سویڈن میں اسلام

رزاق سربازی

ab11j

ٹرین کے آنے میں چند منٹ باقی تھے۔ ویک اینڈ ختم ہونے پر ویستروس اسٹیشن پر مسافروں کا جمگھٹا تھا۔ ایک لاکھ ، تینتیس ہزار سے زائد کی آبادی رکھنے والا یہ چھوٹا سا شہر اسٹاک ہوم سے ، مغرب کی جانب ، سو کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ افریقی ملکوں سے تعلق رکھنے والے اکا دکا افراد سخت سردی سے پریشان ، بنچوں پر ، سمٹے بیٹھے تھے جبکہ ٹریک پر اپنی ریل کے انتظار میں کھڑے اردگرد سنہری بالوں والے لوگ مطمئن نہیں ، اس شام سہمے اور قدرے بے چین لگ رہے تھے۔

جس وقت پیرس پر حملے ہورہے تھے، ویستروس کی رہنے والی دو نوجوان لڑکیاں ایک بار میں بیٹھی تھیں۔ ایک ہلاک ہوگئی اور دوسری زخمی ہوکر ہسپتال پہنچی۔ اس واقعہ پر شہر کا گویا یکدم دہشت سے سامنا ہوگیا ہو۔

سگریٹ جلاکر ، میں ، بلوچ گلوکار حفیظ بلوچ سے فون پر باتیں کرنے لگا البتہ میرا ذہن ، میری سویڈش دوست کی باتوں سے ، نکل نہیں پارہا تھا۔ مجھے اسٹیشن پر چھوڑنے سے قبل وہ اپنے انکل کی کہانی سنارہی تھی۔ ان کا انکل جرمنی کی نازی آرمی میں لیفٹیننٹ فیوہرر کے عہدے پر کئی سال کام کرنے کے بعد ، فن لینڈ کے محاذ جنگ پر ، مارے گئے تھے۔ ویک اینڈ پر ہم نے جنگ عظیم دوم کے پس منظر میں بننے والا ڈرامہ ” شنڈلرز لسٹ “ دیکھا۔ وہ اسکرین پر نظریں جمائے ایک صحافی کیساتھ اپنی ملاقات کا احوال بتاتے جارہی تھی۔ جس نے ان کے انکل پر تحقیق کی تھی۔

وہ ڈپریشن کا دور تھا۔ “ تحقیقی صحافی کی کتاب کا ذکر کرتے ہوئے اس نے کہا۔ ” میرے انکل کے نازی فوج میں جاشامل ہونے کے فیصلے کو اس دور کے حالات میں دیکھنا چاہئے۔ وہ وقت ، آج کے حالات کی طرح غیر معمولی عرصہ تھا، جب درست فیصلہ کرنا آسان نہیں ہوتا لہذا وہ غلط فیصلہ کربیٹھے۔ “ اس نے مزید بتایا۔

سویڈن کےلوگ خاموش طبع ہیں۔ ان کا روزمرہ ،کام کاج کے علاوہ ہم شغل دوستوں، میوزک کے شوقین، کتاب خوانی کے رسیا ، کتے یا گھوڑے پالنے والوں کے ایک بہت چھوٹے سے گروہ یا خاندان کے افراد کے ارد گرد گھومتا ہے۔ وہ شہری زندگی کی گہما گہمی کا حصہ ہیں تاہم ، شاید، اسے زیادہ پسند نہیں کرتے، وہ بڑے شہروں کی نسبت چھوٹے شہروں میں زیادہ رہتے ہیں۔ بعض اوقات کسی کے گھر تک پہنچنے کیلئے مرکزی سڑک سے ایک، دو کلومیٹر جنگلوں کا راستہ طے کرنا پڑتا ہے۔

انگریزی اگرچہ دوسری زبان ہے تاہم وہ انگریزی زبان کے تلفظ کے بجائے سوئدی لہجے اور زبان میں ناموں کی ادائیگی کرتے ہیں۔ مثلا وہ اپنے ملک کو انگریزی زبان کے مطابق سویڈن نہیں، سوِیریا اور زبان کو سویڈش کے بجائے سوونسکا کہتے ہیں۔

اگلی صبح خوشگوار نہیں تھی۔ سیاسی حالات، غرضیکہ تناؤ زدہ تھے تاہم نومبر کی برف اور سرد ہواؤں کے جھونکوں نے بھی لوگوں کے چہروں پر سرد مہری کی شکنیں پھیلا دی تھیں۔ میں بلوچ دانشور نصیر دشتی کی کتاب ” دی بلوچ اینڈ بلوچستان “ اور ادیب تاج بلوچ کی کتاب ” سرامد “ لائبریری کو تحفہ دینے کی غرض سے باہر نکلا تھا، جہاں فارسی، عربی، اور دیگر زبانوں کی کتابیں موجود ہیں، وہاں بلوچی زبان و بلوچستان پر اگر پڑھنے کے قابل مواد موجود ہو تو پڑھنے والوں کیلئے سود مند ہوگا۔

آج میرا بیٹا قرآن لینے آیا تھا۔ “ لائبریرین نے، خوش مزاجی سے ، کتابیں لیتے ہوئے مجھے بتایا۔

مجھے ان کا پڑھنا اچھا لگتا ہے۔ وہ قرآن پڑھے یا کچھ اور، وہ جاننا چاہتا ہے، جان جائے گا۔ بچوں سے سوال کرنا ایسا ہے جیسے ان پر شک کرنا“ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔

پنتھوس نامی ان کا چوبیس سالہ بیٹا ، چھ سال ہوئے ماں کا گھر چھوڑ چکا ، اب الگ اپارٹمنٹ میں دوستوں کیساتھ رہتا ہے۔ وہ اپنے اردگرد ، روز، نئے چہرے دیکھ رہا ہے۔ شام ، عراق، صومالیہ ، لیبیا، فلسطین اور افغانستان سے آنے والے نئے چہروں کا کلچر، مزاج، زبان ان سے الگ ہے۔ ہرچند وہ یہ بات جانتے ہیں کہ پناہ گزین آپس میں بھی ثقافت و رسم و روایات کے لحاظ سے ایک دوسرے کے بہت قریب نہیں۔ ان کے درمیان اگر کوئی مشترکہ اثاثہ پایا جاتا ہے تو وہ اسلام ہے۔ جس سے وہ ایسے جڑے ہوئے ہیں جیسے نئے زمانے میں صدیوں پرانے فیشن سے جُڑنا۔

یورپی شہروں میں چار ، پانچ صدیاں پہلے کلیسیا ایک اہم مرکز ہوا کرتی تھی۔ آپ شہر کو کسی بھی کونے سے دیکھتے، چرچ کی بلند و بالا عمارت آپ کو اپنا احساس دلاتی رہتی تھی۔ اب مذہب ایک ذاتی پسند و ناپسند جیسے آپشن کا درجہ رکھتا ہے۔ آپ چاہیں، اپنالیں، یا چھوڑ دیں۔ چرچ کی قابل شکوہ عمارتیں ، پرانے وقتوں کی تعمیرات کی یادگار بن کر رہ گئی ہیں۔

پرانے دنوں کے برعکس ، ان دنوں ، کلیسیا کی جگہ درسگاہوں کی عمارتیں ، لائبریریاں ، کتابوں کی دکانیں اپنے موجود ہونے کا احساس دلاتی ہیں۔ مثلا اُپسالا شہر کے مرکز میں، اپسالا یونیورسٹی کے اتنے علمی شعبے جا بجا پھیلے ہوئے دکھائی دیں گے جیسے ہمارے یہاں ہر گلی کے نکڑ پر بھانت بھانت کی مسجدوں کی ریل پیل۔

مغرب آنے والے لوگوں کی دوسری ، تیسری نسل اپنے مذہب کے متعلق اس قدر معلومات نہیں رکھتی کہ اس کو، مذہبی لوگوں کی رائے کے مطابق ، قابل تشفی قرار دیا جائے۔ “

جرمن نژاد پروفیسر ہینز وارنر ویسلر نے بات چیت کرتے ہوئے کہا۔ ساؤتھ ایشیائی ادب و گرامر پڑھاتے ہوئے، خوش مزاج پروفیسر ہینز کا غیرملکی طالب علموں سے روز واسطہ پڑتا ہے۔ اُپسالا یونیورسٹی میں انڈولوجی کے یہ استاد تہذیبوں کے درمیان رابطوں کو سمجھنا چاہتے ہیں۔

 

razzak

وہ مغربی یا مقامی کلچر کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ بات امتحانات کے دوران میرے مشاہدے میں آئی ہے۔ حتیٰ کہ حجاب پہننے والی طالبات کا مذہب سے متعلق معلومات بھی بس سرسری ہوتی تھیں۔ مذہبی ، ثقافتی تہواروں جیسے دیوالی، عید کے موقع پر خوشی منانا ان کی روایات میں شامل ہے، مذہباً نہیں۔ شاید بعد میں وہ اپنی جڑوں کی تلاش میں لگ جائیں۔ “ انہوں نے مزید کہا۔

رینکہ بی“ آہستہ آہستہ سوئدی شہریوں سے خالی ہونے لگا۔ اسٹاک ہوم کی شہری حدود میں شامل، یہ محلہ ، چند سال قبل تک ان کو پسند تھا۔ آہستہ آہستہ ، جیسے وہ اپنی گلیوں، پارکوں اور گھروں سے تھک گئے تھے۔ انہوں نے کہیں اور سکونت اختیار کی۔ جن کی کوئی دکان تھی ، وہ اپنی دکانیں بند کرکے ، کہیں اور چلے گئے۔ بزنس کا میدان بھی چھوڑ گئے کیونکہ رینکہ بے مسلمانوں کی اکثریت کو اپنے اندر جمع کرنے لگا تھا۔ محلے کا مزاج بدل گیا تھا۔ ان کی جگہ ایشیائی و افریقی آبادی ، عربوں کی دکانوں اور مسجدوں نے سنبھال لی ہے۔

سویڈن میں مہاجرین کی آمد کی تاریخ صدیوں پرانی ہے البتہ جنگ عظیم دوم ، اور اس کے بعد ، علاقائی جنگیں ، انقلابات و سیاسی جبر کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات ہجرتوں کے نئے سلسلہ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تاتار مسلمان 1940 کی دہائی میں فن لینڈ سے آئے۔ دیگر مسلمانوں کی آمد کا بڑا سلسلہ البتہ مشرق وسطی سے 70ء کے آغاز میں شروع ہوا۔ سویڈن کی نوملین سے کچھ زائد کی آبادی میں، رفتہ رفتہ مسلمان، پانچ لاکھ کی تعداد تک آپہنچے۔ عیسائیت کے بعد اب اسلام دوسرا بڑا مذہب ہے۔

گوگل نے گلی، محلوں اور مکانات کی تلاش آسان بنادی ہے۔ موبائل پر جی پی ایس( گلوبل پوزیشن سسٹم ) کی مدد سے، جلد یا بدیر، آپ بلاخر اپنی منزل ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ جب گوگل نہیں تھا، یقیناً لوگ، مطلوبہ پتہ معلوم کرنے کیلئے، کہیں نہ کہیں، کسی کی مدد ضرور لے لیتے تھے۔ پتہ معلوم کرنے کا یہ روایتی طریقہ سوئدیوں کیلئے ایک ضرب المثل بن گئی ہے۔ آپ اگر درست سمت کا ٹھیک راستہ بتادیتے ہیں۔ تب آپ پر اعتبار کیا جاسکتا ہے، وگرنہ آپ اپنا اعتبار کھودیتےہیں۔

اسلام کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے اماموں نے یہی کام کیا۔

پہلا منظر

سویڈش معاشرہ ، مرد و عورت کے درمیان برابر حقوق تسلیم کرنے والے، دنیا کے سرفہرست ملکوں میں چوتھے نمبر پر ہے۔ عورت کے حقوق، مذہب نہیں ، ریاست طے کرتی ہے۔ تین سال قبل سویڈش چینل ایس وی ٹی کے مشہور تحقیقی پروگرام ( مشن ریویو ) کے میزبان نے اسلام میں مرد و عورتوں کے حقوق پرمختلف شہروں کی بڑی مسجدوں کے اماموں کے سامنے چار سوال رکھے۔ کیمرے کے سامنے ہوشیار اماموں نے مرد و عورت کے حقوق کا شاندار، سوئد معاشرہ کے معیار کے مطابق عکس پیش کیا۔

دوسرا منظر

دو خاتون رپورٹرز ، اپنے شوہروں کی شکایت لئے، اماموں سے ملنے برقعہ پہن کر جاتی ہیں۔ وہ سر تا پا باپردہ ہونے کے علاوہ خفیہ کیمرے بھی لگائی ہوئی ہیں۔ وہی چار سوال پھر دہرائے جاتے ہیں۔ امام خواتین کا قضیہ سُن کر ان کو اسلامی جواب سے مستفید کرتے ہیں۔ ” شوہر کا تشدد سہیں، لیکن قانون کے مطابق پولیس کو شکایت نہ کریں۔ ان کی جنسی خواہشات بہرصورت پوری کریں تاآنکہ آپ کو ماہواری یا بیماری کی شکایت نہ ہو۔ “ اس بار ان چار سوالوں کے جواب اسلامی معیار کے مطابق ہوتے ہیں، جن کا سویڈن کے صنفی حقوق و قوانین سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔

تیسرا منظر

اسلام پر گفتگو کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ سویڈن میں اسلامی معاشرے کا نامعلوم عکس سامنے آتا ہے۔ جو مرکزی دائرے سے کٹا ہوا ، الگ تھلگ ہے۔ سعودی عرب کے فنڈ سے مسجد تعمیر ہوتی ہے۔ اسکول میں بچوں کیساتھ سختی برتی جاتی ہے۔ غرضیکہ اس بحث کا اختتام، سوئدی معاشرہ پر، خوشگوار تاثر نہیں چھوڑگیا. اسلام کے گویا دو چہرے سامنے آگئے تھے۔

آپ سے کوئی پتہ معلوم کرنا چاہے، آپ جب دائیں کو بائیں بنا کر پیش کریں، تب آپ اپنا اعتبار کھودینگے۔ “ ایک سویڈش دوست نے پروگرام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔

Tags: ,

One Comment