پیپلز پارٹی کا یوم تاسیس

عظمیٰ اوشو

Bhutto

تیس نومبر 1967 کو پاکستان میں ایک حقیقی سیاست کا سورج چمکا ،اس دن ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی ،یہ وہ دن تھا جس دن حقیقتْ میں عام آدمی کی سیاست میں شمولیت کا آغاز ہوا
یہ وہ دن تھا جس دن جاگیرداروں کو للکارنے والا کسان جاگا ،جس دن سرمایہ دار کو للکارنے والے اور اپنا حق ما نگنے والے مزدور نے آنکھیں کھولیں ۔

حقیقتاً دیکھا جائے تو پاکستان میں سیاست کا جنم 30نومبر 1967 کو ہوا ۔ذوالفقار علی بھٹو کا کمال یہ نہیں تھا کہ انہوں نے ایک سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھی بلکہ ان کا کمال یہ تھاکہ انہوں نے پیپلز پارٹی کو ایسا منشور دیا جو کہ اور کوئی سیاسی جماعت نہ دئے سکی بھٹو نے عام آدمی کو یہ یقین اور بھروسہ دیا کہ اقتدار کے ایوانوں میں صرف جاگیردار یا وڈیرے ہی نہیں جاسکتے بلکہ ایک عام آدمی بھی جا سکتا ہے اور حقیقتاً ایسا ہوا بھی۔

پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ میں بے شمار ایسے نام ہیں جو نہ تو جاگیردار تھے نہ ہی سرمایہ دار مگر اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز ہوئے ۔پاکستان کی 86 سالہ مختصر تاریخ میں تقریباً 50 سال بھٹو خاندان سے منسوب ہو چکے ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو 1957 سے پاکستان کے سیاسی افق پر ابھرے اور اب تک چھائے ہوئے ہیں ۔میری رائے کے مطابق پاکستانی قوم خوش قسمت تھی انھیں ذوالفقار علی بھٹو جیسا لیڈر ملا جس نے پاکستانی قوم کو مایوسیوں سے مسرتوں ،پستیوں سے بلندیوں تک پہنچایا لیکن بد قسمتی سے بھٹو خاندان کو اس کے بدلے میں لا شیں ملیں۔

ذوالفقار علی بھٹو حقیقی معنوں میں پاکستانی نیشنلزم کی علامت تھے مجسم پاکستانی قوم پرست تھے بھٹو ایسا لیڈر تھا جسے اپنے مزدوروں سے پیار تھا جسے اپنے کسانوں سے محبت تھی ،یقیناًبھٹو جیسا لیڈر ہی ایک ایسی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھ سکتا ہے جس کے منشور میں لکھنے کی حد تک مزدور ،کسان اور عورتوں کے حقوق کی بات نہیں کی گئی بلکہ اسے عملی جا مہ بھی پہنایا گیا ۔پیپلز پارٹی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس کی قیادت سے لے کر ایک عام پارٹی ورکر نے بھی ملک میں صحت مندانہ سیاسی کلچر کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں ۔

پیپلز پارٹی کے سیاسی کا کنوں کی جدوجہد ناقابل فراموش ہے جس میں انہوں نے اپنے دن رات پارٹی لائن پر عمل کرتے ہوئے جیلوں کی تنگ وتاریک کوٹھریوں میں گزار دئے۔کبھی پولیس کا لا ٹھی چارج تو کبھی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کی چیرہ دستیاں کبھی جیلوں میں قیدوبند تو کبھی تنہائی اور روپوشی میں دربدر ی کئی زہین طالب علموں کے تعلیمی کیریر ختم ہوئے مگر بھٹو کے عاشقوں نے ہمیشہ اپنے خاندانوں پر پارٹی کو فوقیت دی ۔

پاکستان کے بہادر لیڈروں اور کار کنوں نے اپنا سب کچھ جمہوریت پر قربان کر دیا وہ جیلوں سے نہیں گھبرائے وہ فوجی عدالتوں کا سامنا بہادری سے کرتے رہے ۔ذوالفقار علی بھٹو ہو یا پھر بینظیر بھٹو ، موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر چلے اور جمہوریت کی لا ج رکھتے ہوئے اپنی جانیں قربان کیں ۔ بھٹو خاندان پچھلے 50سال سے پاکستان میں اپنے خون سے جمہوریت کی راہ میں چراغ جلا رہا ہے۔

یقیناًبھٹو خاندان کی قربانیاں نا قابل فراموش ہیں اور آج بھی پیپلز پارٹی کے کاکنوں میں قربانی کا جذبہ موجود ہے ۔


سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے۔دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے۔

One Comment