فیض کے بارے میں ایک گفتگو

عبداللہ ملک

th

آج رجعت پسند اتنے بانجھ ہوگئے ہیں کہ اب ان کے ہاں نہ کوئی شاعر پیدا ہوسکتا ہے نہ مفکر جس کے ذریعے وہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرسکیں۔ اس لئے آج وہ فیض کو’’انسان دوست‘‘ ’’شریف النفس‘‘ اور ’’مومن‘‘ بناکر پیش کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کا مقصد ہی دراصل یہ ہے کہ فیض کی انقلاب دوستی، اس کی مارکسی انسان دوستی کے ڈنک کو نکال کراسے صرف ایک مرنجان مرنج انسان بناکر پیش کردیا جائے

زندہ ہاتھی لاکھ کا اور مرا ہاتھی سوالاکھ کا سوحساب فیض جی کا ہورہا ہے اب وہ سوالاکھ کے ہوگئے ہیں۔ ویسے فیض کے دوستوں اور چاہنے والوں کے لئے تو یہ خوشی کا مقام ہے کہ اُن کے چاہنے والوں کی تعداد میں معتدبہ اضافہ ہورہا ہے لیکن فیض کے چاہنے والوں میں ہر قسم کے لوگ تھے جیسے اس کے دشمنوں کی بھی متعدد قسمیں تھیں اور ہیں۔

چنانچہ اب ایک یلغار ہے اور اس کی زد میں فیض کی ذات، اس کا کلام، اس کا فلسفہ زیست، اس کا فلسفہ جہد، اس کا سیاسی مسلک غرضیکہ اس کی زندگی کا ہر شعبہ آگیا ہے اور دوست اور دشمن اس کو اپنے اپنے مسلک اپنے تعصبات، اپنی اپنی عینک سے اسے دیکھ رہے ہیں اور اسی رنگ میں عامتہ الناس کے سامنے پیش کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

اس لئے آج ضروری ہوجاتا ہے کہ فیض کو اس کے اپنے نام، اس کے نثر اور اس کے زندگی کی جدوجہد کے وسیع پس منظر میں رکھ کردیکھا جائے اور کوشش کی جائے کہ اس کی شخصیت کو ایک حدتک جوگدلانے کی کوشش کی جارہی ہے ان کوششوں کوناکام بنایا جائے کیونکہ ان کی شخصیت کو گدلانے کی کوششیں صرف دشمنوں کی صفوں سے ہی نہیں ہورہی ہیں بلکہ ان کے جاہل دوست جوان کی شخصیت اور ان سے تعلقات کے حوالے سے اپنا قد بھی بڑھانے کی کوشش میں ہزارداستانیں وضع کررہے ہیں، اس لئے ابھی سے چھان پھٹک کا عمل بھی ساتھ جاری رہنا چاہئے۔

پچھلے دنوں لاہور میں فیض کے حوالے سے دو محفلیں بپاہوئیں ایک سرکاری نہج کی تھی جس کا اہتمام پاکستان آرٹ کونسل کے ڈائریکٹر جنرل خالد سعید بٹ نے کیا تھا اور اس کی صدارت وزیر سیاحت اور کلچرارباب نیاز محمد نے کی تھی، اس میں سب سے اہم تقریر پروفیسر کرارحسین نے کی تھی جنہوں نے فیض کو ایک نظریے اور اپنے وطن کی مخصوص مٹی اور اس کی مختلف ثقافتوں کی آمیزش کا شاعرقراردیا تھا اور کہا تھا کہ کمیونزم کے نظریے نے تو فیض پیدا کردیا۔ اب خدا کرے اسلام کو نظریہ بناکر پیش کرنے والے بھی اپنے اندر سے ایک دوفیض پیدا کرسکیں۔

پروفیسر کرارحسین نے اس امر پر اصرار کیا تھا کہ ان کے نزدیک اسلام دین حق ہے نہ کہ نظریہ کیونکہ نظریہ زمانے سے متعلق ہوتا ہے اور دین دائمی ہوتا ہے۔ پروفیسر کرارحسین کی باتوں پر جوتائید اور تحسین کی تالیاں پٹیں۔ اس سے محکمہ سیاحت کے مرکزی سیکرٹری کچھ غصے میں آگئے اور انہوں نے ان باتوں کی تردید کرنے کی کوشش کی ۔اس پر حاضرین محفل اپنی ناپسندیدگی کے اظہار میں اٹھ کر جانا شروع ہوگئے اور اس محفل کا آخری جملہ قدرت اللہ شہاب کا تھا جنہوں نے کہا تھا کہ میرے جیسے ٹکے ٹکے کے بیوروکریٹ تو آتے جاتے رہتے ہیں لیکن فیض جیسے نابغہ روزگارصدیوں کے بعد پیدا ہوتے ہیں۔

اس محفل کا ذکر اس لئے کیاگیا ہے کہ کس طرح ایک ہی محفل میں فیض کوکس طرح متنازعہ بنایا گیا۔ ایک طرف پروفیسر کرارحسین تھے دوسری طرف سرکار کی وقتی ضرورتوں کا احساس جان کو کھائے جارہا تھا اور اس طرح ایک سجی سجائی محفل کو غارت کرنے سے بھی دریغ نہیں کیاگیا۔

ایک محفل اور منعقد ہوئی، یہ محفل روزنامہ جنگ والوں نے اپنے فورم کے تحت منعقد کی، اس محفل کے دولہامیاں ممتاز محمد خاں دولتانہ تھے، میاں ممتاز محمد خاں دولتانہ نے تقریباً دوگھنٹے تک فیض کے بارے میں اپنے خیالات اور تاثرات کا اظہار کیا۔ا نہوں نے اس بیسویں صدی کے آخری نصف میں تخلیق کی جانے والی عالمی شاعری کے کینوس میں فیض کو پرکھنے کی کوشش کی۔

میاں ممتاز دولتانہ کو عام لوگ ایک سیاسی قائد کے حوالے سے ہی جانتے ہیں کم لوگوں کو یہ علم ہے کہ میاں دولتانہ ادب، شاعری، موسیقی اور دیگر فنون لطیفہ کے بے حد شائق ہیں اور ان کے بارے میں وہ مسلسل پڑھتے رہتے ہیں چنانچہ اس محفل میں انہوں نے یہ بتایا کہ وہ انگریزی، اردو، پنجابی ہی نہیں بلکہ فرانسیسی اطالوی اور ہسپانوی زبانیں بھی جانتے ہیں اور ان زبانوں میں پیدا ہونے والی شاعری بھی وہ پڑھتے رہتے ہیں اس لئے وہ بغیر کسی مبالغے کے یہ تقابل کرسکتے ہیں کہ فیض کی شاعری ان تمام زبانوں میں تخلیق کی جانے والی شاعری سے زیادہ ارفع واعلیٰ تھی۔ انہوں نے فیض کی وطن دوستی اور جب الوطنی کا بھی ذکر کیا اور کہا فیض سے بڑھ کر کوئی اور محب وطن ان کی نگاہوں میں نہیں ہے، انہوں نے آخر میں فیض صاحب کی مسلمانی کا بھی ذکر کیا اس کے بعد سوالوں کا سلسلہ شروع ہوا۔

اس محفل میں آئی اے رحمن نے میاں ممتاز محمد خاں دولتانہ سے سوال کیا میاں صاحب آپ نے فیض کے کلام کے بارے میں اتنا عالمانہ لیکچر دیا ہے۔لیکن آپ نے فیض کے سیاسی مسلک کے بارے میں کوئی تذکرہ نہیں کیا؟

اس پر میاں ممتاز محمد خاں دولتانہ نے کچھ توقف اور ہچکچاہٹ کے ساتھ کہا کہ فیض مارکسسٹ تھا، اس کے بعد انہوں نے اپنے عالمانہ طریقے سے یہ بھی وضاحت کرنے کی کوشش کی کہ کس طرح مارکسزم میں بھی کئی تبدیلیاں آگئی ہیں۔ ان کی گفتگو سے یہ محسوس ہوتا تھا کہ فیض کو مارکسسٹ تسلیم کرنے کے باوجود اس کے مارکسزم کی اہمیت کو قدرے گھٹا دیا جائے۔

اسی طرح سے عبدالقادرحسن نے کہا کہ میاں صاحب کیا فیض کی شاعری تمام دنیا کے انسانوں کے لئے نہ تھی اور وہ پڑھ کر انسان پر کہیں بھی ظلم ہوتا ہو وہ اس کو اپنے متعلق ہی محسوس کرے گا۔ میاں صاحب نے اس کو تسلیم کیا۔ مقصد یہ محسوس ہوتا تھا کہ فیض کی شاعری کو کسی بھی کھاتے میں ڈال دو لیکن مارکسزم کے کھاتے میں نہ ڈالو! کچھ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے مارکسسٹ اور دولت دو متضاد خانے ہیں۔ اس لئے فیض انسان دوست مان لیا جائے اور مارکسسٹ نہ مانا جائے حالانکہ مارکسزم کا پورا ڈھانچہ ہی انسان دوستی پر تعمیر ہوتا ہے۔

مختلف محفلوں کا میں نے ذکر ہی اس لئے کیا ہے تاکہ میں فیض کی شاعری اور اس کی زندگی کی جدوجہد پر مارکسزم کی چھاپ کا تعین کرسکوں کیونکہ میرے نزدیک فیض کی عظمت کا راز مارکسزم پر اس کو جو عبور اور ادراک حاصل تھا اس میں پوشیدہ ہے۔ دراصل فیض نے مارکس کے فلسفہ جہد کو پوری طرح اپنے اندر جذب کرلیاتھا وہ اس کے رگ وریشے میں سرایت کرگیا تھا۔

ہمارے ہاں چونکہ مارکسزم صرف ایک نعرہ سمجھاجاتا یا جدال وقتال کا فلسفہ تصور کیا جاتا ہے اور آج چونکہ دیس دیس بالخصوص تیسری دنیا میں کے اکثر ممالک میں عامتہ الناس مارکسزم کے پرچم تلے اپنے لوگوں سے آزادی اور خوشحالی کے لئے مصروف پیکار ہیں اور یہ معرکہ تلوار بدست بھی ہورہا ہے، مظاہروں، جلسوں، جلوسوں اور ہڑتالوں کی شکل میں بھی کھیلا جارہا ہے۔ اس لئے ایسے سمے میں جب مارکسزم عملی جدوجہد گوریلا طریق جنگ سے کلیتہً منسوب ہوگیا ہو تو ہمارے ہاں کا دانشور اور پڑھا لکھا حیران ہوکر کہتا ہے کہ فیض جیسا کم گو’’شرمیلا‘‘’’شریف النفس‘‘ کیسے مارکسسٹ ہوسکتا ہے۔

دراصل مصیبت یہ ہے کہ ہمارے ہاں چونکہ سیاسی عمل بالکل زیر زمین چلا گیا ہے اور بظاہر ایک قبر کاساسکوت چھاگیا ہے تو ایسے میں صرف فیض کی آواز اور شاعری ہی تھی جو اس خاموشی، اسی سکوت اور اس یاس وناامیدی کا پردہ چاک کررہی تھی اور وہ بہت ہولے، ہولے، آہستہ خرامی سے توایسی آواز اور شاعری کے خالق کو ہم مارکسسٹ ماننے سے گریزاں تھے کیونکہ ہم نے مارکسزم کو گھن گرج، جدال وقتال اور گوریلا طریق جنگ سے ہم آہنگ کررکھا تھا اور فیض چونکہ ان پر پورا نہیں اتر تا تھا اس لئے ہم اس کو مارکسسٹ ہی تسلیم نہیں کرتے تھے۔

یہ ہم فراموش کردیتے ہیں کہ مارکسزم ایک فلسفہ زیست ہے، دنیا اور کائنات، کو ماننے، اس کے ارتقاء اور تبدیلیوں کے ضابطوں اور قوانین پر عبور حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے لیکن ہم اس مارکسزم کو جوفلسفہ زیست ہے کو ماننے سے انکار کرتے ہیں یا ماننا ہی نہیں چاہتے۔ اس لئے فیض کو بھی اسی کھاتے میں ڈال دیتے ہیں اور یہ کہہ کر گذر جاتے ہیں کہ فیض جیسا شریف النفس انسان بھلا کیسے مارکسی ہوسکتا ہے۔ لہٰذا ہم فیض کو مارکسی فلسفے کا حامی اور جدید تسلیم کرنے سے ہچکچاتے اور گریز کرتے ہیں اور میاں ممتاز محمد دولتانہ جیسے سیاسی قائد کے لئے تو اور بھی یہ بات لرزادیتی ہے کہ یارلوگ کیا کہیں گے کہ یہ مارکسسٹ فیض کی تعریف میں رطب اللسان ہے کہیں یہ خود بھی تومارکسسٹ تو نہیں۔

اور سچ تو یہ ہے کہ میاں ممتاز دولتانہ کی تمام عمر اسی انجمن، اسی ادھیڑپن اور اسی خوف میں کٹی ہے کہ لوگ اسے کہیں مارکسسٹ اور کمیونسٹ نہ کہہ دیں، اسی لئے انہوں نے اپنی سیاست کے دورشباب میں اپنے ایسے دوستوں سے منہ بھی موڑا اور دائیں بازو سے یارانہ گا نٹھنے کے لئے کون ساپاپٹرتھا جو انہوں نے نہیں بیلالیکن بالا خران کے اندر کا ترقی پسند ان کو حلقہ فیض میں کشاں کشاں لے آیا اور اماں ملی، سکوں ملا، توکہاں ملا۔

اس لئے ضروری اور لازم ہے کہ ہم اب فیض کے بارے میں کھل کر بات کریں یہ بات شروع میں ہی ہمیں تسلیم کرلینی چاہئے کہ فیض بنیادی طور پر شاعر تھا وہ انسانی ثقافت اور تہذیب کا طالب علم تھا تمام عمر اس نے مارکس کی تعلیمات کی روشنی میں ان موضوعات پر کام کیا ہے لیکن وہ مارکسی قائد نہ تھا لیکن چونکہ ایسے ملک میں اس نے شاعری کی، صحافت کی، فنون لطیفہ کے بارے میں کام کیا، ٹریڈیونین میں بھی کام کیا جہاں بالعموم سیاسی عمل پر قدغن اور پابندیاں رہی ہیں۔

اس لئے لوگوں نے فیض سے ہمیشہ سیاسی قیادت کی توقعات وابستہ کرلیں اور ان کو ایک کمیونسٹ قائد کے روپ میں دیکھنے کی کوشش کی جو مختلف ادوار میں بائیں بازو کی رہنمائی کرنے کے لئے سیاسی داؤپیچ اور طریق کار کار تعین کرے، یہ تمام باتیں اس کے بس کی نہ تھیں اب کسی نے پبلونرودا سے سیاسی رہنمائی کی توقع نہ کی تھی، نہ ہی ناظم حکمت سے یہ توقع کی گئی تھی۔ اس لئے فیض کو اس کے دائرہ کار میں پرکھنا چاہئے، اس میدان میں میں نے کھل کر اپنی سماجی تبدیلیوں کی نشاندہی کی ہے۔

ہاں اب فیض کے مارکسزم کا جہاں علم حاصل کیا وہاں بنیادی طور پر اس کو مارکسزم کے فلسفے کی کشاکش روز گار نے بھی مائل کیا اور اسے اپنے چاروں طرف جوزبردست تبدیلیاں رونماہورہی تھیں اس نے بہت بری طرح متاثر کیا تھا اور یہ زمانہ تھا اس کی شاعری کی ابتداء کا۔ یہ زمانہ تھا جب یہ کرہ ارض1929ء کے زبردست اقتصادی بحران کی لپیٹ میں آرہاتھا جب سرمایہ دار دنیا اور اس کے غلام ممالک میں بے روز گاری اور افراط زر اپنے عروج پر تھیں اور اسی دور کے متعلق فیض خود لکھتا ہے۔

شعر گوئی کا واحد عذرگناہ تو مجھے نہیں معلوم۔ اس میں بچپن کی فضائے گردو پیش میں شعر کاچرچا، دوست احباب کی ترغیب اور دل کی لگی سب ہی کچھ شامل ہے، یہ نقش فریادی کے پہلے حصے کی بات ہے جس میں28-29ء سے34-35ء تک کی تحریریں شامل ہے جو ہماری طالب علمی کے دن تھے یوں توان سب اشعار کا قریب قریب ایک ہی قلبی اور جذباتی واردات سے تعلق ہے اور اس واردات کا ظاہری محرک تو وہی ایک حادثہ ہے جو اس عمر میں اکثر نوجوان دلوں پر گزر جایا کرتا ہے۔

لیکن اب جو دیکھتا ہوں تو یہ دور بھی اب دور نہیں تھا بلکہ اس کے بھی دو الگ الگ حصے تھے جن کی داخلی اور خارجی کیفیت کافی مختلف تھی۔ وہ یوں ہے کہ20ء سے30تک کا زمانہ ہمارے ہاں معاشی اور سماجی طور سے عجب طرح کی بے فکری، آسودگی اور ولولہ انگیزی کا زمانہ تھا، جس میں اہم قومی اور سیاسی ہلچل کے ساتھ ساتھ نثرو نظم میں بیشتر سنجیدہ فکر ومشاہدہ کے بجائے کچھ رنگ رلیاں منانے کا ساانداز تھا۔ شعر میں اوّلاً حسرت موہانی اور ان کے بعد جوش، حفیظ جالندھری اور اختر شیرانی کی ریاست قائم تھی، افسانے میں یلدرم اور تنقید میں حسن برائے حسن اور ادب برائے ادب کا چرچا تھا۔

نقش فریادی کی ابتدائی نظمیں، خداوہ وقت نہ لائے کہ سوگوار ہوتو، اب بھی اپنا حسن واپس پھیردے مجھ کو،ہوتو نجوم کہیں چاندنی کے دامن میں، وغیرہ وغیرہ ماحول کے زیر اثر مرتب ہوئیں اور اس فضا میں ابتدائے عشق کا تحیر بھی شامل تھا لیکن اس دور کی ایک جھلک بھی ٹھیک سے نہ دیکھ پائے تھے کہ صحبت یار آخر شد۔ پھردنیا پر عالمی کسادبازاری کے سائے ڈھلنے شروع ہوئے۔ کالج کے بڑے بڑے بانکے خان تلاش معاش میں گلیوں کی خاک پھانکنے لگے۔

یہ وہ دن تھے جب یکایک بچوں کو چپ لگ گئی۔ اجڑے ہوئے کسان کھیت کھلیان چھوڑ کر شہروں میں مزدوری کرنے لگے اور ان کی شریف بہو بیٹیاں بازار میں آبیٹھیں۔ گھر کے باہر یہ حال تھا اور گھر کے اندر مرگ سوزکاکہرام مچا تھا۔ یکایک یوں محسوس ہونے لگا کہ دل ودماغ پر سبھی راستے بندہوگئے ہیں اب یہاں کوئی نہیں آئے گا۔ اس کیفیت کا اختتام جو نقش فریادی کے پہلے حصے کی نظموں کی کیفیت ہے ایک نسبتاً غیر معروف نظم پر ہوتا ہے، جسے میں نے یا س کا نام تھا وہ یوں ہے۔
یاس
بربط دل کے تار ٹوٹ گئے
ہیں زمین بوس راحتوں کے محل
مٹ گئے قصہ ہائے فکر وعمل
بزم ہستی کے جام پھوٹ گئے
چھن گیا کیف کوثر وتسنیم
زحمت گریہ و بکا بے سود
شکوہ بخت نارسا بے سود
ہوچکا ختم رحمتوں کا نزول
بندہے مدتوں سے باب قبول
بے نیاز دعا ہے رب کریم
بجھ گئی شمع آرزوئے جمیل
یاد باقی ہے بے کسی کی دلیل
انتظار فضول رہنے دے
راز الفت نباہنے والے
بار غم سے کراہنے والے
کاوش بے حصول رہنے دے

سنہ34ء میں ہم لوگ کالج سے فارغ ہوئے اور35ء میں مَیں نے ایم اے اور کالج امرتسر میں ملازمت کرلی۔ یہاں سے میری اور میرے بہت سے ہمعصر لکھنے والوں کی ذہنی اور جذباتی زندگی کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔ اس دوران کالج میں اپنے رفقا صاحبزادہ محمود الظفر مرحوم اور ان کی بیگم رشید جہاں سے ملاقات ہوئی۔ پھر ترقی پسند تحریک کی داغ بیل پڑی، مزدورتحریکوں کا سلسلہ شروع ہوااور یوں لگا کہ جیسے گلشن میں ایک نہیں کئی دبستان کھل گئے ہیں۔

اس دبستان میں سب سے پہلا سبق جو ہم نے سیکھا تھا کہ اپنی ذات باقی دنیا سے الگ کرکے سوچنا، اوّل تو ممکن ہی نہیں، اس لئے کہ اس میں بہرحال گردو پیش کے سبھی تجربات شامل ہوتے ہیں اور اگر ایسا ممکن ہو بھی تو انتہائی غیر سود مندفعل ہے کہ ایک انسانی فرد کی ذات اپنی سب محبتوں اور کدورتوں، مسرتوں اور نجشوں کے باوجود بہت ہی چھوٹی سی بہت ہی محدود اور حقیر شے ہے۔ اس کی وسعت اور پہنائی کا پیمانہ تو باقی عالم موجودات سے اس کے ذہنی اور جذباتی رشتے ہیں۔ خاص طور سے انسانی برادری کے مشترکہ دکھ درد کے رشتے چنانچہ غم جاناں اور غم دوراں تو ایک ہی تجربے کے دوپہلو ہیں اس نئے احساس کی ابتدانقش فریادی کے دوسرے حصے کی پہلی نظم سے ہوتی ہے اس نظم کا عنوان ہے۔’’مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ‘‘ اور اگر آپ خاتون ہیں تو’’مرے محبوب نہ مانگ‘‘
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا کہ توہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے؟
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہوجائے
یوں نہ تھا، میں نے فقط چاہاتھا یوں ہوجائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم واطلس وکمخواب میں بنوائے ہوئے
جابجا بکتے ہوئے کوچہ وبازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے
اب بھی دلکش ہے تیرا حسن، مگر کیا کیجئے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ

اس کے بعد تیرہ چودہ برس ’’کیوں نہ جہاں کا غم اپنا لیں‘‘ میں گزرے اور پھر فوج، صحافت ٹریڈیونین وغیرہ میں گزارنے کے بعد ہم چار برس کے لئے جیل خانے چلے گئے‘‘۔

یہ میں نے طویل اقتباسات فیض کے اپنے قلم سے اس لئے دیا ہے کہ آج فیض کو جو اس کے دشمن ہائی جیک کرکے اپنے کھاتے میں ڈالنا چاہتے ہیں ان کا منہ بند کیا جاسکے۔ گومجھے معلوم ہے کہ یہ عمل بہت دنوں جاری رہے گا۔ کیونکہ آج رجعت پسند اتنے بانجھ ہوگئے ہیں کہ اب ان کے ہاں نہ کوئی شاعر پیدا ہوسکتا ہے نہ مفکر جس کے ذریعے وہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرسکیں۔ اس لئے آج وہ فیض کو’’انسان دوست‘‘ ’’شریف النفس‘‘ اور ’’مومن‘‘ بناکر پیش کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کا مقصد ہی دراصل یہ ہے کہ فیض کی انقلاب دوستی، اس کی مارکسی انسان دوستی کے ڈنک کو نکال کراسے صرف ایک مرنجان مرنج انسان بناکر پیش کردیا جائے لیکن غالباً فیض اتناسخت جان ثابت ہوگا جہاں قائداعظم اور اقبال ان’’جہلا‘‘ کی یلغار سے محفوظ نہیں رہ سکے وہاں فیض محفوظ رہ جائے گا۔ وگرنہ اب تک فیض کے’’اقوال‘‘ بھی ٹیلی ویژن پر آنے شروع ہوجاتے۔

دراصل فیض کا ہی وہ دور ہے جب وہ مارکسزم کی طرف مائل ہوا اور اب ضرورت اس امرکی ہے کہ اس دور کی تفصیلات کو اگر یکجاکیا جائے تو نئی نسل کو معلوم ہوگا کہ یہ کتنا ہنگامہ خیز دور تھا جس نے پورے برصغیر میں زبردست ہلچل پیدا کی اور یہی وہ دور تھا جب دوسرا کمیونسٹ سازش کیس میرٹھ میں قائم ہوا جس میں پورے برصغیر کے چوٹی کے کمیونسٹ پابندسلاسل کئے گئے۔یہی وہ دور تھا جب پہلی باراشترا کی روس کا پہلا پنجسالہ منصوبہ کا میاب وکامران ہوا۔ اور بے روزگاری کا عملاً خاتمہ ہوا اور اس کے مقابلے میں سرمایہ دار دنیا شدید اقتصادی بحران کا شکار ہوئی۔

اسی ہنگامہ خیزیوں نے ہندوستان کے برصغیر میں ہر زبان میں ادب کی نئی تحریکوں اور نئے رحجانات کو جنم دیا اور فیض انقلابی تحریک کا منتہائے کمال ہے۔ نصف صدی میں جس کی آبیاری ہوئی تھی اور آج ایک عالم اس انقلابی تحریک کے سائے میں زندگی گذاررہا ہے زندگی گذارنے کے لئے مصروف پیکار ہے۔

اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائینگے


(
مطبوعہ ادب لطیف،لاہور)

3 Comments