دہشت گردی کی جڑیں سعودی عرب میں ہیں

باربرا ویزل/ کشور مصطفیٰ

201482491215284734_20

فرانسیسی صدر نے اپنی پارلیمان کے دونوں ایوانواں سے خطاب کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔

’’پیرس میں دہشت گردانہ حملوں کے بعد فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ کا یہ پہلا خطاب تھا۔ ظاہر ہے کہ انہیں مضبوط اور پُرعزم نظر آنا ہی تھا۔ یہ اُن کے شہری اُن سے اُمید بھی کر رہے تھے اور وہ یقیناً اپنی حکومت کی طرف سے جہاں تک ممکن ہو اپنا تحفظ بھی چاہتے ہیں۔ فرانسیسی عوام بہت حقیقت پسند ہیں ۔ وہ دہشت گردی کے خلاف ٹھوس اقدامات چاہتے ہیں جیسے کہ مبینہ دہشت گردوں پر سفری پابندی سے لے کر ملک میں نافذ ایمرجنسی کی توسیع وغیرہ تک۔

بلا شبہ پیرس حکومت کو اپنے ہاں صفائی کرنا ہوگی۔ مثال کے طور پر ہتھیاروں کی منظم تلاش، ریاست کو اپنی اجارہ داری اور بالا دستی واپس لینا ہوگی اور اسے شہروں کے باہر کے ’نو گو ایریاز‘ سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔ خاص طور سے مجرمانہ سین یا منظر پیش کرنے والے علاقوں سے حکومت کو خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔

ان علاقوں سے، جہاں کے مسلح دخل اندازوں کے لیے دہشت گردانہ حملوں کے مقامات تک کا رستہ بہت مختصر نظر آتا ہے۔ حتیٰ کہ چارلی ایبڈو کے حملہ آوروں میں ایک ایسا مجرم بھی شامل تھا جو متعدد افراد کی ہلاکت کا سبب بنا۔ یہی رُجحان پیرس کے حالیہ حملوں مبں بھی نظر آیا۔

یہاں فرانسیسی صدر کے بیان میں کچھ کمی رہ گئی۔ ہمارے معاشروں میں نفرت کی تبلیغ کرنے والوں اور اُن کے دہشت گردانہ خیالات کو ایک طویل عرصے سے برداشت کیا جاتا رہا ہے۔ یہ ثقافتی رواداری بڑی غلطی تھی۔ جو ہم نام نہاد لادینوں کے خلاف نفرت اور تشدد کی تبلیغ کرے اُس کی مساجد کو تالے لگا دیے جانے چاہیں۔

مسلم برادری کو اپنے لیے ایسے آئمہ تلاش کرنے چاہییں جو نفرت کی بجائے دین کی تبلیغ کریں۔ انٹرنیٹ پر قتل و غارت گری اور بم حملوں کی ہدایات کے خلاف بھی فیصلہ کُن جنگ ہونی چاہیے۔ ساتھ ہی امریکا میں ویب سائیٹس کی کمپنیوں کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ کم از کم ویب سائیٹس کی شاخوں کے ایک حصے کو بند کریں۔

ایک فرانسیسی تبصرے میں تحریر کیا گیا ہے: ’’خراب لباس میں ملبوس انتہا پسندوں کو ہم جان سے مار دیتے ہیں اور نفیس پوشاک والوں کی خوشنودی حاصل کرتے رہتے اور اُن کے ساتھ پیار و محبت جتلاتے رہتے ہیں‘‘۔ یہ بیان سعودی عرب کے خلاف ہے۔ فرانس اور دیگر یورپی ممالک کو سعودی شیوخ کے ساتھ منافقت سے بھرپور رویے کو آخر کار ختم کردینا چاہیے۔

انہوں نے ہی یہ اژدہے پالے ہیں جو یورپی شہروں پر کلاشینکوف اور دھماکہ خیر مواد سے حملے کرتے ہیں۔ یہی وقت ہے اس بادشاہت اور اس کے ماتحتوں کو سیاسی اور اقتصادی طور پر زیر دباؤ لانے کا تاکہ وہ ہمارے قاتلوں کی مالی معاونت کا سلسلہ ختم کریں۔

آئی ایس کی گھناؤنی دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کی ضرورت ہے اور یہ جڑیں دراصل سعودی سر زمین کی پیداوار ہیں‘‘۔

DW

Comments are closed.