آئن اسٹائن کا نظریہء اضافیت، سو برس بیت گئے

tumblr_mo7ymjHu8v1s9v5qzo1_500

البرٹ آئن اسٹائن کی ’جنرل تھیوری آف ریلیٹویٹی‘ یا ’عمومی نظریہء اضافیت‘ کے سو برس مکمل ہو گئے ہیں، تاہم یہ نظریہ آج تک کی جانے والی ہر جانچ پر پورا اترا۔

اس انقلابی نظریے نے انسان کی سوچ کے تمام زاویوں اور کائنات سے متعلق کئی مضبوط نظریات کو مکمل طور پر رد کر دیا۔ ان سو برسوں میں بے شمار سائنس دانوں نے اس نظریے میں خامیوں اور کمزوریوں کو تلاش کرنے کی کوششوں میں اپنی عمریں گزار دی ہیں، مگر آج تک یہ نظریہ اپنی بنیاد سے ایک انچ بھی ادھر ادھر نہیں ہوا۔

میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے تاریخِ سائنس کے شعبے کے پروفیسر ڈیوڈ کائزر کے مطابق، ’’آئن اسٹائن نے بہت بنیادی اشیاء سے متعلق ہماری سوچ کو تبدیل کر دیا، یعنی زمان و مکاں سے متعلق اور اس طرح کائنات کو دیکھنے کے حوالے سے ہمارا زاویہء نگاہ تبدیل ہو گیا۔ ہمیں نظر آیا کہ کتنی دلچسپ چیزیں کائنات میں اپنا اپنا کام کر رہی ہیں، جیسے بلیک ہولز۔‘‘

جرمنی میں پیدا ہونے والے اس عظیم سائنس دان نے اپنی زندگی کے آخری برس شمال مشرقی امریکا کی پرنسٹن یونیورسٹی میں گزارے۔ انہوں نے 25 نومبر 1915 کو یہ غیرمعمولی نظریہ پیش کیا تھا۔ آئن اسٹائن کا یہ نظریہ دستاویزی حالت میں مارچ 1916 میں جرمن سائنسی جریدے ’انالین ڈیر فزیک‘ میں شائع ہوا تھا۔

سن 1687ء میں سر آئزک نیوٹن نے کائناتی تجاذبی قوت سے متعلق اپنا قانون پیش کیا تھا، تاہم اس کے بعد نظریہء اضافیت کو جدید سائنس میں سب سے بڑی علمی جست تصور کیا جاتا ہے۔ نیوٹن نے اپنے قانون میں تجاذبی قوت سے متعلق تخمینہ لگاتے ہوئے اسے ایک آسان ریاضاتی مساوات میں پیش کیا تھا، یعنی تجاذبی قوت برابر ہوتی ہے، دو اجسام کی کمیتوں اور کائناتی تجاذبی مستقل کے درمیان ضرب اور دونوں اجسام کے مرکزوں کے درمیان فاصلے کے مربع سے تقسیم کے۔ ریاضیاتی طریقے سے یہ قانون سائنسی انداز میں کچھ یوں

F = Gm1m2/r2

تحریر کیا جاتا ہے۔

تاہم نیوٹن اپنے اس قانون میں یہ بتانے سے قاصر رہے تھے کہ کائنات میں اس قوت کی موجودگی کی وجہ کیا ہے یا اجسام کے درمیان کشش کی یہ قوت پیدا کیوں ہوتی ہے۔ یہی بنیادی معمہ آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت نے حل کیا اور بتایا کہ کس طرح یہ کائنات زمان و مکان کا ایک کپڑا سا ہے، جس پر جب بھی کمیت کی حامل کوئی شے رکھی جائے گی، تو اس کپڑے میں خم پیدا ہو جائے گا اور اسی خم کی وجہ سے قریب موجود دیگر اجسام اس کی جانب کھچے چلے آئیں گے۔ یعنی جتنی زیادہ کمیت ہو گی، زماں و مکاں میں یہ خم اتنا ہی زیادہ ہو گا اور نتیجہ اتنی ہی زیادہ کشش کی صورت میں برآمد ہو گا۔

اس نظریے میں آئن اسٹائن کا یہ بھی کہنا تھا کہ زمان و مکان جامد نہیں بلکہ ان کے اندر لچک موجود ہے اور تجاذبی قوت ان پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کمیت کی وجہ سے اسپیس میں خم پیدا ہو جاتا ہے اور وقت کی جہت تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس نظریے کے مطابق اگر کسی جگہ پر بے انتہا کمیت رکھی جائے گی، تو وہاں خم خلا میں چھید کی صورت میں پیدا ہو گا اور وقت جامد ہو جائے گا جب کہ بعد میں بلیک ہولز کی دریافت نے آئن اسٹائن کے اس نظریے پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔

اسی طرح گریویٹیشنل لینزنگ یا تجاذبی عدسیت سے متعلق بھی آئن اسٹائن کی پیش گوئی درست ثابت ہو گئی اور دور دراز کہکشاؤں میں ستاروں کی تباہی سے پیدا ہونے والے سپرنووا کی زمین تک پہنچنے والی روشنی پر درمیان میں حائل دیگر کہکشاؤں کی کمیت کے اثرات بھی ماپ لیے گئے۔ آئن اسٹائن کے مطابق زیادہ کمیت کی موجودگی میں وقت کی رفتار کم ہو جاتی ہے، یعنی خلا میں چلنے والا وقت کسی سیارے یا ستارے کی سطح پر چلنے والے وقت سے تیز ہوتا ہے۔

آئن اسٹائن ہی وہ طبیعات دان تھے، جنہوں نے پہلی دفعہ یہ واضح کیا کہ اگر مادہ روشنی کی رفتار سے سفر کرے تو وہ توانائی میں تبدیل ہو جائے گا، یعنی مادہ توانائی ہی کی ایک مرتکز قسم ہے۔ آئن اسٹائن نے اس بات کو ریاضیاتی شکل میں 

E=mc2

کی صورت دی تھی۔

سوئٹزرلینڈ کے ایک پیٹنٹ آفس میں کلرک کے طور پر کام کرنے والے آئن اسٹائن نے اپنے غیرمعمولی نظریات سے پوری دنیا کی سوچ کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ عقل و فکر کے ایک محاورے کے طور پر جانا جانے والا یہ سائنس دان 18 اپریل سن 1955 کو انتقال کر گیا مگر زندگی کی آخری سانس تک سائنسی معموں کی پیچیدہ گتھیاں سلجھانے کی کوشش میں رہا۔

One Comment