شادی، ایک مقدس فریضہ

خالد تھتھال

Wedding Celebration in Saudi Arabia
سعودی عرب ایک مثالی اسلامی ملک ہے یہاں کی سو فیصد آبادی مسلمان ہے، کہا جاتا ہے کہ اس ارض مقدس کا اس کا سیاسی و سماجی نظام شرعی اصولوں کو مدنظر رکھ کر ترتیب دیا گیا ہے۔

شادی ایک مقدس مذہب فریضہ ہے اس میں بھی کوشش کی گئی ہے کہ یہ شرعی اصولوں سے ہٹنے نہ پائے۔ امام زین العابدین بیشک شہر بانو نامی کنیز کی اولاد ہوں، سفاح اور امین الرشید کے علاوہ بھلے سب عباسی خلفاء کنیزوں کے بیٹے ہوں لیکن نکاح کے مقدس فریضہ کو ادا کرتے ہوئے ان مقتدر ہستیوں نے بھی ہمیشہ اس بات کا دھیان رکھا کہ پھوپھیوں، خالاؤں، چچاؤں کی بیٹیاں ہی ان کی منکوحہ بیویاں کہلائیں۔

نکاح کیلئے ساتھی کے چناؤ کو اپنے قریبی رشتہ داروں تک محدود رکھنے کی فریضہ آج بھی اسی طرح نبھایا جا رہا ہے جیسے کبھی ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ سعودی عرب میں شادی کے لئے ہمیشہ کی طرح فرسٹ کزن کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔ گو کبھی کبھار سیکنڈ کزن یا دوسرے رشتہ داروں سے بھی شادی ہوتی ہے۔ اتنے نزدیکی رشتہ داروں میں شادی کی وجہ سے کئی بیماریوں مثلاََ تھیلیسیمیا کا خاصا ذکر سنا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سعودی جوانوں کی ایک تہائی آبادی ٹائپ ٹو ذیابیطس کا شکار ہے۔

سعودی معاشرے میں شادی کے سلسلہ میں رشتہ دار خواتین مرکزی کردار ادا کرتی ہیں۔ کسی بھی گھر میں اچھا رشتہ ہونے کی صورت میں کسی رشتہ دار خاتون کے ذریعے ہونے والے دولہے کے گھر کی خواتین تک کسی لڑکی کے کوائف پہنچتے ہیں۔ اس کی سیرت و صورت کے گْن گائے جاتے ہیں۔ لڑکی کتنی اچھی بیوی ثابت ہو گی، اس کیلئے استخارے سے بھی کام لیا جاتا ہے۔ اگر لڑکی کے کوائف میں لڑکے والوں کو دلچسپی پیدا ہو تو لڑکے والے لڑکی والوں کے گھر جاتے ہیں۔

لڑکے کی طرف سے آنے والی خواتین مستقبل کی دلہن اور اس کی رشتہ دار خواتین سے ملتی ہیں۔ مرد علیحدہ کمرے میں دوسرے مردوں سے ملتے ہیں۔ اگر لڑکی کے والد کو رشتہ پسند آ جائے تو لڑکے کی لڑکی سے ایک مختصرسی ملاقات کرائی جاتی ہے۔ اس ملاقات کو ایک انٹرویو کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ لڑکے کے مطمئن ہونے کی صورت میں معاملہ لڑکی اور لڑکے کے والد کے سپرد ہو جاتا ہے جہاں یہ طے کیا جاتا ہے کہ شادی کے سلسلہ میں لڑکے والوں کو کس قدر نقد رقم اور تحائف دینا ہوں گے۔

شادی کی خاطر ادا کی گئی اس قیمت کو مہر کا نام دیا جاتا ہے۔ ایک کنواری لڑکی کا مہر ایک مطلقہ یا بیوہ سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔ اور یہ رقم لڑکی کے والد کو ادا کی جاتی ہے۔ جو پاکستانی روپے میں لاکھوں اور کروڑوں تک جا پہنچتا ہے۔ گو سعودی عرب میں چار بیویوں کی اجازت ہے لیکن مہر کی رقم کی وجہ سے ہر کوئی اس سہولت سے استفادہ نہیں کر سکتا۔

ہمارے ہاں بھی نکاح کی رسم کے وقت مہر کا ذکر ہوتا ہے۔ میری شادی کے وقتوں میں شرعی مہر پاکستانی بتیس روپے تھا، اب افراط زر کی وجہ سے شائد یہ رقم بڑھ کر زیادہ ہو چکی ہو گی۔ مہر کے سلسلہ میں مجھے اپنی شادی کا ہی واقعہ یاد آ گیا، میں 1976 میں شادی کر کے ناروے واپس آیا، میرا ایک مراکن دوست جو ابھی کنوارا تھا اس نے بہت تجسس سے مجھ سے پوچھا کہ میں نے اپنی بیوی سے شادی کیلئے کتنی رقم ادا کی۔

میں نے بتایا کہ میں نے کچھ بھی نہیں ادا نہیں کیا۔ اس کے چہرے کا رنگ تھوڑی دیر کیلئے بدلا، پھر خود ہی کہنے لگا، یقیناًوہ باکرہ نہیں ہو گی۔ مجھے ضروری محسوس نہ ہوا کہ اسے ان کے ہاں کی شریعت اور اپنے ہاں کی شریعت کا فرق سمجھاؤں ۔کہ تمہارے ہاں مہر کے نام پر لڑکی بکتی ہے اور ہمارے ہاں جہیز کے نام پر لڑکے بکتے ہیں۔

سعودی عورتوں کے کسی غیر سعودی مرد سے شادی کرنے کیلئے مرد کا مسلمان ہونا کافی نہیں ہے۔ مرد کو مستقل اقامت کیلئے اتنے لمبے مراحل سے گزرنا ہوتا ہے کہ زندگی گزر جاتی ہے لیکن اقامت حاصل کرنے کی شرائط پوری نہیں ہو پاتیں۔ سب سے پہلی مصیبت کا سامنا تو تب کرنا پڑتا ہے جب ملازم پیشہ عورت جونہی کسی سے شادی کرتی ہے تو اس کی حیثیت ایک خود کفیل انسان سے کم ہو کر کسی مرد کی کفالت کی محتاج کے درجہ پر آ جاتی ہے۔

عورت اپنے بچوں کی کفیل تو سمجھی جا سکتی ہے لیکن اپنے شوہر کی کفالت کا دعویٰ کر کے اس کیلئے مستقل اقامت حاصل نہیں کر سکتی۔ شائد اس کی وجوہات سعودی عورتوں کو غیر سعودی مردوں سے نکاح کرنے سے روکنا ہو۔ ہو سکتا ہے اس کی وجہ عربوں کے تاریخی تعصب ہو جس کے مطابق وہ دوسری اقوام سے افضل ہیں۔ شائد اس کی وجہ مردانہ سماج کا غیرت کا تصور ہو جس کے مطابق کوئی بھی مرد کسی بھی نسل یا قبیلے و ذات کی لڑکی سے شادی کرنے کیلئے تیار ہو جاتا ہے لیکن وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کی بہن یا بیٹی کسی دوسری نسل یا ذات کے مرد سے شادی کرے۔

میرے ایک سید دوست نے خود تو غیر سید عورت سے شادی کی ہے لیکن اس کے بقول بیشک اس کی بیٹیاں کنواری بیٹھی رہ جائیں لیکن وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس کی بیٹیاں کسی غیر سید سے شادی کریں۔ میری بیوی پختون ہے، میں ایک انتہائی روشن خیال پختون دوست کے ہاں گیا، واپسی پر بیوی نے بتایا کہ میرے پختون دوست نے میری بیوی سے پوچھا، یہ تم نے پنجابی سے کیسے شادی کر لی، ہم پنجابیوں کی بیٹیاں لیتے تو ہیں لیکن اپنی بیٹیاں کبھی کسی پنجابی کو نہیں دیتے۔

شائد یہی وہی مردانہ غیرت ہے جس کی وجہ سے ہمارے ہاں سالا ایک گالی ہے، میں اسی وجہ سے ایک بار اپنے سالے کا تعارف کرواتے وقت اسے سالا کہتے جھجھک گیا اور اپنی بیوی کا بھائی کہہ کر متعارف کروایا۔
اگر غیرت کے اس تصور کو سامنے رکھیں تو سعودی عورت کو کسی غیر سعودی مرد سے شادی روکنے کی سمجھ تو آتی ہے۔ لیکن پچھلے سال سعودی حکومت نے اپنے مردوں کو پاکستان، بنگلہ دیش، برما اور افریقی ملک چاڈ کی عورتوں سے شادی کرنے سے بھی روک دیا ہے۔

ان پابندیوں کی کوئی سرکاری وجہ نہیں بتائی گئی، لہذا یہی شک کیا جا سکتا ہے کہ شادی کی منڈی میں سعودی عورتوں کو مقابلے کا جو سامنا ہے اس صورت حال کا خاتمہ کیا جائے۔ کیونکہ اگر منڈی میں دلہنوں کی رسد زیادہ ہو گی تو اس سے سعودی دلہنوں کی قیمت میں کمی ہونی یقینی بات ہے۔ اور اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ ان چار ممالک سے تعلق رکھنے والی دلہنیں شائد مہر کے نام پر ادا کی جانے والی قیمت کے بغیرہی شادی کر لیں۔ ان عورتوں کی سعودی مردوں سے شادی پر پابندی کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ عربوں کی اعلیٰ نسل میں کسی نیچ نسل کا خون نہ شامل ہو جائے۔

لیکن ایک بات ضرور حوصلہ افزا ہے کہ یہ پابندی صرف شادی کے سلسلہ میں ہے، ان ممالک سے تعلق رکھنے خواتین گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرنے کے سلسلہ میں مکمل آزاد ہیں، جہاں ان پر گھر کے معمر ترین افراد سے لے کر نو عمروں کے بستر کی زینت بننے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اسلام میں کنیز کی تو ویسے بھی اجازت ہے۔

ہم سب مسلمان ہیں، ہم ایک اللہ کو مانتے ہی، ایک رسول کی امت ہیں، اور ہمیں بچپن سے سکھایا گیا ہے کہ امت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے، اس کے ایک حصے کا درد پورے جسم کا درد کہلاتا ہے۔ لیکن جب بھی کبھی وقت آتا ہے یہ الہامی دعوے زمینی حقائق سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتے ہیں۔

Tags:

Comments are closed.