وہابی ازم نے بنگلہ دیش پر یلغار کر دی‘: تسلیمہ نسرین

taslimanasreen

مذہب پر تنقید اور خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی بنگلہ دیشی مصنفہ تسلیمہ نسرین نے کہا ہے کہ بنگلہ دیش میں مسلم انتہاپسندی زیادہ مضبوط ہو رہی ہے اور مذہب کی سیاسی شکل مزید طاقت حاصل کر رہی ہے۔

نسرین گزشتہ 21 برسوں سے جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں اور اس دوران انہیں بھارت، جرمنی اور امریکا میں قیام کرنا پڑا۔ اسلام پر ان کی تنقید کی بنا پر ان پر کئی بار قتل کے فتوے لگائے جا چکے ہیں۔ تاہم 53 سالہ نسرین ان فتووں سے مرعوب ہوتی دکھائی نہیں دیتیں اور آج بھی زور و شور سے آزادیء اظہار اور خواتین کے حقوق کی حمایت میں دلائل دیتی نظر آتی ہیں۔

بنگلہ دیش میں حالیہ کچھ ماہ میں مسلم شدت پسندی کے تناظر میں پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ رواں برس کے آغاز سے اب تک کم از کم چار ایسے بلاگرز کو قتل کیا جا چکا ہے، جو لادین تھے۔ اس کے علاوہ غیرملکیوں اور اقلیتوں پر حملوں کے واقعات بھی وقفے وقفے سے دیکھے جا رہے ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے ایک خصوصی انٹرویو میں تسلیمہ نسرین نے کہا کہ بنگلہ دیش میں آزاد خیال اور آزاد فکر لوگوں کے لیے زمین تنگ ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیگر مذاہب کی طرح اسلام پر بھی تنقید ہونا چاہیے کیوں کہ کوئی بھی مذہب انسانی فکر و سوال سے ماورا نہیں۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا بنگلہ دیش میں مذہبی انتہاپسندی ان کے اپنا ملک چھوڑنے کے وقت کے مقابلے میں بڑھ چکی ہے خصوصاً جب بنگلہ دیش میں حالیہ کچھ عرصے میں لادین بلاگرز، مصنفین اور ناشرین کی ہلاکتوں کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔،

ان کا کہنا تھا، ’’میرے خیال میں ایسا ہی ہے۔ جب میں بنگلہ دیش میں رہتی تھی تو ہزاروں افراد میری موت کے نعرے لگایا کرتے تھے مگر اب نوجوان مصنفین اور بلاگروں میں سے جو کوئی اسلام پر تنقید کرتا ہے، اسے مذہبی دہشت گرد قتل کر دیتے ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ’’بنگلہ دیش میں شدت پسندی کا بیج 80ء کی دہائی میں بویا گیا، جب مشرق وسطیٰ کے ممالک نے بھاری سرمایہ مہیا کر کے وہاں مساجد اور مذہبی مدرسوں کا قیام ممکن بنایا اور بنگلہ دیشی معاشرہ، جو برداشت سے عبارت تھا، رفتہ رفتہ مذہبی شدت پسندی اور تشدد کی جانب بڑھنا شروع ہو گیا۔ مذہبی مدارس نے اس سلسلے میں شدت پسند نظریات کو پروان چڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

مشرق وسطیٰ سے آنے والے سرمائے سے بننے اور چلنے والی مساجد اور مدارس نے بنگلہ دیشی معاشرے میں انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کی ایک پوری کھیپ پیدا کر دی۔ 70 اور 80 کی دہائیوں میں بنگلہ دیشی لڑکیاں اس قدر تعداد میں حجاب اور برقعے پہنے دکھائی نہیں دیتی تھیں، جتنی آج نظر آتی ہیں۔ مگر جب سے شدت پسند وہابی کلچر نے بنگلہ دیش پر یلغار کی ہے، یہ معاشرہ بدقسمتی سے سیاسی اسلام کی نذر ہو گیا ہے۔‘‘

جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ بنگلہ دیش میں موجودہ حکمران جماعت عوامی لیگ تو ایک سیکولر جماعت کے طور پر جانی جاتی ہے، تو پھر مسلم انتہاپسند کس طرح اپنی طاقت میں اضافہ کر رہے ہیں، نسرین نے کہا، ’’عوامی لیگ اب سیکولر پارٹی نہیں رہی۔ یہ اب ایک طرح سے جماعت اسلامی کی طرح کی مذہبی پارٹی بن چکی ہے۔

عوامی لیگ میں ایک گروپ علماء لیگ کے نام سے کام کر رہا ہے، جو اسلامی شدت پسندی کو جواز مہیا کر رہا ہے اور آزاد فکر اور لبرل افراد کے قتل کی اجازت دے رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے ارکان اب عوامی لیگ میں شامل ہو رہے ہیں کیوں کہ وہ قریب ایک سے نظریے کے حامل ہیں۔ سیکولر اور ترقی پسند مصنفین کے قتل پر وزیر اعظم حسینہ واجد نے ایک بیان تک جاری نہیں کیا بلکہ خبردار کیا کہ آزادیء اظہار کی حدود کو ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہیے۔‘‘

عالمی سطح پر متعدد ایوارڈز حاصل کرنے والی اس مصنفہ کا کہنا تھا کہ مسلم انتہاپسند اب بھی ان کے قتل کے فتوے جاری کر رہے ہیں اور وہ اب بھی ایسے گروپوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں۔

DW

Comments are closed.