نے حالات کی سائنسی سماجی معاشی تجزیے اور اس بنیاد پر سماجی انقلاب کے تناظر کی تخلیق میں جذباتیت کو مسترد کیا ۔ ہندوستان پر اپنے مضامین کے ایک سلسلے میں اس نے 22جون 1853ء کو لکھا ، ’’یہ سچ ہے کہ انگلینڈ صرف اپنے قابل نفرت مفادات کی خاطر ایک سماجی انقلاب کو اکسا رہا ہے اور اسکے لاگو کرنے کا طریقہ انتہائی احمقانہ ہے۔ لیکن سوال یہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایشیا کے سماجی حالات میں بنیادی انقلاب لائے بغیر کیا انسانی نسل اپنی تقدیر بنا سکتی ہے؟ اگر نہیں ، تو انگلینڈ کے جرائم جو بھی ہوں وہ اس انقلاب کے لانے کے لیے تاریخ کا لاشعوری اوزار ہے۔ تب ، ایک قدیم سماج کے برباد ہونے کا منظر ہمارے ذاتی جذبات کے لیے جتنی بھی تکلیف دہ کیوں نہ ہو ، ہمیں تاریخی اعتبار سے گوئٹے کے ساتھ مچلنے کا حق ہے کہ :
کیا یہ عذاب ہمیں تکلیف دے گی ؟چونکہ اس سے ہمیں مزید خوشی ملتی ہے ۔
کیا تیمور نے اپنی حکمرانی میں لاتعداد لوگوں کو قتل نہیں کیا؟
(
دی نیویارک ڈیلی ٹریبیون ، 25جون، 1853ء)
اسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ قومی یا طبقاتی آزادی حاصل کرنے کے لیے مسلح جد وجہد درست ، مؤثر اور کامیاب راستہ نہیں ہے ۔مسلح جدوجہدنے مخصوص اوقات میں حق خود ارادیت کی جد وجہد میں ایک ضمنی کردار ادا کیا ہے لیکن بالآخر کامیاب انقلابی نتائج صرف اسی وقت حاصل ہوسکتے ہیں جب اس جد وجہد کو صنعتی اور شہری علاقوں کے مزدوروں ، کسانوں اور نوجوانوں کی جد وجہد سے جوڑا جائے ۔ مارکسزم کے عظیم استادوں ، مارکس ، اینگلز ، لینن اور ٹراٹسکی نے سوشلسٹ انقلاب کرنے کے لیے کبھی بھی مسلح جدوجہد اور گوریلا جنگ کی وکالت نہیں کی۔ بد قسمتی سے آپ نے اُن اَن گنت مظاہروں اور احتجاجی مظاہروں کو نظر انداز کر دیا ہے جو ہم نے بلوچوں پر بوسیدہ پاکستانی بورژوا ریاستی جبر کے خلاف کیے تھے۔ سامراجی ریاستوں اور ان کی پراکسیوں کی اس جبر میں شمولیت اسی طرح قابل مذمت ہے۔ تاہم آپ کی تنقید میں ایک خاموشی ہے اور حتیٰ کہ آپ نے ان بلوچ سیاست دانوں کا ذکر ہی نہیں کیا جو
1948ء سے پاکستانی حکمران طبقے کے ساتھ ساز باز کرکے بلوچستان پر جبر ، ظلم اور استحصال میں شریک رہے ہیں۔ کوئٹہ میں بلوچوں کی سربراہی میں موجودہ حکومت پنجابی بورژوازی کے سب سے رجعتی دھڑے ، مسلم لیگ (ن) ، کے ساتھ ایک غیر مقدس اتحاد ہے۔ ان کی چاپلوسی ، خصی پن اور غلامانہ رویہ بلوچستان کے مراعات یافتہ طبقے کے کردار اور خوشامدی پیٹی بورژوا دانشوروں کی نمائندہ ہیں۔

مارکس نے یہ بھی لکھا کہ برطانیہ نے ہندوستا ن کو ہندوستانی فوج کے ذریعے فتح کیا۔ اگر بلوچستان میں موجودہ سیاسی قیادت کو دیکھیں تو طبقاتی تضادات صاف طور پر نظر آتے ہیں۔ لینن نے محکوم قوموں کے سوشلسٹوں کے کردار کے بارے میںیہ لکھا :’’دوسری طرف محکوم قوموں کے سوشلسٹوں کو خاص طور پر محکوم قوم اور حاکم قوم کے مزدوروں کے درمیان مکمل اور قطعی اتحاد (اور تنظیمی بھی) کے لیے جد وجہد کرنا چاہیے۔ اس طرح کے اتحاد کے بغیر بورژوازی کی چالبازیوں، دھوکوں اور حیلوں کی موجودگی میں ایک آزاد پرولتاری پالیسی اور دوسری قوموں کے پرولتاریوں کے ساتھ طبقاتی یکجہتی ناممکن ہے۔ کیونکہ محکوم قوموں کی بورژوازی ہمیشہ قومی آزادی کے نعرے کو مزدوروں کو دھوکہ دینے کے آلے میں تبدیل کرتی ہے۔ اندرونی سیاست میں وہ ان نعروں کو حاکم قوم کی بورژوازی کے ساتھ رجعتی معاہدے کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ خارجہ سیاست کے میدان میں وہ اپنے غارت گر مفادات کی خاطر حریف سامراجی طاقتوں میں سے ایک کے ساتھ معاہدے کرتے ہیں ۔ خاص حالات میں ایک سامراجی طاقت قومی آزادی کی جد وجہد کو دوسری ’بڑی‘ طاقت کے خلاف اپنے سامراجی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ‘‘(لینن ، مجموعہ تصانیف ، جلد ۲۲، صفحہ ۱۴۳)۔

بلوچستان میں میگا پروجیکٹ بلوچستان کو ترقی دینے یا محروم بلوچ عوام کو روزگار دینے کے لیے نہیں بلکہ بے انتہا منافعوں کی لالچ کی تسکین اور قدرتی معدنی وسائل پر کنٹرول اور خطے میں سامراجی اثرورسوخ کے لیے ہے۔ اس سے سامراجی سرمایہ کار مزید امیر اور عوام مزید غریب ہوں گے۔ پاکستانی حکمران اور ریاستی ادارے بشمول ایف ڈبلیو او سامراجی سرمایہ کاروں کے دلال اور کمیشن ایجنٹ کا کردار ادا کریں گے۔ سرمایہ داری کے زوال کے عہد میں سرمایہ کاری سے علاقے میں ترقی نہیں آئے گی اور نہ ہی اس سے زیادہ روزگار پیدا ہو گی ۔ حتیٰ کہ اگر یہ منصوبے مکمل بھی ہوجائیں ، اس سے بلوچستان کی ترقی مسخ ہوجائے گی اور مزید ناہمواری اور نابرابری پیدا ہوگی۔ افراط کی کیفیت میں عوام کے لیے غربت اور محرومی ہوگی۔ پسماندگی کے صحرا میں جدید ٹیکنالوجی اور انفراسٹرکچر کا نخلستان ہوگا۔ اس کا بنیادی مقصد وسائل اور دولت کی لوٹ مار اور خطے پر بالادستی کے لیے اپنی سٹریٹجک پوزیشن کو مضبوط کرنا ہے۔ حالیہ دور میں حتیٰ کہ سرمایہ کاری کا کردار بھی لیبر انٹینسو سے کیپیٹل انٹینسو ہوگیا ہے جس میں انسانی محنت کی جگہ بڑی شدت سے ربوٹس لے رہی ہیں۔ چین نہ صرف کم انسانی محنت اور زیادہ ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں بلکہ لاطینی امریکہ ، افریقہ اور پاکستان میں ان کے سابقہ تجربات سے یہ بات واضح ہے کہ وہ اپنے ساتھ چینی سٹاف بھی لے آتے ہیں ۔ مقامی مزدوروں کو صرف انتہائی معمولی اور کم اجرت والی ملازمتیں ملیں گی۔

جہاں تک 1974ء میں بھٹو کے دور میں بلوچستان پر فوجی جارحیت کا سوال ہے ، اس آپریشن پر میری کتاب ’’پاکستان کی اصل داستان ‘‘ میں خاص توجہ دی گئی ہے اور بے چوں چرا اس کی مذمت کی گئی ہے۔ امریکی سامراج کے کردار بشمول اس کی پراکسی جیسے شاہ ایران اور بلوچستا ن میں دوسرے طاقتوں کی واضح انداز میں اَن گنت مرتبہ مذمت کی گئی ہے۔ ہم کسی طرح بھی بھٹو کی غلط کاریوں اور پیپلز پارٹی کی بعد میں آنے والی قیادتوں کے جرائم کے معذرت خواہ نہیں ہیں۔ہم ریاست پر لینن کے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور بورژوا ریاست کے ظلم و جبر پر سمجھوتہ ، جواز فراہم کرنا یا رعایت دینا ، ہمارے نزدیک ایک جُرم ہے۔

جہاں تک امریکی کانگریس میں دائیں بازو کے رجعتی ریپبلکن سینیٹر کی قرارداد کا تعلق ہے ، میں نہیں سمجھتا کہ اس سے بلوچ کاز کو زیادہ پذیرائی ملی۔ امریکی سامراج پاکستان میں چینی سرمایہ کاری سے بہت حواس باختہ ہے ۔بالخصوص گوادر کے گہرے پانی کی بندرگاہ سے، جو آبنائے ہرمز سے صرف تین سو میل کے فاصلے پر ہے جہاں سے پوری دنیا کی 50فیصد خام تیل گزرتی ہے۔ سب سے بڑھ کر چین انفراسٹرکچر اور معدنی وسائل کے کنٹرول کے لیے بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے اور فوج کو بھاری ہتھیار اور اسلحے فراہم کر رہا ہے۔ یہ قرارداد بلوچ قومی آزادی کے مفادات سے زیادہ بلوچستان اور بحیثیت مجموعی خطے میں امریکی سامراج کے محدود جیو پولیٹیکل اور سٹرٹیجک مفادات کے لیے ہے۔

ہمیں سب سے پہلے یہ سوال پوچھنا چاہیے: قومی آزادی کے لیے ہم کس کی مدد کی راہ تک رہے ہیں ؟ بورژوازی کی طرف، اقوام متحدہ کی شکل میں ’عالمی برادری‘ کی طرف ، جو ایک مکمل خصی ادارہ ہے جو امریکی سامراج کی مالی امداد کے بغیر چل نہیں سکتی اور اسی وجہ سے اپنے مالک کے اشاروں پر ایک داشتہ کی طرح ناچتی ہے؟یہ ادارے صرف منافقت ، استحصال اور جبر کرسکتے ہیں ۔ کشمیر سے لے کر فلسطین تک انہوں نے کس کو قومی آزادی دی ہے؟ان کی قراردادیں اور بیانات بے معنی ہیں اور سامراج کی مرضی کے بغیر ان پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا ۔ کیا واقعی ہمیں یہ غلط فہمی ہے کہ امریکی سامراج بلوچ کاز کے لئے پاکستانی ریاست کے ساتھ جنگ لڑے گا ؟ اگر ہاں، تو افسوس کے ساتھ ہم غلطی پر ہیں ۔

سیمر ۔م۔ ہرش ، ایک تفتیشی امریکی صحافی ، نے ’لندن ریویو آف بکس ‘ میں اپنے ایک حالیہ مضمون میں اسامہ بن لادن کو پکڑنے میں سی آئی اے ، سعودیوں ، پاکستانی ریاست اور ایجنسیوں کے گٹھ جوڑ ، ایبٹ آباد میں اس کی محفوظ پناہ گاہ اور پھراسے امریکیوں کے حوالے کر کے نیوی سیلز کے ہاتھوں قتل کروانے کے بارے میں حیران کن انکشافات کیے ہیں۔ ’’پاکستانی ریاست اور امریکی سامراج کے کشیدہ تعلقات‘‘ میں اس نے انکشاف کیا کہ ’’مستقل کھلے عام جھگڑوں کے باوجود امریکی اور پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے جنوبی ایشیا میں دہائیوں تک دہشت گردی کے خلاف ایک ساتھ کام کیا ہے۔ جیسا کہ ایک ریٹائرڈ سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ دونوں ایجنسیوں کے لیے یہ بات اکثر بہت کارآمد ہوتی تھی کہ وہ کھلم کھلا جھگڑوں کا ناٹک کرکے اپنی ہزیمتوں کو چھپائیں لیکن وہ بلا توقف ڈرون حملوں اور خفیہ آپریشنوں میں تعاون کے لیے ایک دوسرے سے معلومات کا تبادلہ کرتے تھے ۔ واشنگٹن میں یہ بات سمجھ لیا گیا ہے کہ امریکہ کی سیکیورٹی کا انحصار پاکستان کے ساتھ مضبوط فوجی اور انٹیلی جنس تعلقات پر ہے۔ پاکستان میں بھی یہی خیال کیا جا تا ہے۔ ‘‘

یا کیا ہم امریکہ ، یورپ اور پوری دنیا کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟ سچ اور حقیقت یہ ہے کہ امریکی محنت کش اور نوجوان کبھی بھی دائیں بازو کے ریپبلکنز، جن سے وہ ان کی امر یکہ میں طبقاتی اور نسلی جبر کی وجہ سے شدید نفرت کرتے ہیں ، کی پیش کردہ قرار داد کی حمایت نہیں کریں گے ۔صرف طبقاتی یکجہتی کی اپیل کی بنیاد پر ہی دنیا کے محنت کشوں کی حمایت حاصل کی جاسکتی ہے۔ میں کامریڈ خیر بخش مری (جن کے ساتھ میری تندوتیز اور دوستانہ بحث ہوتی تھی ) کے اس بیان سے اتفاق کرتا ہوں جس کو آپ نے اپنی تنقید میں نقل بھی کیا ہے کہ بلوچ تحریک آزادی کو امریکی سامراج کے مفادات کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔اگر آپ اس بیان کو مزید غور سے دیکھیں تو بلوچستان میں امریکی سامراج کی پالیسی ، مقاصد، مفادات اور سٹریٹجی مزید واضح ہوگی۔

جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے تو اس کی قیادت ہمیں اپنا ماننے سے ہی انکاری ہے اور ہم سے سب سے زیادہ نفرت کرتے ہیں اور جہاں کہیں موقع ملے ہم پر حملے کرتے ہیں۔ یہ بے نظیر کے لیے بھی درست تھااور زرداری کے لیے بھی درست ہے۔ اس لیے یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ آپ مجھے ان کا نمائندہ سمجھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے اپنے تاسیسی دستاویز میں وہ کچھ لکھا جو کسی بھی دوسری عوامی پارٹی نے کبھی بھی اپنے پروگرام میں نہیں کہا ، ’’پارٹی کا حتمی مقصد طبقات سے پاک معاشرے کا قیام ہے جو ہمارے عہد میں صرف سوشلزم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ‘‘ اسی وجہ سے یہ محنت کشوں کی روایتی اور سب سے بڑی پارٹی بن گئی۔

سنہ1968-69ء کے انقلابی دور میں یہ وسیع عوامی حمایت یافتہ پارٹی بن گئی لیکن 1970ء کی دہائی میں اقتدار میں آنے کے بعد بہت جلد ہی اس نے مزدوروں پر حملے شروع کر دیئے اور مزدوروں سے بیگانہ ہوگئی۔ جنرل ضیا کی سفاک آمریت اور 1979ء میں بھٹو کی پھانسی نے پیپلز پارٹی کو ایک نئی زندگی دی۔ تاہم بے نظیر بھٹو نے امریکی اور برطانوی سامراج کے ساتھ الحاق کرکے اس موقع کو ضائع کردیا ۔ بے نظیر نے 1980ء کی دہائی میں ابھرنے والی انقلابی تحریک کو زائل کرنے کا کردار ادا کیا۔ آج کی پیپلز پارٹی کوئی باقاعدہ پارٹی نہیں بلکہ عوام کی وسیع اکثریت کی ایک غلط فہمی ہے۔تاہم یہ غلط فہمی بھی بہت تیزی سے ٹوٹ کر بکھر رہی ہے ۔اس کی موجودہ قیادت بہروپیوں ، فراڈیوں ، چوروں، بدمعاشوں اور مجرموں پر مشتمل لمپن بورژوازی ہے۔ اگر آپ ہماری اردو ویب سائٹ پراور بورژوا میڈیا میں میرے لاتعداد مضامین کو پڑھیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ اس حوالے سے ہمارا مؤقف مکمل واضح ہے۔ بہر حال اب بہت ساری پیپلز پارٹیاں ہیں اور اس روایت کے انہدام سے بہت سے اور بھی پیدا ہونگی۔

آپ نے جدوجہد کے سوشلسٹ مقاصد کے حوالے سے کامریڈ شیر محمد مری (جن سے میں اپنی جوانی میں 1978ء میں ملا تھا اور ان سے مجھے بہت شکتی ملتی تھی) اور کامریڈ خیر بخش مری کا ذکر کیا ۔ہمیں واضح طور پر بات کرنا چاہیے۔ انقلاب اور مارکسزم کا کافی مطالعہ کرنے کے بعد وہ یہ جان گئے کہ حقیقی معاشی اور قومی آزادی کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہے اور یہ صرف طبقاتی جد وجہد کے ذریعے نہ کہ قومی جدوجہد کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہے۔ تاہم وہ بلوچستان کی قومی آزادی کو سوشلسٹ فتح کے لیے طبقاتی جدوجہد سے جوڑنے کے لیے پورے خطے کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کررہے تھے۔

اس مقصد کے لیے وحشی پاکستانی ریاست ، جو طبقاتی اور قومی جبر کرتی ہے ، کو اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔ اس تاریخی فریضے کو انجام دینے والی فیصلہ کن ، اہم اور کامیاب قوت جدید شہری علاقوں جیسے کراچی، لائل پور ، کوئٹہ ، لاہور ، حید ر آباد ، سکھر ، پشاور، گجرانوالہ، مردان، نوشہرہ، گجرات، ژوب، حب، ٹیکسلا/ واہ، راولپنڈی وغیرہ کے نوجوان اور پرولتاریہ ہیں۔ وہ جو معیشت اور صنعت کا پہیہ گھماتے ہیں ، جو زراعت یا خدمات کے شعبے میں کام کرتے ہیں ، جو درحقیقت پورے سماج کو چلاتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو معیشت کو جام کرکے جابر ریاست کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر تی ہے اور سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس کو اکھاڑ پھینک دیتے ہیں۔

لینن کی مارکسزم کے لیے بڑی خدمات میں سے ایک قومی سوال کی جدلیاتی انداز میں بڑھوتری ہے۔ یہ دراصل انقلابیوں کے لیے قومی سوال کو سوشلسٹ انقلاب سے جوڑنے کے لیے وسیع نظریاتی خزانہ ہے ۔ بد قسمتی سے لینن کو میکانکی اور موقع پرستانہ انداز میں پیش کیا جا تا ہے۔ قومی سوال پر اس کی تین اہم تحریریں یہ ہیں : اس کی کتاب ’قوموں کی حق خودارادیت ‘ میں روزا لکسمبرگ کے ساتھ بحث، 1913ء میں اس کی کتاب ’قومی سوال پر تنقیدی تبصرہ ‘ ، اور1920ء میں تیسری انٹرنیشنل کی دوسری کانگریس میں کمیونسٹ انٹرنیشنل کا مجوزہ پروگرام۔ قومی اور نوآبادیاتی سوال پر منابیندرا ناتھ رائے کی ترمیم شدہ ڈرافٹ کو شامل کرنے کے بعد اس مسودے کو حتمی شکل دے دی گئی۔ اگر کسی نے قومی سوال پر لینن کے مؤقف کو سمجھنا ہے تو اسے اس کی تحریروں کو جدلیاتی انداز میں جوڑنا اور پڑھنا ہوگا۔ تاہم ایک حوالہ جو میں سمجھتا ہوں کہ لینن کی قومی سوال پر اس کی مکمل روح کو بیان کرتا ہے ، یہ ہے:۔

’’سوشل ڈیموکریٹس یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ پوری ریاست میں نافذالعمل ایک قانون بنایا جائے جو ریاست کے کسی بھی حصے میں رہنے والے قومی اقلیت کے حقوق کی حفاظت کرے ۔ یہ قانون کسی بھی ایسے اقدام ، جس کے ذریعے اکثریتی قومیت اپنے لیے مراعات حاصل کرے یا اقلیتی قومیت کے حقوق کو محدود کرے (تعلیم کے شعبے میں ، بجٹ وغیر ہ کے معاملات میں کسی مخصوص زبان کے استعمال میں )کا راستہ روکے اور اس طرح کے اقدام کو قابل تعزیر جرم قرار دے۔ ’ثقافتی قومی ‘ (یا صرف قومی ) ’خودمختاری ‘یا اس کے نفاذ کے منصوبوں کی طرف سوشل ڈیموکریٹس کا رویہ منفی ہے کیونکہ یہ نعرہ

۔(۱)۔ بلاشبہ پرولتاریہ کی طبقاتی جدوجہد کی بین الاقوامیت سے متصادم ہے ۔ (۲)۔اس سے پرولتاریہ اور محنت کش آسانی سے بورژوا قوم پرستی کے دائرۂ اثر میں آجائیں گے اور (۳)۔ بحیثیت مجموعی ریاست کی مستقل جمہوری تبدیلی کے فریضے ، صرف یہی تبدیلی قومیتوں کے مابین امن لاسکتی ہے (جس حد تک سرمایہ داری میں ممکن ہے )،سے توجہ ہٹا دیتی ہے۔ سوشل ڈیموکریٹس کے ہاں قومی ثقافتی خودمختاری کے سوال کی اہمیت کے پیش نظر ہم کچھ وضاحت پیش کرتے ہیں :۔

۔ (الف)۔ سوشل ڈیموکریسی کے نکتہ نظر سے قومی ثقافت کا نعرہ لگانا ، بلواسطہ یا بلاواسطہ ،ممنوع ہے۔ یہ نعرہ غلط ہے کیونکہ پہلے ہی سرمایہ داری میں پوری معاشی ، سیاسی اور روحانی زندگی زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی ہوتی جا رہی ہے۔ سوشلزم اسے مکمل طور پر بین الاقوامی بنائے گی۔ بین الاقوامی ثقافت ، جسے تمام ممالک کی پرولتاریہ منظم انداز میں پہلے سے ہی تخلیق کر رہی ہے ، ’قومی ثقافت ‘ کو مکمل طور پر جذب نہیں کرتی ( چاہے کسی بھی قوم کا کیوں نہ ہو ) بلکہ ہر قومی ثقافت میں سے صرف ان اجزا کو قبول کرے گی جو مستقل طور پر جمہوری اور سوشلسٹ ہو ۔ ‘‘ (لینن ، مجموعہ تصانیف ، پروگریس پبلشرز ، 1977ء، جلد 19، صفحہ 243-251)] نوٹ : لینن یہاں ’سوشل ڈیموکریٹس ‘ کی اصطلاح مارکسسٹوں کے لیے استعمال کررہا ہے ، کیونکہ 1913ء کے اس دور میں بالشویک آر ایس دی ایل پی کو ترک کر رہے تھے ۔ [

میں سمجھتا ہوں کہ لینن نے ساری بات کہہ دی ہے۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہم سب بین الا قوامیت پسند ہیں۔ مارکسزم انٹرنیشنلزم کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ ریاستی ڈھانچے ، اس کی مصنوعی سرحدوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے محکوم قومی کی قومی آزادی اور طبقاتی آزادی ممکن نہیں ہے۔ ہم محکوم بلوچ عوام کے حق خود ارادیت بشمول حق علیحدگی کی حمایت کرتے ہیں ۔ یہی مؤقف بلوچستان میں رہنے والے پشتون، ہزارہ اور جنوبی ایشیا اور دوسرے خطوں میں رہنے والے محکوم محنت کشوں اور نوجوانوں کے لیے بھی ہے۔

مہراب سنگت کے ساتھیو ، ہم عالمی انقلاب کی پرولتاری فوج کے سپاہی ہیں۔ ہم آپ کی قومی جبر کے خلاف جدوجہد کو دوسری محکوم قومیتوں کی طبقاتی جد وجہد کے ساتھ جوڑنے کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم اس سیارے کے ہر کونے میں اس استحصالی نظام اور اس کی ریاستوں کو اکھاڑ پھینکنے کی عالمی جد وجہد میںآپ کو دعوت دیتے ہیں۔ سوشلزم نجی ملکیت کی نفسیات اور قومی جبر کا خاتمہ کرتی ہے جو آخری تجزیے میں وسائل ، دولت اور جائیداد کی ملکیت کا سوال ہے۔ بلوچستان کے وسائل صرف اسی صورت میں یہاں کے لوگوں کی ہوسکتی ہیں جب نجی ملکیت کے نظام اور ذرائع پیداوارکی نجی ملکیت ، تقسیم اور تبادلہ کے نظام کا خاتمہ کر کے اجتماعی ملکیت کو رائج کیا جائے۔ یہ صرف محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول کے تحت سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

بالشویک تسلیمات کے ساتھ ،
لال خان

3 Comments