جمہوریت سے آمریت کی طرف گامزن

e7386a00-a939-4931-9eac-67b55089c732ایک دہائی سے زائد عرصے سے اقتدار میں موجود اردگان اس وقت متنازعہ شخصیت بن چکے ہیں۔ انہوں نے اپنا سفر جمہوریت سے شروع کیا لیکن مذہب کی آڑ لے کر اب وہ آمریت کی طرف جارہے ہیں اور ایسے اقدامات کر رہے ہیں کہ وہ تاحیات اقتدار میں رہ سکیں۔

ترک صدر رجب طیب اردگان کی طرف سے اشارہ دیا گیا ہے کہ گزشتہ اتوار کو ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد حکمران جماعت ایک مرتبہ پھر یہ کوشش کرے گی کہ آئینی ترامیم کرتے ہوئے ملک میں صدارتی نظام رائج کیا جا سکے۔

نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق صدر اردگان کے ترجمان ابراہیم کالین نے آج بتایا کہ ترک سربراہ مملکت کو یقین ہے کہ ملک میں صدارتی نظام حکومت رائج کرنا مستقبل کی طرف سے ایک بہت بڑی جست ہو گی اور ممکنہ طور پر اس بارے میں ترکی میں آئندہ ایک ریفرنڈم بھی کرایا جا سکتا ہے۔ترجمان نے کہا کہ اگر اس مقصد کے حصول کے لیے عوام سے فیصلہ کرانا ہی طریقہ کار ٹھہرا، تو ایسا کیا بھی جا سکتا ہے۔

اردگان کی جماعت کو نئی پارلیمان میں قطعی اکثریت تو حاصل ہو گئی ہے لیکن اس کے پاس ملک میں کسی بھی ریفرنڈم کے انعقاد کے لیے یا کسی بھی آئینی ترمیم کی خاطر ابھی بھی 13 ارکان کی کمی ہے۔ ایسے کسی بھی فیصلے کے لیے اس پارٹی کو 550 رکنی ایوان میں 330 ارکان کی حمایت درکار ہوگی اور اس کے منتخب اراکین پارلیمان کی تعداد 317 ہے۔

یکم نومبر کو ہونے والے عام اتنخابات کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ صدراردگان کی جماعت، جو گزشتہ 13 برسوں سے الیکشن میں پارلیمانی اکثریت حاصل کرتی چلی آئی تھی، اس سال جون میں ہونے والے انتخابات میں اس اکثریت سے محروم ہو گئی تھی۔ پھر نئی حکومت سازی کی کوششوں میں ناکامی کے بعد ملک میں نئے الیکشن کے انعقاد کا اعلان کیا گیا اور یکم نومبر کو اسلام کی طرف جھکاؤ رکھنے والی یہی پارٹی دوبارہ اپنے لیے پارلیمانی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اگر ترکی میں آئندہ صدارتی نظام حکومت رائج کر دیا گیا، توطیب اردگان کے اختیارات میں واضح اضافہ ہو جائے گا۔ ترکی میں اپنی پارٹی کی انتخابی کامیابی کے نتیجے میں اردگان پہلی مرتبہ 2003 میں وزیر اعظم بنے تھے اور تب سے اب تک وہ ملکی سیاست پر پوری طرح چھائے ہوئے ہیں۔ان کے سیاسی عزائم کوئی راز کی بات نہیں ہیں اب وہ صدارتی نظام حکومت متعارف کرانا چاہتے ہیں جس میں وہ اپنے لیے زیادہ اختیارات چاہتے ہیں۔

نچلی سطح سے آغاز کرنے والے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان، اتاترک کے بعد ترکی کے مضبوط ترین سیاستدان بن چکے ہیں۔ تاہم ایک دہائی سے زائد عرصے سے اقتدار میں موجود اردگان اس وقت متنازعہ شخصیت بن چکے ہیں۔ انہوں نے اپنا سفر جمہوریت سے شروع کیا لیکن مذہب کی آڑ لے کر اب وہ آمریت کی طرف جارہے ہیں اور ایسے اقدامات کر رہے ہیں کہ وہ تاحیات اقتدار میں رہ سکیں۔ جس سے ان کی مخالفت میں اضافہ ہو رہاہے۔

کئی اخبارات اور صحافیوں پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اردگان اب قدامت پسندانہ اسلامی اقدار کو لاگو کر نے کے ساتھ ساتھ اپنے مخالفین اور میڈیا کو کنٹرول کر کے سیکولر ڈیموکریسی کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔انہوں نے اپنے مخالفین پر گھیرا بھی تنگ کیا ہے۔

انتخابی مہم کے دوران پولیس نے اردگان کے مخالف رہنما سے تعلق رکھنے والے ٹیلی وژن اسٹیشنوں کو بند کر دیا۔ان ٹی وی اسٹیشنوں کے خلاف چھاپوں کے بعد ہونے والے مظاہروں کے دوران ایک پلے کارڈ پر اردگان کو ’’ آخری آمر‘‘ قرار دیاگیا۔ امریکا میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے والے فتح اللہ گْلن پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اردگان کے قریبی لوگوں کی بدعنوانی کوبے نقاب کراتے ہوئے ان کے اقتدار کو ختم کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اے ایف پی کے ایک تجزیے کے مطابق اردگان کے حامی انہیں ایک تغیراتی شخصیت قرار دیتے ہیں جنہوں نے ترکی کو جدید بنایا ہے، تاہم ان کے مخالفیں انہیں ایک ایسا رہنما قرار دیتے ہیں جو اپنی شخصیت اور اپنے عہدے کو طاقتور سے طاقتور بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔

ایک کوسٹ گارڈ کے بیٹے رجب طیب اردگان نے بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ وہ 1994ء میں استبول کے میئر منتخب ہوئے اور انہوں نے 15 ملین کی آبادی والے اس میگا سٹی میں ٹریفک اور فضائی آلودگی جیسے مسائل پر قابو پانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی مذہبی سیاسی جماعت کو جب کالعدم قرار دے دیا گیا تو مظاہروں میں شرکت پر انہیں چار ماہ کی جیل بھی کاٹنا پڑی۔

اردگان اور ان کے طویل عرصے کے ساتھی عبداللہ گْل نے 2001ء میں جسٹس اینڈ ڈویلمپنٹ ( اے کے پی )کی بنیاد رکھی۔ یہ سیاسی جماعت 2002ء کے بعد سے ہر انتخاب میں کامیابی حاصل کرتی رہی ہے۔ ابتداء میں ان کے مجرمانہ ریکارڈ کے باعث مشکلات کا سامنا رہا تاہم 2003ء میں ملکی پارلیمان کی طرف سے نئی اصلاحات منظور کیے جانے کے بعد وہ ملک کے وزیراعظم بنے۔

طیب اردگان کی طرف سے امریکی طرز پر صدارتی نظام لاتے ہوئے اپنے عہدے کو مزید طاقتور بنانے کا خواب رواں برس جون میں ہونے والے انتخابات میں اس وقت چکنا چور ہو گیا جب ان کی سیاسی جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی نے اپنی پارلیمانی اکثریت کھو دی۔ اس طرح گزشتہ 13 برس ترکی میں ایک ہی جماعت کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔

61 سالہ اردگان پہلی مرتبہ 2003ء میں بطور وزیراعظم اقتدار میں آئے تھے۔ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں فوجی بغاوتوں اور غیر مستحکم اتحادی حکومتوں کی تاریخ رکھنے والے اور معاشی طور پر مشکلات کے شکار ترکی کو استحکام کی راہ پر ڈالا۔