مارکس وادی دانشور ’لال خان‘ کے نام خط

article-2431552-13

محترم کامریڈلال خان صاحب انقلابی جوش سے بھرا سلام

اُمید سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ کی مزاجِ گرامی خیریت سے ہوگا اور ہمیشہ آپ کی خوش وخرم رہنے کا خواہش مندہوں۔ میں آپ کے ’’پندرہ روزہ طبقاتی جدوجہد‘‘ کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی تحریریں شوق سے پڑھتا رہاہوں، لیکن بلوچ معاشرے کو لاحق غلامی اور پسماندگی کی وجہ سے وہ سہولیات ہمیں میسر نہیں کہ اس جدیددور کی ٹیکنالوجی سے مستفید ہوکر دنیا میں ہونے والے حالات و واقعات سے بروقت آگاہی حاصل کرسکیں، اور دوسروں کی خیالات کو سننے و سمجھنے اور آزادانہ طور پر اپنے خیالات کو دوسروں تک منتقل کرسکے۔

آج کے اس سرمایہ دارانہ دور میں گوکہ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں تیز ترین ترقی سے انسان نے فطرت پر اس حد تک قابو کرلیا ہے کہ گھر بیٹھے دنیا کا نظارہ کرسکتا ہے، کسی سے بھی رابطہ کرکے اپنے خیالات کو دنیا کے کسی بھی کونے میں پہنچا سکتا ہے وغیرہ۔ لیکن غریب اور محنت کش طبقہ اس ٹیکنالوجی کے دور میں بھی اس قدر فاقہ کشی کا شکار ہے کہ بہ مشکل انہیں دو وقت کا کھانا ملتا ہے۔ اگر وہ اپنی قوتِ محنت سستے داموں بیچ نہ دیں تو اسے مرنے کے لئے کفن بھی میسر نہیں ہوگا۔ یہ صورتِ حال کسی ایک خطہ یا براعظم تک محدود نہیں بلکہ کرۂ ارض پر بسنے والے تمام محکوم و غریب اور محنت کشوں کا حال ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہے، حتیٰ کہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام نے تو محنت کش طبقہ میں اس قدر نفاق پیدا کرکے انہیں اس نہج پر لاکھڑا کردیا ہے کہ ایک محنت کش اُٹھ کر اپنے ہی ہم طبقے کا حق تلفی کرتا ہے۔

سابق سوویت یونین میں مارکسی خطوط پر کامریڈ لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں برپا ہونے والی بالشویک انقلاب نے دنیا بھر کے محکوموں اور محنت کشوں کو متحد ہوجانے کا زبردست موقع فراہم کیا تھا کہ لینن کے بعد سوویت اقتدار پر قبضہ کرنے والے اسٹالنسٹ افسر شاہی نے مارکسزم سے مکمل طور پر منحرف ہو کر بالشویک انقلاب کو ایسی سمت کی جانب موڑدیا کہ جس کا خمیازہ ایک صدی بعد بھی محکوم و مظلوم، غریب اور محنت کش بھگت رہے ہیں۔

حال ہی میں مقبوضہ بلوچستان کے پسماندہ ترین ضلع کیچ تربت کے دیہاتوں میں سے ایک ’گوگدان‘میں قابض ریاستی ملٹری کے ایک ذیلی ادارہ ایف ڈبلیو او (فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن) کی طرف سے محکوم و مظلوم بلوچ عوام کومزید غلامی کی دلدل میں دھنسنے کے لئے ایک میگا استحصالی منصوبے کی تکمیل کو رکوانے کے لئے حریت پسند بلوچ انقلابی سرمچاروں نے اُس پر حملہ کردیا جس کی زد میں آکر 20 مزدور ہلاک ہوگئے ۔ جن میں سے کچھ کا تعلق سندھ کے پسماندہ ترین علاقہ ’صحرائے تھر‘ اور کچھ کا تعلق پنجاب کے مختلف علاقوں سے تھا۔

اس واقعہ کو ایک طرف سے ریاستی دُم چھلّا میڈیا نے سر پر اٹھایا تو دوسری طرف بائیں بازو کے تنظیموں کا بھی خاصا ردّعمل سامنے آیا۔ گوکہ اس حوالے سے یہ ایک انتہائی قابلِ افسوس واقعہ تھا کہ ریاستی استحصالی مشینری کے بجائے اس کی زد میں آکر مزدور ہلاک ہوئے۔ لیکن در حقیقت مجھے مزدوروں کی ہلاکت سے زیادہ آپ کی (بلوچستان: پراکسی جنگوں میں مرتے غریب)اس کالم سے ہوئی، جس میں آپ نے برطانوی استعمار سے لے کر برصغیر کے بٹوارے کے بعد سے نام نہاد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام اور اس کے بعد سے اب تک جاری انقلاب و آزادی کی تحریک کو بین الاقوامی سامراجی طاقتوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا پراکسی وار قرار دے کر ہزاروں شہداء کے بہے ہوئے سرخ لہو کو محض چند مزدور کی ہلاکت پر اپنے قلم کی سیاہی سے مٹانے کی کوشش کی۔

مارکس نے 1857ء کی ہندوستانی بغاوت میں برطانوی نوآبادکاروں پر حملوں کے بارے میں لکھا ہے۔ ’’ہندوستان میں باغی سپاہیوں نے جو تشددکیا ہے و ہ واقعی بھیانک،مکروہ اور نا قابلِ بیان ہے۔ ایسا تشدد عام طور پر باغیانہ ہنگاموں اور قومی، نسلی اور خاص طور سے مذہبی لڑائیوں میں دیکھا جاتا ہے۔ مختصر طور پر یہ ایسا تشدد ہے جس کی عظیم برطانیہ نے ہمیشہ ہمت افزائی کی۔ ایسا تشددجو واندی والوں نے ’’نیلوں‘‘ پر، ہسپانوی چھاپہ ماروں نے فرانسیسی بے دینوں پر، سربیائی لوگوں نے اپنے جرمن اور ہنگریائی پڑوسیوں پر، ہرواتیوں نے ویانا کے باغیوں پر، کاوینیاک کے موبائل گارڈ یا بونا پارٹ کے 10 دسمبر والوں نے فرانسیسی پرولتایہ کے بیٹے بیٹیوں پر کیا۔ ہندوستانی سپاہیوں کا رویہ چاہے کتنا ہی مکروہ رہا ہو وہ صرف ایک مرکوز صورت میں ہندوستان میں خود برطانیہ کے رویے کی عکاسی کرتا ہے۔ نہ صرف اپنی مشرقی سلطنت کی بنیاد رکھنے کے دور میں بلکہ اپنی طویل حکمرانی کے پچھلے دس سالوں کے دوران بھی، اس حکومت کی نوعیت واضح کرنے کے لئے یہ کہنا کا فی ہے کہ اذیت رسانی اس کی مالیتی پالیسی کا ایک اٹوٹ جزو رہا ہے۔ تاریخِ انسانی میں انتقام جیسی چیزضرور ہے اور تاریخی انتقام کا یہ قانون ہے کہ اس کے آلات مظلوم نہیں بلکہ خود ظالم ڈھالتا ہے۔‘‘ (ہندوستانی بغاوت،نیویارک ڈیلی ٹریبیون، شمارہ نمبر 5119،مورخہ 16 ستمبر 1857ء

دراصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ مزدور کہاں اور کس لئے ہلاک ہوئے؟ یقیناًاگر یہ کالم لکھنے سے پہلے بلوچستان کے اُس علاقے کے مجموعی آبادی کی معاشی حالتِ زار کا بغور جائزہ لیتے تو میں نہیں سمجھتا کہ آپ اپنے کالم میں اصل حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے ایک الٹا اور مسخ کردہ منطق پیش نہیں کرتے۔ بہر حال‘ میں آپ کو پورے بلوچستان کو چھوڑ کر مکران ڈویژن بلکہ اس سے بھی چشم پوشی کرتے ہوئے پورا ضلع کیچ بھی نہیں اُس دیہات(گوگدان) کا مختصر خاکہ آپ کے سامنے پیش کروں گا کہ جہاں پہ مزدوروں کی ہلاکت کاواقعہ پیش آیا۔

المختصر گوگدان سیاسی، سماجی اور معا شی حتیٰ کہ موسمی حوالے سے ’صحرائے تھر‘ کا دوسرا نام ہے۔ جہاں کے لوگ معاشی تنگ دستی کی وجہ سے گلہ بانی کرکے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ تپتے دھوپ میں بھی علاقے میں پائے جانے والی ایک قدرتی جھاڑی سے بنے جوتے پہنتے ہیں۔ زندہ رہنے کے لئے صاف پانی کی فراہمی تو کجا مہینوں تک بارش کی پانی پر نہ صرف انسانوں کی اُمیدیں وابستہ ہیں بلکہ جانوروں کا انحصار بھی یہی پانی پرہے۔ آگے شاید آپ کو یہاں کے لوگوں کی رہائشی بنگلوں کا اندازہ ہوا ہوگا کہ وہ کس طرح کے جدید طرز کے ہوں گے۔
یہ لوگ جتنے غریب ہیں اس سے بڑھ کر اتنے ہی باشعور بھی ہیں اور اپنے حقوق کا اچھی طرح ادراک بھی رکھتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ ایک عام بلوچ چرواہا جو گلہ بانی کرکے اپنا اور اپنے خاندان کا گزارہ کرتاہے، اگر ریاستی استحصالی منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا حصہ بن جاتے تو کیا سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے رہائشی مزدوروں کو یہاں روزگار ملنے کا موقعہ مل جاتا ؟ قطعاً نہیں۔۔۔، وہی بلوچ چرواہا جو اپنا پیٹ بھرنے کے لئے گلہ بانی کرتا ہے لیکن اُس کا ضمیر یہ گوارہ تک نہیں کرتا کہ محض چند روپوں کی خاطر کسی ایسے استحصالی منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا حصّہ بن جائے کہ جس کے پسِ پردہ دسیوں لاکھ بلکہ ایک کروڑ سے زائد افراد کی مستقبل داؤ پر لگ جائے۔

وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ جو ترقی کے نام پر شاہراہیں تعمیر ہورہی ہیں اور میگا پروجیکٹ بن رہے ہیں یہ میری خوشحالی کے لئے نہیں بلکہ میرا استحصال کرنے اور مجھے غلام رکھنے کے سوچے سمجھے منصوبے ہیں، جو مجھ سے میری پہلی والی حیثیت بھی چھین لیں گے۔ اگر بلوچستان کے بلوچ آبادی والے علاقوں میں قابض ریاست کی جانب سے ترقی کے نام پر درجنوں جاری اور نئے منصوبوں خواہ وہ گوادر میگا پروجیکٹ ہو، سیندک ریکوڈک منصوبہ ہو، چمالنگ کوئلہ کی لوٹ مار ہو یا سوئی سدرن گیس وغیرہ و دیگر چھوٹے بڑے لوٹ مار اور استحصالی منصوبے ہوں۔ جن سے مستفید ہونے والے سرمایہ دار اور اشرافیہ طبقہ کا کل آبادی کے مجموعی تناسب سے بغور جائزہ لیں تو یہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہوں گے، جب کہ آبادی کا اکثریت غریب و محنت کش طبقہ قبضہ گیر کے ان استحصالی منصوبوں کی بھینٹ چڑجاتے ہیں۔

بالفرض اگر ان دسیوں لاکھ غریبوں اور محنت کشوں کا مستقبل سنوارنے اور بلوچ قوم کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے اِن میگا استحصالی منصوبوں کو ناکام بنانے کی غرض سے بلوچ حریت پسند انقلابی جنگجو اُن پر حملہ آور ہوتے ہیں تو اس پر ایک کمیونسٹ دانش ور کا طیش میں آجانے اور حقائق کو مسخ کرکے پیش کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ حالانکہ آج سے دہائیوں پہلے 73-77ء میں جس وقت آپ کی پارٹی (پاکستان پیپلز پارٹی) کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو برسرِ اقتدار تھی، نے اپنے دورِ حکمرانی میں ایرانی بادشاہ کے ساتھ مل کر بلوچستان میں وسیع پیمانے پر ملٹری آپریشن شروع کیا گیا، جس کے خلاف ’’بلوچستان پیپلز لبریشن فرنٹ‘‘ (بلوچستان عوامی محاذِ آزادی)کے نام سے برسرِ پیکار حریت پسند انقلابی جنگجوؤں کے ساتھ ’’فورتھ انٹرنیشنل‘‘ کے فرنچ سیکشن سے تعلق رکھنے والے 17 مارکسسٹ اراکین جو کہ لندن گروپ سے مشہورتھے اور جن کا تعلق سندھ و پنجاب سے تھ، نے لندن میں اپنی تعلیم چھوڑ کر بلوچستان میں جاری انقلاب و آزادی کے گوریلا وار فیئر میں شریک ہوگئے اور بلوچستان میں قائم کردہ پاکستانی تسلط کے خلاف مسلح محاذ پر پیش پیش رہے۔

جن میں سے اکثر نے گوریلا کمانڈر کی حیثیت سے قبضہ گیر دشمن پر بہت سے حملوں کی قیادت بھی کیں۔ ایک اندازے کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ جارحیت میں پاکستانی ریاستی فوج اور لوٹ مار کے استحصالی منصوبوں پر 178 بڑی جھڑپیں ہوئیں جن میں تین ہزار سے زائد فوجی ہلاک جب کہ پانچ ہزار سے زائد محنت کش غریب بلوچ شہید ہوئے جو آپ کے پارٹی اور قائد کی کارستانیاں تھیں۔ جنگِ آزادی کے اُس وقت کے بانی رہنماؤں میں شامل بلوچستان کے مشہور و معروف مارکس وادی رہنما شیر محمد مری (جنرل شیروف) نے اپنے ایک انٹرویو میں بھٹو جارحیت کا یوں ذکر کیا ہے۔ ’’بھٹو کے دور میں صرف ہماری بہو، بیٹیوں کی بے حرمتیاں اور جوانوں کو شہید نہیں کیا گیا بلکہ ہمارے مال مویشوں حتیٰ کہ ہماری بچیوں کو بھی منڈیوں میں فروخت کیا گیا۔ ہماری بچیاں منڈیوں میں بِکی ہیں۔‘‘

محترم
آپ نے اپنے کالم میں بی ایس او میں مارکسی رجحانات موجود ہونے کا اشارہ دیا ہے جو کہ حقیقت ہے بلکہ بی ایس او کی بنیاد ہی مارکسی خطوط پر رکھا گیا ہے، لیکن آپ ماضی کو چھوڑ کر 2009ء تا 2012ء تک کا دورانیہ جس میں پھر آپ ہی کے پارٹی ’پاکستان پیپلز پارٹی‘ کے برسرِ اقتدار تھی۔ اُس دور میں پہلی دفعہ بلوچ سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشوں کی ملنے کا سلسلہ شروع ہوگیا جن میں بی ایس او سے تعلق رکھنے والے اب تک سینکڑوں کارکن شہید ہوئے ہیں اس بابت آپ کی خاموشی اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں لاپتہ کئے جانے والے بیس ہزار (20,000) سے زائد افراد کی آدھا تعداد کو گھٹاکر بارہ ہزار (12,000) کرنا اور بلوچ عوام کی خوشحال مستقبل کے لئے بلوچ گوریلا جنگجوؤں کی قابض ریاستی استحصالی منصوبے کو ناکام کرنے کے حملے کے زد میں آکر مزدوروں کی ہلاکت کو درندگی قرار دے کر واویلہ مچانا کیا محکوم بلوچوں کے ساتھ مضحکہ خیزی نہیں ہے؟

مزدوری کے نام پر کسی ریاستی استحصالی منصوبے کا حصہ بن جانا کیا معنی رکھتا ہے؟ دوسری بات یہ کہ یہ مزدور کسی نجی فیکٹری یا دوسرے غیر ریاستی ادارے میں دیہاڑی نہیں کررہے تھے۔ مزدور تو معاشرے کا جتنا ستم زدہ طبقہ ہوتا ہے اس سے بڑھ کر انہیں اپنے ہم طبقہ کا احساس بھی ہوتا ہے۔انہیں تو استحصالی اور ترقیاتی منصوبے میں نمایاں فرق کرنا چاہئے اور وہ کسی ایسے منصوبے کو کبھی بھی تقویت نہیں دیتا کہ جس کی وجہ سے ایک سماج زوال کی طرف جائیں یا ایک قوم اقلیت میں تبدیل ہوجائیں۔ ہاں البتہ ماضی میں کچھ اسی قسم کے واقعات ضرور ہوئے جنہیں ریاستی خفیہ ایجنسیوں کی ڈمی تنظیموں کی جانب سے بلوچ تحریکِ آزادی کو بدنام کرنے کے لئے کیا گیا۔

اگر تربت میں حریت پسند انقلابی جنگجوؤں نے ’سہراب بریج ‘ پر کام کرنے والے تمام مزدوروں کو لائن میں کھڑا کرکے ان میں سندھ اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدورں کو الگ کرکے لسانیت کے بنیاد پر انہیں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا اور دوسرے مقامی بلوچ مزدوروں کو چھوڑ دیا گیا تو میں سمجھتا ہوں آپ کا طیش میں آجانا حق بجانب ہے۔ لیکن ایک حریت پسند انقلابی کبھی بھی اپنے جیسے محکوم و مظلوم پر بندوق نہیں تان سکتا۔
جناب
آپ نے امریکی سینٹ میں بلوچستان کے حوالے سے پیش ہونے والے قرار داد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عرض فرمایا ہے کہ ’’امریکہ میں انتہائی دائیں بازو کے سیاستدان اور کانگریس کے ممبران، جن میں کیلی فورنیا کے ڈانا روراباچراور ٹیکساس کے لوئی گومیرٹ سر فہرست ہیں، نے بلوچستان کی علیحدگی کی مہم شروع کی ہوئی ہے۔‘‘

یہاں آگے بڑھنے سے پہلے لینن کا یہ فقرہ ’’جب 1918ء میں جرمن سامراجی درندوں نے اپنی فوجیں اس روس کے خلاف بھیج دیں جو غیر مسلح تھا اور جو اپنی فوج کو سبکدوش کرچکا تھا، جس نے عالمی انقلاب کے پوری طرح پختہ ہونے سے پہلے پرولتاریہ کی بین الاقوامی یکجہتی پر بھروسہ کیا تھا تو اس وقت میں نے فرانسیسی شاہ پرستوں کے ساتھ ’’سمجھوتہ‘‘ کرنے میں ایک لمحے کے لئے بھی تذبذب نہیں کیا۔‘‘ وہ آگے امریکی انقلاب کا مثال دیتے ہوئے لکھتا ہے۔’’امریکی لوگوں نے بھی اس طریقہ کار کو اپنے انقلاب کے فائدے کے لئے مدتوں ہوئے استعمال کیا۔ جب انہوں نے برطانوی جابروں کے خلاف عظیم جنگِ آزادی کی تو اُن کے خلاف فرانسیسی اور ہسپانوی جابر بھی تھے جو اس ملک کے ایک حصے کے مالک تھے جو اب شمالی امریکہ کے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کہلاتا ہے۔

آزادی کے لئے اپنی سنگین جنگ میں امریکی لوگوں نے بھی کچھ جابروں کے ساتھ دوسرے جابروں کے خلاف ’’سمجھوتے‘‘ کئے جن کا مقصد جابروں کو کمزور کرنا اور اُن لوگوں کو مضبوط کرنا تھا جو جبر کے خلاف مظلوم لوگوں کے مفادات کے لئے انقلابی طریقے سے لڑ رہے تھے۔ امریکی لوگوں نے فرانسیسیوں، ہسپانیوں اور انگریزوں کے تصادم سے فائدہ اٹھایا۔ کبھی کبھی تو وہ فرانسیسی اور ہسپانوی جابروں کی فوجوں کے شانہ بشانہ انگریز جابروں کے خلاف لڑے بھی، پہلے انہوں نے انگریزوں کو ہرایااور پھر اپنے کو فرانسیسیوں اور ہسپانیوں سے آزاد کیا۔‘‘ (امریکی مزدوروں کے نام خط، 1918ء)۔

اب آتے ہے امریکی سینٹ میں پیش ہونے والے قرار داد کی جانب جس کا آپ نے ذکر کیا ہے۔ اگر اس قرارداد کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے لینن کے مندرجہ بالا فقرے کے تناظر میں دیکھیں تو اس کا فائدہ اس حد تک تو یہ ہوسکتا ہے کہ بلوچ تحریکِ آزادی نے عالمی پیمانے پر خود کو متعارف کروایا اور اب مسئلہ بلوچستان کی بازگشت عالمی ایوانوں میں سنائی دے رہا ہے، لیکن دوسری جانب میں نہیں سمجھتا کہ یہ بلوچستان کی علیحدگی کی کوئی مہم ہو، بلکہ اس قرارداد کا مقصد پاکستانی ریاست کی طالبانائزیشن کے خلاف دُگنی پالیسی (بظاہر مخالف لیکن اندرونی پرورش) اختیار کرنے پر دباؤ ڈالنے کی ایک گیم تھی۔ جسے حریت پسند رہنماؤں نے مسترد کردیا تھا، بلکہ حال ہی میں بلوچ تحریک کے سرخیل قائد کامریڈ خیربخش مری (مرحوم) کا ایک انٹرویو منظر عام پر آیا جو اُن کے وفات سے دو ماہ قبل پہلے لیا گیا تھا، جس میں انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ ’’ہمیں ایسی آزادی کی ضرورت ہے جو محکوم بلوچ عوام کو فائدہ دے نہ کہ امریکی سامراج کو‘‘ اس سے پہلے بھی مری صاحب نے اپنے ایک اور انٹرویو میں واضح الفاظ میں کہا تھا ’’ بلوچستان کا مستقبل سوشلزم ہے۔‘‘

ایک اور جگہ پر آپ نے ہزاروں بلوچوں کی خلیجی ممالک میں مزدوری کرنے کی غرض سے چلے جانے کا ذکر کیا ہے۔ اگر بلوچستان جیسے مقبوضہ اور پسماندہ خطے کا دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ موازنہ کریں تو میرے خیال میں آپ کے اس بات کی مکمل نفی ہوگی کہ کسی ترقی یافتہ ملک میں مزدوری کے لئے جانے والے مزدوروں کو جواز بناکر ایک پسماندہ اور سامراجی زیرِ دست خطے کے عوام کا خون چوسنے والی منصوبوں کو تقویت دینے والوں کی محض مزدورہونے کے نام پر حمایت اور ایک محکوم و مظلوم عوام کی انقلابی جنگ کو سامراجی مفادات و ملٹی نیشنل کمپنیوں کا پراکسی وار قرار دینا ایک متضاد سوچ کی نشاندہی کرتا ہے، جس کا سوشلزم سے دور دور تک واسطہ نہیں۔

اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ آپ نے بلوچوں کی انقلاب وآزادی کی تحریک کو بدنام کرنے کے لئے اپنی ریاستی وفاداری کو مزدوروں میں کیموفلاج کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ ایک کمیونسٹ کو یہ شہ نہیں دیتا کہ مزدوروں کا مورچہ بنا کر ایک محکوم قوم کی انقلابی تحریک پر وار کریں۔ بہرحال‘ ہم نہ صرف بلوچستان بلکہ دنیا کے تمام خطوں کے مظلوم و محکوم اور غریب و محنت کشوں کی بِلا رنگ و نسل اور مذہب و قومیت، سیاسی و سماجی اور معاشی آزادی پر پختہ یقین رکھتے ہوئے پوری دنیا سے سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھنکنے کے لئے پُرعزم ہیں۔ حتیٰ کہ پنجاب میں پنجابی مزدوروں پر مبنی کوئی تحریک استحصال کا سرچشمہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف پرسرپیکار ہوتا ہے اور سوشلسٹ یا دیگر انصاف پر مبنی نظام کے لئے جدوجہد کرتا ہے تو ہم اس کی حمایت اورتقلید کریں گے لیکن اسٹیبلشمنٹ کے لئے مزدور بن کوئی کام کرے گا تو وہ ظالم کا ایندھن تو ہوسکتا ہے لیکن مزدور نہیں۔۔۔

محترم لال خان
یہ میرا ذاتی خیال ہے، اُمید ہے کہ آپ بُرا نہیں منائیں گے اور آئندہ بلوچستان میں دہائیوں بلکہ ایک صدی سے زائد جاری تحریکِ آزادی کی انقلابی جدوجہد کو اس طرح بدنام کرنے کی کوشش کو ترک کرتے ہوئے مسئلہ بلوچستان کے تمام پہلوں سیاسی، سماجی، معاشی، جغرافیائی اور ثقافتی وغیرہ ، کو مدِ نظر رکھ کرسچائی کی بنیاد پر رائے زنی کریں گے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ دنیا کے تمام محکوم و مظلوم اور محنت کشوں کے زخموں کا مداوا صرف اور صرف عالمی سوشلسٹ انقلاب ہی کرسکتا ہے،لیکن پہلے محکوم اقوام کی آزادی کو تسلیم کئے بغیر یہ سب ناممکن ہے۔

لینن نے ایک صدی پہلے اس گتھی کو سلجھاتے ہوئے کہا تھا ’’پرولتاریہ کا فرض ہے کہ اُن نوآبادیوں اور اُن قوموں کی سیاسی علیحدگی کی آزادی کا مطالبہ کریں جن کو پرولتاریہ کی ’’اپنی‘‘ قوم ظلم و محکومی کا شکار بنائے ہوئے ہے۔ جب تک کہ پرولتاریہ ایسا نہیں کرتا پرولتاریہ بین الالقوامیت محض بے معنی اصطلاح رہے گی۔‘‘ (سوشلسٹ انقلاب اور قوموں کی حقِ خوداختیاری، 1916ء)

لینن کے یہ فقرے میں پھر آپ کی کارکردگی پر بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ دوسرے محکوم قوموں کی آزادی کو تسلیم کرنا تو درکنار، اب تک آپ نے اپنی پارٹی (پاکستان پیپلز پارٹی) میں کس حد تک انقلاب لانے میں کامیاب ہوگئے ہو، جن کی حیثیت سیدوں،چوہدریوں، وڈیروں، سرداروں، نواب و دیگر میرو معتبرین مختصر یہ کہ بڑے بڑے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں پر مشتمل ایک ریاستی آلہ کار استحصالی پارٹی بڑھ کر کچھ نہیں۔ بہرحال‘ اگر سمجھتے ہو کہ بلوچستان کی تحریکِ آزادی سامراجی مفادات کی پراکسی ہے تو میرا آپ کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ نچلی سطح سے اوپری سطح تک سرمایہ داروں اور جاگیرداروں سے گھیرا ہوا پاکستان پیپلز پارٹی میں وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ بلوچستان کی تحریکِ آزادی میں شامل ہوکر سچا مارکسسٹ، لیننسٹ ہونے کا ثبوت دے کر عالمی سوشلسٹ انقلاب کے لئے راہیں ہموار کریں، کیوں کہ یہاں حالات بہت ہی سازگار ہے اور اگر چاہو تو زبردست کام کرسکتے ہو۔

لینن بھی یہی کہتا ہے کہ’’سوشلسٹوں کو چاہئے کہ وہ نہ صرف نوآبادیوں کی بلامعاوضہ غیر مشروط اور فوری آزادی کا مطالبہ کریں(اور اس مطالبے کا سیاسی مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا کہ حق خود اختیاریت کو تسلیم کیا جائے) بلکہ ان کو چاہئے کہ ان ملکوں میں قومی آزادی کے لئے بورژوا جمہوری تحریکوں میں زیادہ انقلابی عناصر کی ڈٹ کر حمایت کریں اور ان کو ظلم و محکومی کا شکار بنانے والی سامراجی طاقتوں کے خلاف ان کی بغاوت میں اگر ضرورت پڑے تو ان کی انقلابی جنگ میں مدد دیں۔‘‘ (سوشلسٹ انقلاب اور قوموں کی حقِ خوداختیاری، 1916ء)

محترم لال خان صاحب
آپ بخوبی جانتے ہیں کہ بلوچستان میں انقلابی یا سوشلسٹ ذہن زیادہ پایا جاتا اور اس کا اعتراف تو مشہور دانشور ڈاکٹر مبارک نے بھی کیا ہے۔ اس وقت یہاں بلوچستان میں انسرجنسی کی صورت میں انقلاب کے لئے جدوجہد جاری ہے تو کیونکر اس سے فائدہ نہ اٹھایا جائے اور ایک سوشلسٹ ریاست کی تخلیق کی جائے جو بعدازاں ہمسایہ سوشلسٹوں کے لئے ایک حفاظتی پیڈ، گراؤنڈ یا ایک خطے میں سوشلزم ابھرنے کا چشمہ ہو۔ اگر پنجاب میں سوشلسٹ ذہن کی کمی ہے تو کیونکر بلوچستان کے اس سوچ کوپنجاب میں سوشلسٹ ذہن ابھرنے کے انتظار میں رکھ کر ضائع کیا جائے۔ ویسے بھی سوشلزم کو ذہنوں میں رکھ کر گھمانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اس سوچ کو زمین پر نافذ کرنے سے ہی فوائد حاصل ہوں گے، جس کے لئے بلوچستان میں سیاست کے مختلف پہلوؤں یعنی پُرامن اور پختہ ترین صورت(مسلح جدوجہد) میں جاری و ساری ہے۔

لہٰذا آپ سوشلسٹ دانشور بلوچستان کے انقلابیوں کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اور پنجاب میں یہ عام کریں کہ وہاں کے مزدور بلوچستان میں استحصالی منصوبوں کی تکمیل کے لئے نہ آئیں ۔ اس سے بڑھ کر آپ پنجاب کے مزدوروں کی ذہن سازی کریں تاکہ وہ بھی بلوچستان کے انقلابیوں کی طرح استحصالی ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد کریں ۔ ورنہ عرصہ 50سال سے آپ اورآپ کے قبیل ذہنوں میں سوشلزم لے کر پیپلز پارٹی اور دیگر استحصالی اور دولت مند سیاست دانوں کے پارٹیوں کے سہولت کاراور اسٹیبلشمنٹ جس کی جائیدادیں دنیا میں پھیلی ہوئی اور دولت سوئٹرز لینڈو دیگر ممالک کے بینکوں میں پڑا ہواایندھن بنتے رہیں گے۔

آخر میں یہ عرض آپ کی پیشِ خدمت ہے کہ اگر بلوچستان کے اس خون آشام فضاء میں فطرت نے زندہ رہنے کے لئے مزید کچھ مہلت دی تو میں آپ کے جواب کا منتظر رہوں گا۔

محراب سنگت

بلوچستان

2 Comments