اداکار و ہدایت کار کیفی

زاہد عکاسی

kaaa22کیفی اور چکوری

 ہدایت کار کیفی جن کاحقیقی نام کفایت حسین بھٹی تھا مشہور گلوکار اداکار عنایت حسین بھٹی کے چھوٹے بھائی تھے۔ عنایت حسین بھٹی نے قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی فلموں میں گلوکاری کا آغاز کر دیا تھا ۔’’شہری بابو‘‘ کے لیے انہوں نے جو گیت گایا وہ لوگوں میں کافی مقبول ہوا تھا

بھاگاں والیونام جپو مولانام
بندہ مکڑی تولے تکڑی
جپدابھرے مولانام ۔ مولانام

انہوں نے چند ایک فلموں میں اداکاری بھی کی لیکن بات بنی نہیں چنانچہ بھٹی صاحب نے بھٹی تھیٹر کے نام سے پنجاب کے مختلف علاقوں میں ہونے والے میلوں میں تھیٹر شروع کر دیا۔

وہ تھیٹر لے کر جب ایک بار لائل پور (فیصل آباد) آئے تو وہاں میں نے اپنے چند ساتھی فن کاروں کے ساتھ ان سے ملاقات کی۔ اُس وقت بھٹی صاحب نے کہا تھا کہ وہ تھیٹر سے پیسے کماکر دوبارہ خودفلموں کی پروڈکشن کا آغاز کریں گے۔ ان کا یہ فقرہ مجھے اب تک نہیں بھولا کہ مزا تو تب ہے جب اپنے گھر کو آگ لگا کر تماشہ دیکھا جائے‘‘

 جب انہوں نے مسلسل تھیٹر کے بعد پروڈکشن کا آغاز کیا تو انہیں کافی پذیرائی ملی تھی۔ ان ہی دنوں بھٹی صاحب کے چھوٹے بھائی کفایت حسین بھٹی (کیفی) جو اب جوانی میں قدم رکھ چکے تھے ہدایت کا رسعید اشرفی کے شاگرد ہو گئے۔ ان دنوں وہ بھٹی صاحب کی فلم’’ وارث شاہ‘‘ تیار کر رہے تھے۔ وارث شاہ فلم میں بھاگ بھری کا کردار اداکارہ بہار بیگم نے کیا تھا۔

وارث شاہ کو دانشوروں نے تو پسند کیا لیکن یہ فلم باکس آفس پر کامیابی حاصل نہیں کر سکی تھی۔ اس فلم کے بعد کیفی نے بطور ہدایت کار فلم’’منہ زور‘‘ بنائی جو27جون1966ء کو ریلیز ہوئی اور کامیاب رہی۔

اس کے بعد عنایت حسین بھٹی بھی باقاعدہ دوبارہ سے فلم انڈسٹری میں کودپڑے اور فلم’’ چن مکھناں‘‘ کا آغاز کیا اس کے بعد فلموں کی سیریل ہے جس میں سجن پیارا، ظلم دابدلہ، چیلنج، الٹی میٹم، طاقت، بلاول، محمد خان، مچھ جیل اور میرا ماہی قابل ذکر ہیں۔

جنوری1972ء کو جب ہدایت کار الطاف حسین نے اپنی فلم’’کون دلاں دیاں جانے‘‘ میں کیفی کو غزالہ کے مقابل ہیروئن کے طور پر لیا تو ان دونوں میں پیار کی پینگیں بڑھیں جو بعد ازاں محبت میں تبدیل ہو کر شادی پر ختم ہوئی۔ کیفی کے بڑے بھائی عنایت حسین بھٹی نے اس شادی کی مخالفت کی لیکن بات بن نہ سکی اور غزالہ کی وجہ سے دونوں بھائیوں میں اختلافات ہو گئے۔

یہ اختلافات اُس وقت ختم ہوئی جب عنایت حسین بھٹی نے خانم سے شادی کی۔ بھٹی صاحب نے اپنے بیٹے وسیم عباس کو بھی محبت کی شادی سے روکا تھا لیکن بیٹے نے باپ کا کہنا ماننے کی بجائے ایک ٹی وی اداکارہ سے شادی کرلی تھی۔

غزالہ سے ایک بیٹا عامر علی پیدا ہوا جو بڑا ہو کر کیفی کی فلم’’میدان‘‘ میں ہیرو بھی آیا لیکن ناکام رہا۔ غزالہ کی جب کیفی سے شادی ہوئی تو وہ فلمی لائن چھوڑ کر خانہ دارخاتون کی حیثیت سے زندگی گزارنے لگی۔

پھر خداکا کرنا کیا ہوا کہ مولاجٹ میں ہدایت کار یونس ملک نے کیفی کے مقابل چکوری کو لیا تو دونوں نے ایک دوسرے سے فلمی کی بجائے اصل محبت شروع کر دی۔ کیفی نے اُس پر خوب رقم خرچ کی اور چکوری کے ہاں کیفی کے دو بچے پیدا ہوئے ۔

کیفی کو منشیات کی بھی لت پڑگئی تھی جو بعدازاں دوستوں کے ہسپتال میں داخل کرانے کے بعد چھوٹ گئی۔ پھر چکوری کو بھی نشے کی لت پڑگئی لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر نہ چل سکا۔ تنگ آکر کیفی نے چکوری کو طلاق دے دی اس کے بعد چکوری نے تھیٹروں میں کام شروع کردیا جبکہ کیفی نے اداکار صائمہ کو ڈھونڈ لیا۔

کیفی صائمہ کی محبت میں ایسا کھویا کہ کوٹھی فروخت کر کے اُس کے لیے فلم ’’مارشل‘‘ شروع کی۔ پھر کچھ عرصہ بعد کیفی کا دل اس سے بھی بھر گیا تو اُسے طلاق دے کر وہ اپنی پہلی بیوں غزالہ کے پاس واپس آگیا۔

ہدایت کار کیفی اداکار تو تھا ہی وہ ایک منجھا ہوا ہدایت کار بھی تھا جس کا ایک اپنا الگ انداز تھا اور اپنی فلموں پر تنقید کھلے دل سے قبول کرتا تھا۔

ہمارا دوست حفیظ احمد بھٹی پکچرز کا برسوں تک رائٹر رہا۔ ظلم دابدلہ کاوہی مصنف تھا اور یہ واحد فلم تھی جو ایک ہی سنیما میں125ہفتہ تک چلی۔ اس کے علاوہ دھرتی دے لال ، عشق دیوانہ اور بعض دوسری فلمیں بھی حفیظ نے ہی لکھیں۔ میرا اکثر بھٹی پکچرز میں آنا جانا تھا اور کیفی سے گپ شپ معمول بن گیا تھا۔ کیفی نے150فلموں میں بطور اداکار کام کیا تھا اس کے علاوہ لاتعداد فلموں کی ہدایات بھی دی تھیں۔

کیفی کو دل لگانے کا اس قدر شوق تھا کہ آخر کار وہ دل کے عارضہ میں ہی مبتلا ہو گیا تھااور برسونں اس مرض کا شکار رہا اور ایک روز جان لیوا ثاہت ہوا۔

اس کے جنازہ میں ان کے بیٹوں، بھتیجوں وسیم اور ندیم عباس اورلوک گلوکار شوکت علی کے علاوہ ایک معاون ہدایت کار فہیم بھٹی کے علاوہ قریبی دوست شامل تھے جبکہ فلم انڈسٹری کی کوئی قابل ذکر شخصیت موجود نہیں تھی۔

Comments are closed.