برداشت کا عالمی دن

عرفان احمد خان

56509dc9d1833
سوموار16 نومبرکو دنیا بھر میں برداشت کا عالمی دن منایا گیا۔ اس دن کو منانے کا مقصدعدم برداشت کا نشانہ بننے والے افراد ا، تنظیموں اور انجمنوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کرنا اور افراد معاشرہ میں برداشت کے جذبہ کو فروغ دینے کے لیے سیمینار جلسے منعقد  کرکے برداشت کی اہمیت اور فوائد سے لوگوں کو آگاہی دینا ہے۔ سیاسی طورپر دنیا میں طاقت ور ہمیشہ کمزور ممالک پر حاوی رہے ہیں اور کمزوروں کے پاس سوائے برداشت کے کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں۔ لیکن یہ بھی ممکن نہیں کہ برداشت کے دوران مظلوم طبقات اور قوموں کے افراد میں ردعمل پیدا نہ ہو۔ اس ردعمل کو دبائے رکھنا بعض اوقات مجبوری بن جاتا ہے لیکن اندر ہی اندر لاوا ضرور پکتا رہتا ہے جو ایک دن بالاخر ضرور پھٹتا ہے۔

گذشہ ہفتے پیرس میں جو کچھ ہوا اس کے بارے میں ایک رائے یہ بھی ہے یہ عراق لبیا اور ملک شام کے حالات کا ردعمل ہے۔ کیا مسلمانوں کی بعض تنظیموں کے پاس کسی دوسرے ردعمل کا راستہ ہی نہیں بچا۔ کیا دنیا میں کشت و خون کی ہولی اب مسلسل کھیلی جاتی رہے گی۔راہ راست سے بھٹکے مسلمانوں کی طرف سے کشت و خون پر مشتمل ردعمل قیادت کے فقدان کی وجہ سے ہے ۔ مسلمانوں میں عالمی سطح کا کوئی راہبر موجود نہیں جو مسلمانوں کی ذہنی تربیت اسلامی تعلیم کے مطابق کر سکے۔ جو آوازیں صراطِ مستقیم کی نشان دہی کے لیے اٹھتی ہیں اس کی مخالفت میں مذہب کے دوکاندار یکجا ہو کر اس ہمدرد آواز کو دبانے کے درپے ہوجاتے ہیں یہ عدم برداشت کا کلچر مسلمانوں میں زیادہ پایا جاتا ہے ۔ خصوصاً برصغیر کی سرزمیں اس کام کے لیے بہت زرخیز ہے۔

ہم خود نظریاتی ملک ہونے کے دعویدار ہیں اور کسی دوسرے نظریہ کا فروغ ہمیں برداشت نہیں۔ نظریہ تو دور کی بات ہے ہمیں لبرل اور سیکولرازم جیسے الفاظ سے ایسی چڑ ہے کہ ہم ان الفاظ کو سن کر اپنے حواس کھوبیٹھتے ہیں ۔ گذشتہ دنوں وزیراعظم نے اسلام آباد میں ہونے والی سرمایہ کاری کانفرنس میں لبرل پاکستان کالفظ بول دیا تو مخصوص اسلام پسند صحافیوں اور ٹی وی اینکرز کی قوت برداشت جواب دے گئی۔ اخباروں کے صفحات کالموں سے بھر گئے کہ نظریاتی ملک میں کسی لبرل ازم کی گنجائش نہیں۔ ملک میں کوئی آئینہ دیکھنے کو تیار نہیں۔ زندگی کا کونسا شعبہ ہے جو کرپشن سے پاک ہو۔ ہر روز کرپشن کی نئی کہانی اخبار کی زینت بن رہی ہے ۔

میڈیا نے نظریہ کو سینے سے لگا رکھا ہے لیکن کوئی نظریہ پر عمل کرنے کو تیار نہیں ۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ وزیر اعظم نے پہلی بار دیوالی کے فنکشن میں شرکت کر لی تو وزیر اعظم کو بھارتی وزیر اعظم مودی کی مسلم دشمنی کے طعنے سننے پڑگئے۔ برائی جہاں بھی ہو اور جس سے بھی سرزد ہو اس کی مذمت کی جانی چاہیے لیکن کسی کے اچھا کام کرنے پر آپے سے باہر ہوجانا اسلام پسندوں کو زیب نہیں دیتا ۔ اس کے لیے عملی تربیت کی ضرورت ہے اور برداشت کا دن اس کی یاددھانی کے لیے منایا جاتا ہے۔

ہم اپنے کو آئینہ میں دیکھیں تو پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس ملک میں فرقہ واریت کے حوالے سے کیے جانے والے 82 فیصد حملے ٹارگٹڈ تھے جبکہ 19 فیصد مختلف مذہبی عبادت گاہوں پر کیے گئے ۔ فرقہ واریت کو پھیلانے اور عدم برداشت کے کلچر کو فروغ دینے میں پاکستان کے اردو میڈیا نے صحافت کے اصولوں کے برخلاف کام کیا ہے۔ البتہ انگریزی اخبارات کو صحافت کی ذمہ داریوں کا احساس ہے اور وہ فرقہ واریت اور انتہا پسندی کا شکار محکوم طبقات کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کو اپنے صفحات میں ضرور جگہ دیتے ہیں اور خود بھی آواز اٹھاتے ہیں۔

روزنامہ ڈان نے سات اکتوبر کے اداریے میں اقلیتی فرقہ کے ساتھ ناروا سلوک اور ناانصافی کو مثالوں کے ساتھ واضح کرنے کے بعد لکھا ہے کہ مذہبی تعصب اور عدم برداشت کی وجہ سے ہی وہ سارے مسائل پیدا ہور ہے ہیں جن سے آج کل پاکستان نبرد آزما ہو رہا ہے ۔ اب یہ مصمم ارادہ کرنے کا وقت آگیا ہے جس سے بلاتفریق ہر قسم کے تعصب اور نفرت انگیزی کو ختم ہو جانا چاہیے۔

معاشرہ میں سے نفرت انگیزی کو ختم کرنا قومی ایکشن پلان کا حصہ ہے جس کی طرف ابھی تک ن لیگ کی توجہ نہیں ااور یہی بات سول اور ملٹری تعلقات میں کھچاؤ کا باعث بن رہی ہے۔ وزیر اعظم دنیا بھر سے آئے سرمایہ داروں کو رام کرنے کے لیے لبرل پاکستان کا نعرہ بھی لگاتے ہیں اور دیوالی کے فنکشن میں بھی شریک ہو جاتے ہیں لیکن ان قوانین کو ختم کرنے کی طرف متوجہ نہیں ہوتے جنہوں نے مذہبی آزادی کا حق چھین رکھا ہے ۔ بلاول بھٹو بلدیاتی انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کی خاطر مٹھی تھرپارکر اضلاع میں اقلیتوں کو برابر کا شہری سمجھنے کا اعلان تو کرتے ہیں لیکن سندھ میں اقلیتوں کی جو حالت ہے اس پر سپریم کورٹ میں دائر ہندو رکن اسمبلی کی درخواست سماجی صورتحال کی عکاسی کرتیہے۔

فوج کو سول حکومت سے شکایت یہی ہے کہ معاشرہ سے نفرت کو ختم کیے بغیر اور برداشت کے کلچر کو فروغ دیے بغیر قومی ایکشن پلان کے اصل نتائج حاصل نہیں ہو ں گے۔ یہ بات نیشنل ایکشن پلان کا حصہ تھی کہ غیر ریاستی عناصر اور فرقہ واریت پھیلانے والی تنظیموں پر پابندی لگائی جائے گی۔ فرقہ واریت میں پنجاب کو دوسرے صوبوں پر سبقت حاصل ہے لیکن پنجاب حکومت کی کارگردگی اس حوالے سے صفر ہے ابھی بھی پنجاب کے شہر فرقہ واریت کے بینرز سے بھرے پڑے ہیں ۔ جب دیواروں پر کافر کافر کے اشتہارات چسپاں ہوں تو برداشت کا کلچر کس طرح فروغ پا سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں برداشت کے عالمی دن کا کوئی نوٹس ہی نہیں لیا گیا۔

اطلاعات کے مطابق پنجاب پولیس فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف کوئی کاروائی کرنے کو تیار نہیں۔ تو پھر حکومت اپنی رٹ کس طرح قائم کر ے گی۔ نفرت انگیز تقاریر کا سلسلہ بھی مسلسل جاری ہے حکومت لاؤڈ سپیکر کے غلط استعمال پر تو مقدمات بنادیتی ہے لیکن مقرر کی تقریر کو قابل گرفت نہیں سمجھتی۔مدرسہ اصلاحات پر مدارس بورڈ سے کئی میٹنگز کرنے کے باوجود حکومت مدارس کو نیشنل ایکشن پلان میں ہوئے فیصلے ماننے پر تیار نہیں کرسکی۔

اور اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس حوالے سے حکومت نے خاموشی اختیار کر لی ہے۔ فرقہ وارنہ تنظیموں اور مدرسوں کی بیرو نی فنڈنگ روکنے میں بھی حکومت کو ناکامی کا سامنا ہے ان باتوں کی وجہ سے قربانیاں دینے کے باوجود نیشنل ایکشن پلان کی کارگردگی پر سوال اٹھ رہے ہیں اور فوج کو اپنی ناکامی منظور نہیں۔ اس لیے سول حکومت کو گڈگورننس کی طرف متوجہ کیا گیا ہے لیکن حکومت مدارس اور مذہبی تنظیموں کو چھیڑنے سے ڈرتی ہے ۔ فرانس نے ملکی سلامتی کو درپیش خطرات کی بدولت چالیس مسلم اماموں کو ملک بدر کرکے مساجد کو بند کر دیا ہے لیکن ہم ہیں کہ خطرات میں گھرنے کے باوجود ملک میں موجود دہشت گردوں کے امکانی ٹھکانوں پر کاروائی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے تمام سٹیک ہولڈرز جن میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں شامل ہیں ملک میں تمام نظریات کو برداشت کرنے کے کلچر کو فروغ دینے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ لبرل اور سیکولر ازم کا نام سن کر بھڑک اٹھنے کی بجائے دلیل اور منطق سے دوسروں کو قائل کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے لیے حکومت کو زمین ہموار کرنی ہو گی اور یہ تب ہی ہو گا جب حکومت نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل کرکے فوج کو مطمئن کرے۔ اسی میں ملک کی بھلائی اور بقا ہے۔

Comments are closed.