فرانس میں مسلمانوں کے مسائل بڑھ رہے ہیں

m234

فرانس میں آباد یورپ کی سب سے بڑی مسلم آبادی، پیرس حملوں کے بعد سے بُری طرح منقسم نظر آ رہی ہے۔ بہت سے افراد کو شمالی افریقہ میں ایک خونی نوآبادیاتی تاریخ کے پس منظر والے اس ملک میں اپنی صورتحال تشویشناک نظر آ رہی ہے۔

فرانس میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے موجودہ صورتحال بہت ہی پریشان کُن ہے۔ فرانس ماضی میں شمالی افریقہ کی نوآبادیاتی طاقت رہ چُکا ہے تاہم اب اس سیکولر ملک میں مسلمانوں کی ساکھ کو جو شدید دھچکا پہنچا ہے وہ تمام مسلم برادری کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ بہت سے مسلمانوں کے خیال میں سیکولر نظریات اسلامی نظریے کا تضاد ہیں۔

الجزائر سے تعلق رکھنے والا فیصل فائر بریگیڈ کے محکمے میں کام کرتا ہے۔ وہ 13 نومبر کو پیریس کے فُٹ بال اسٹیڈیم اسٹاڈے کے باہر ہونے والے خود کُش حملے کے متاثرین کو وقوعہ سے باحفاظت نکالنے کے لیے آگ بُجھانے والے عملے کے ساتھ بڑھ چڑھ کر خدمات انجام دے رہا تھا۔ اب اسے یہ فکر لاحق ہے کہ پیرس میں ہونے والی خونریزی کے بعد اس ملک کی پانچ ملین نفوس پر مشتمل مسلم آبادی کو فرانس کے اکثریتی معاشرے میں الگ تھلگ کر دیا جائے گا۔

پیرس کے حملوں میں مبینہ طور پر ملوث حملہ آور عرب نژاد یورپی باشندے ہیں تاہم 40 سالہ فائر مین فیصل اس بات سے خوفزدہ ہے کہ اب فرانس میں مسلمانوں کو مزید امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جائے گا۔ وہ کہتا ہے،’’ اگر آپ کا ایک مسلم نام ہے، اکثریت آپ کو فرانسیسی باشندہ نہیں بلکہ ایک عرب، ایک مبینہ دہشت گرد کی نظر سے دیکھیں گے‘‘۔ فیصل کا کہنا ہے کہ دوسری طرف پیرس کے حملوں کے نتیجے میں فرانس میں آباد مسلمان خود کو اس معاشرے کا حصہ نہیں سمجھیں گے اور اس بارے میں اُن میں ایک طرح کی مزاحمت پیدا ہوگی اور یہی وہ چیز ہے جس کا فائدہ دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ اُٹھانا چاہتی ہے۔

فرانس میں پیدا ہونے والا ایک اور الجیرین نژاد 30 سالہ محمد پیرس کے ایک علاقے میں ڈی وی ڈی اور سی ڈی کی ایک شاپ کا مالک ہے۔ محمد اور اُس کا دوست سمیر موجودہ صورتحال کے بارے میں بہت افسردہ اور پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے،’’ مسائل دراصل آج سے چالیس، پچاس سال قبل اُس وقت ہی شروع ہو گئے تھے جب فرانسیسی حکام نے تارکین وطن کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا کہ انہیں بے قائدہ طور پر پھیلے ہوئے مضافاتی علاقوں میں بسانا شروع کر دیا۔ ہر کسی سے دور الگ تھلگ‘‘۔

فرانس آنے والے تارکین وطن کی سب سے زیادہ تعداد 1960ء میں وہاں آئی تھی۔ تب وہ دور دراز مضافاتی علاقوں میں بسائے گئے تھے۔ عشروں بعد بھی یہ تارکین وطن وہیں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مخدوش رہائشی مکانوں اور پسماندہ علاقے، جہاں کی زندگی پیرس کی چکا چوند سے کہیں مختلف ہے۔

DW

Comments are closed.