کرشن چندر کا واحد محبوب۔۔۔لاہور

مستنصر حسین تارڑ

kk1

ادب کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں نے کبھی کسی تخلیق کار کے مذہب سے سروکار نہیں رکھا۔۔۔ کہ عظیم تخلیقات اپنی ذات کے وجدان میں مذہب سے بالاتر دراصل خود ایک مذہب ہوتی ہیں اور ان کے لکھنے والے ان کے پیغمبر ہوتے ہیں۔۔۔ اور ان کی تحریروں کو پڑھنے والے ان پر ایمان لاتے ہیں۔۔۔ میں نے کبھی دھیان نہیں کیا کہ گارسیامارکیزیا، ہوسے سراماگوشاید عیسائیت کے پیروکار ہیں۔۔۔ لیوٹالسٹائی نے اپنے طورپر ایک مذہب ایجاد کیا اور اس کے ماننے والے بھی تھے۔۔۔ دوستووسکی نہایت کٹڑ عیسائی تھا۔۔۔

ارہان پاموک اگرچہ نام کا لیکن ایک ترک مسلمان ہے اور نوبل انعام حاصل کرنے والا چینی مویان کمیونسٹ ہے۔۔۔ یا پھر راجندر سنگھ بیدی ایک سکھ تھا۔۔۔ بیپسی سدھوا ایک پارسی ہے۔ میرے لئے یہ اہم ہے کہ وہ ادب کی سلطنت کے حکمران ہیں اور یوں میرے جذبات اور احساسات پر اپنی تحریروں کی اثرانگیزی سے راج کرتے ہیں۔۔۔ اسی لئے مجھے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ کرشن چندر آخری عمر میں سلمیٰ صدیقی کے ساتھ نکاح سے پیشتر مسلمان ہوگیا تھا اور اس نے اپنا نام وقار ملک تجویز کیا تھا۔۔۔

بے شک فرق نہیں پڑتا لیکن ایک مستند تاریخی حقیقت سے روگردانی کرنا بھی تو مناسب نہیں۔۔۔ محمد اویس قرنی نے ایک کتاب ’’کرشن چندر کی ذہنی تشکیل‘‘ میں کرشن کے مسلمان ہونے کے بارے میں ٹھوس ثبوت پیش کئے ہیں۔۔۔ اگرچہ اس سے فرق پڑتا نہیں کوئی کہ کرشن چندر ہندو تھا یا مسلمان لیکن ایک حقیقت کا اقرار کرلینے میں مضائقہ بھی تو نہیں کوئی کہ۔۔۔

جب کرشن چندر نے وقار ملک کانام خود تجویز کیا تو سلمیٰ نے جھنجھلا کرکہا۔۔۔ یہ بھی کوئی نام ہے تو کرشن چندر کھڑکی سے باہر دھندلاتی ہوئی پہاڑیوں کو دیکھتے ہوئے بولے، جب میں پونچھ میں چوتھی جماعت میں تھا تو میرے دو دوست تھے۔ ایک کانام وقار تھا اور دوسرے کا ملک۔۔۔ ہم ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے رہتے تھے۔۔۔ میں نے پہلی بار غالب کا شعر اس گھر میں سنا تھا۔۔۔ عید کی پہلی سویاں وہیں چکھی تھیں، شامی کباب او ربریانی کا ذائقہ وہیں جانا تھا، خاصدان سے پان کی گلوری وہیں اٹھائی تھی او رگھر آکے ماں جی سے خوب جھگڑا کیا تھا کہ ہمارے گھر میں عید کیوں نہیں منائی جاتی۔۔۔

محمد ہاشم کو ایک خط میں سلمیٰ صدیقی لکھتی ہیں ’’ہماری شادی7جولائی1961ء کی شام نینی تال میں ہوئی، اس وقت نینی تال کی مسجد کے مولانا نے نکاح پڑھایا۔۔۔ گواہوں میں رامپور کے دو دوست، مہارانی جہانگیر آباد اور محمد کاظمی تھے۔ کرشن چندر نے اسلامی طریقہ پر نکاح کیا اور مسلمان ہونا قبول کیا، اپنا نام وقار ملک رکھا‘‘۔۔۔ان کی موت پر اندرکمرے میں بیٹھی ان کی بیوہ سلمیٰ صدیقی کا کہنا تھا کہ انہیں دفن کرنا ہوگا یہ مسلمان تھے ان کا نام وقار الملک تھا مگر کوئی ان کی سننے کو تیار نہ تھا۔۔۔’’کرشن چندر کے چہرے پر موت کے آثار نہ تھے، ایک سکون تھا، ایک شانتی تھی جیسے سارے فرض پورے کرچکے ہوں، اب کچھ کرنے کو باقی نہیں تھا۔۔۔ خواجہ احمد عباس، اعجاز صدیقی، ظ، انصاری اور سردار جعفری اندر کمرے میں تھے۔‘‘

ظ۔ انصاری کا کہنا ہے کہ۔۔۔ جب ان کا جنازہ ہال میں رکھا گیا تو میں نے کسی کے کہنے پر قرآن خوان حافظ جی کو بلوایا اور قرآن خوانی ہوئی۔۔۔ کمرے میں سفید چاندنی بچھی تھی، اگر بتی کے دھوئیں سے فضا معطر تھی، کچھ عورتیں بیٹھی قرآن پاک کی تلاوت کررہی تھی، جنازے کی تیاری کا انتظار تھا۔ کرشن چندر بلکہ وقار الملک نے اپنی بیوی کے نام وصیت کی۔۔۔ کہ حالات قابو سے باہر ہوجائیں تو پاکستان چلی جانا وہاں میرے بہت سے دوست احباب ہیں جو سچ مچ مجھ سے پیار کرتے ہیں۔ تم وہاں اکیلی نہ رہوگی۔۔۔ لیکن لگتا ہے اس کی نوبت نہ آئی۔۔۔

سلمیٰ صدیقی کی محبت پر حاوی ہونے والی ان کے دل ودماغ پر راج کرنے والی چاہت اور دیوانگی شہر لاہور تھا جہاں وہ پیدا ہوئے، پنجاب تھا جس کے عشق میں وہ زندگی بھر ڈوبے رہے۔۔۔ ستار طاہر نے لکھا’’لاہور کرشن چندر کو بہت عزیز تھا، ان کی زندگی کئی شہروں میں بسر ہوئی لیکن لاہور کے ساتھ ان کی محبت کبھی کم نہ ہوسکی۔۔۔ وہ لاہور سے محبت کرتے تھے اور زندگی کے آخری دنوں میں ان کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ وہ کسی طرح ایک بار پھر لاہور چلے جائیں۔‘‘ کرشن چندر کو نہ دلّی بھایا اور نہ ہی لکھنؤ نے ان کے پاؤں پکڑے بلکہ وہ ان دونوں شہروں کو لاہور کے مقابلے میں حقیر جانتے رہے۔

اختر جمال نے تذکرہ کیا کہ۔۔۔ لاہور ان کی ایسی محبت تھی جس کے لئے وہ بہت تڑپتے تھے۔۔۔ لاہور میرا لاہور کیسا ہے۔۔۔ جب وہ لاہور اور لاہور کے لوگوں کی تعریف سنتے تو ان کا چہرہ کھل جاتا، آنکھیں چمکنے لگتیں، لاہو رکی تعریف ان کی تعریف تھی۔’’لاہور میری کمزوری ہی نہیں۔۔۔ میں نے تو لاہور میں مرنے کا خواب دیکھا ہے کسی کونے میں، کسی چھوٹے سے گندے سے غلیظ چوک کے کنارے۔‘‘ لاہور سے جدائی کی جوکسک کرشن چندر کو سانس نہ لینے دیتی تھی اس کا سلسلہ ان اہم ادیبوں سے جڑتا ہے جن کے قلوب میں ابھی تک ایک دلّی، ایک لکھنؤ آباد ہے۔۔۔ کہ اپنی جنم بھومی جیسی کیسی بھی ہو ایک جنت گم گشتہ کی صورت میں تمہیں اپنے فریب میں جکڑے رکھتی ہے۔ ’’لاہور میں رہ کر کوئی بوڑھا نہیں ہو سکتا، وہ میرا سدا بہار جگمگاتا ہوا فانوس بدن شہر۔۔۔ اپنی لافانی جوانی کے لئے مشہور ہے، اس شہر کو چھوڑ دے اور منڈی بہاؤالدین او رچک نمبر چار سو بیس میں جاکر سکونت اختیار کرلے مگر لاہور کے نام کو بٹہ نہ لگائے۔‘‘

’’کرشن چندر ایک ایسا عاشق تھا جس کا واحد محبوب لاہور تھا‘‘۔’’مجھے بتا دوتم کہاں جانا چاہتے ہو؟ میں تمہیں ٹکٹ لائے دیتا ہوں۔۔۔ میں لاہور میں رہوں گا۔۔۔ لاہور میرا وطن ہے۔‘‘’’میرا سب کچھ لاہور ہے۔۔۔ کرشن نے رندھے ہوئے گلے سے کہا۔۔۔ میاں تمہیں معلوم ہے میں لاہور کے بغیر نہیں رہ سکتا، مجھے لاہور سے عشق ہے۔‘‘ مجھے کبھی کبھی یہ خیال آتا ہے کہ اگر منٹو کسی ہندو عورت کے عشق میں مبتلا ہوکر ہندو دھرم اختیار کرلیتا، آگ کے گرد پھیرے لگا کر اسے اپنی گھر والی بناکر اپنا نام رام بھروسہ رکھ لیتا تو ہم کیسے اسے مطعون کرکے نازجہنم میں جھونک دیتے۔۔۔ لکشمی مینشن کے فلیٹ کو نذر آتش کردیتے۔

کرشن چندر عرف وقار الملک کا جنازہ ہال میں پڑا ہے اور قرآن خوانی ہورہی ہے اور اس کے باوجود اسے جلایا گیا۔۔۔ جیسا کہ اگر منٹو ہندو ہوجاتا تو ہم اس کو آگ کے سپرد نہ کرتے۔۔۔ دفن کردیتے۔۔۔ ایک عظیم ادیب بیشک جلایا جائے یا دفن کیا جائے اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ کیا ن م راشد کو جلائے جانے پر کچھ فرق پڑا۔

میں محمد اویس قرنی کا شکر گزار اور معترف ہوں کہ اس باریش نوجوان نے مردان کی گمنامی میں’’کرشن چندر کی ذہنی تشکیل‘‘ ایسی عرق ریز کتاب لکھی او رکسی ستائش اور تمنا کے بغیر تحریر کی۔۔۔ قرنی تمہارا شکریہ

Comments are closed.