عورت ، سماج اور ریاستی ادارے

زاہد عکاسی

3_231647

ماضی کے جھروکے سے۔۔۔ عورت ، سماج اور ریاستی ادارے

سنہ 1978
ء میں رائل پارک میں فلمی کاروبار عروج پر تھا یہیں دیگر دفاتر کے علاوہ سنگیتا کے والد سید طیب رضوی کا دفتر بھی ہوا کرتا تھا۔ جب سنگیتا اور کویتاکے خلاف شہزادہ عالم گیر نے اپنے میگزین مصور میں لکھا تھا تو انہوں نے اوران کے مداحوں نے شہزادہ عالمگیر کو ناکوں چنے چبوا دئیے تھے اور شہزادہ عالمگیر معافی مانگنے پر مجبور ہو گیا۔

اُس وقت سنگیتا اور کویتا اپنے والدین کے ہمراہ فیروز پور کے قریب گلبرک میں رہا کرتی تھیں۔ سنگیتا کی والدہ مہتاب بانو نے کہا تھا ’’عکاسی صاحب جس عورت کے پاس دوجوان لڑکیاں ہوں وہ اس ملک میں کیا کچھ نہیں کر سکتی۔شہزادہ عالمگیر تو بیوقوف ہے‘‘۔ اس کے بعد اس میں یہ ہمت نہیں رہی تھی کہ کسی کے خلاف کچھ لکھ سکتا۔

مارشل لاء کے دوران ہی بمبئی سے بیگم پارہ(ماضی کی اداکارہ) اپنے دوست شیخ مختار کے ساتھ پاکستان آئی تھی۔وہ جنرل ضیاء الحق کی قریبی عزیز تھی شاید کزن وغیرہ اس نے جنرل سے شیخ مختار کی فلم نورجہاں ریلیز کرنے کی سفارش کی تھی جو جنرل نے مان لی تھی اور خصوصی اجازت نامہ کے تحت شیخ مختار کو فلم ’’نورجہاں‘‘ ریلیزکیا گیا تھا جیسا کہ اب جنرل پرویز مشرف نے مغل اعظم کو اجازت نامہ دیا تھا۔ نورجہاں ریلیز ہوئی تو لوگوں نے کافی پسند کیا تھا کیونکہ کافی عرصہ بعد ایک انڈین فلم لوگوں کو سینما میں دیکھنے کے لیے ملی تھی۔

بیگم پارہ اپنے ساتھ آئے ہوئے راجندر سنگھ بیدی کے ناول پر مبنی’’ اک چادرمیلی سی‘‘ کا سکرپٹ بھی لے آئی تھی۔ اُس نے یہ سکرپٹ سنگیتا کو دے دیا تھا اور اس میں ماں کا کردار خود کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔سنگیتا کو بھی اس فلم کا سکرپٹ بھا گیا تھا اور اُس نے اسے عکس بند کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کر دیا تھا اور فلم کا نام ’’مٹھی بھر چاول‘‘ رکھا تھا۔

مٹھی بھر چاول کی شوٹنگ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی کہ بیگم پارہ کو بھارت واپس جانا پڑ گیا جس کے بعد یہی کردار سنگیتا نے خود کیا تھا اور یہ کچھ ایسے موثر ڈھنگ سے کیا گیا تھا کہ ہر تماشائی نے سنگیتا کی پرفارمنس کی داد دی تھی۔ اس فلم کو1978ء کا بہترین نگار فلم ایوارڈ دیا گیا تھا اور اسے ہدایت کاری ،اداکاری اور تدوین کاری کے بھی ایوارڈ ملے تھے۔

فلم میں سنگیتا کی بیٹی کا کردار ایک نوعمر اداکارہ شہلاگل نے ادا کیا تھا۔شہلا گل ان دنوں کنئیرڈ کالج میں پڑھتی تھی کہ ایک دن سنگیتا کالج میں ڈرامہ دیکھنے آ ئی تو اس نے ایک لڑکی کو اچھی پرفارمنس دیتے ہوئے دیکھا اور فلم میں اداکاری کی آفر کی جو اس نے قبول کر لی اور یوں وہ فلموں میں آگئی۔اس فلم میں اُس کے کام کو سراہا گیا ۔

اُس کے بعد وہ میرے ایک دوست ارشاد سیلمان کی فلم’’بوبی اینڈ جولی‘‘میں آئی ۔ارشاد سلیمان بڑے بڑے خواب لے کر لندن سے آیا تھا۔شروع میں وہ یہاں کیبل سسٹم شروع کرنا چاہتاتھا لیکن یہ خواب ادھورے ہی رہے تھے کیونکہ اس وقت صرف پی ٹی وی یا دور درشن کے چینل ہی موجود تھے اور لوگ انہیں انٹینا کے ذریعے دیکھ لیتے تھے۔وہ مایوس ہو کر واپس چلا گیا کچھ عرصہ بعد پھر واپس آیا تو ایک فلم بوبی ابنڈ جولی کا آغاز کر دیا۔

اس فلم میں ہیروئن کے کردار میں اس نے شہلا گل کو لیا لیکن یہ فلم بُری طرح فلاپ ہوئی۔ اس کے بعد شہلا گل فلموں میں ثانوی کردار وں میں آتی رہی جن میں شمع محبت، ساتھی، آئینہ اور زندگی، ایک دن بہو کا، دشمن، اجل (پشتو) شامل ہیں۔

فلم کی ناکامی کے بعد سلیمان نے سنگا پور میں فلموں کا کاروبار کرنے والے ایک شخص کے ساتھ مل کر ٹیلی سائن کے نام سے ادارہ قائم کیا۔اس سلسلہ میں ایک شاندار سٹوڈیو لیرک سینما کے سامنے بنایا گیا تھا۔اس ادارے نے لاتعداد فلمیں بنانے کا پروگرام بنایا وہ بھی16ملی میٹر پر لیکن ان کا یہ تجربہ ناکام رہا۔

انہوں نے عارفہ صدیقی کو لے کر ایک فلم تیار بھی کی لیکن داڑھی سے مونچھیں بڑھ گئیں جس کی وجہ سے ٹیلی سائن کا مالک مایوس ہو کر سنگاپور واپس چلا گیا اور سلیمان لندن چلا گیا ۔کافی عرصہ بعد سلیمان سے دوبارہ ملاقات ہوئی تواُس نے بتایا تھا کہ اُس کی بیٹی لندن میں اے آروائی چینل میں اینکر پرسن کے فرائض انجام دے رہی ہے ۔

شہلاگل ،فلموں سے کنارہ کشی کے بعد اب ماڈلنگ کے شعبہ میں موجود تھی۔جب مساوات کا دوبارہ آغاز ہوا تو وہ ایک روز مساوات کے دفتر میں اپنی والدہ کے ہمراہ ملی، پتہ چلا کہ ان کے خلاف پولیس نے حدود آرڈیننس کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے اور ماں بیٹی دونوں کو شرعی عدالت نے ضمانت پر رہا ئی دلائی ہے لیکن مقدمہ ابھی سول کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

شہلا گل ان دنوں اپنی والدہ کے ہمراہ ستلج بلاک میں رہتی تھی یہ اُس کا اپنا مکان تھا اس دوران اُس کا والد فوت ہو چکا تھا جبکہ اس گھرمیں اُس کا بھائی بابر اور ٹیپو بھی رہتے تھے۔ بڑی بہن روبی شادی کے بعد سمن آباد میں رہتی تھی۔روبی آرٹس کو نسل میں ڈانسر تھی اور یہاں لڑکے اور لڑکیوں کا ایک گروپ تھا جو تمام کے تمام رقاص تھے اور یہ سب مہاراج غلام حسین کتھک کے شاگرد تھے۔

روبی کاشوہر بھی رقاص تھا اور روبی کو گھر کا خرچ چلانے کے لیے کسی نہ کسی کا سہارا ڈھونڈنا پڑتا تھا۔وہ ایک بار چند ہ اکٹھا کرنے کے چکر میں ایک کارخانہ دار سے ملی تھی اور اُس کارخانہ دار کی پھر مستقل داشتہ بن گئی تھی یہ کارخانہ دار اس کے بچوں کے تمام اخرجات برداشت کرتا تھا اور کبھی کبھار مع اُس کے شوہر کے مری کی سیر بھی کرا دیتا تھا۔

شہلا گل گھر میں سمجھدار اور پڑھی لکھی لڑکی تھی۔پرکشش اور خوبصورت ہونے کی وجہ سے ہر تماش بین اس کا دلدادہ ہو جاتا تھا ایک بار وہ ڈرامہ کرنے جنوبی پنجاب کے کسی قصبہ میں گئی تو وہاں کا ایک سندھی اسسٹنٹ کمشز اس کا دیوانہ ہو گیا لیکن یہ اُ سے دور ہی رہی ۔کچھ عرصہ بعد یہ افسر لاہور آیا تو علامہ اقبال ٹاؤن کے ڈی ایس پی سے ملا ۔جس نے شہلا گل کو بلاوا بھیجا اور وہ نہ آئی اس پر علاقے کے تھانیدار کو غصہ آیا اور اُس نے اس کے گھر پر چھاپہ مارا اور اُسے پکڑ کر تھانے لے آیا۔اُسے مجبور کیا کہ اس افسر کا کہنا مانے اُس نے کہا کہ جب تم نے مجھے بد نام ہی کر دیا ہے تو میں تمھارا حکم نہیں مانوں گی۔جس پر ماں بیٹی دونوں کو حوالات میں بند کرکے ان پر حدود آرڈی نینس کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ۔

مقدمہ کے لیے جو ایف آئی ار کاٹی گئی اس میں کہانی کچھ یوں بیان کی گئی کہ پولیس کے دو اہل کار گاہک بن کر شہلا گل کے گھر گئے اور اُس سے رات بھر کی بات کی۔شہلا گل کی ماں نے 9ہزار روپے مانگے جو اُسے دے دئیے گئے ۔بعداز اں پولیس نے انہیں بدکاری کی نیت پر گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا۔تیسرے روز ان کی ضمانت شریعت کورٹ نے لے لی اور مقدمہ کی سماعت باقاعدہ سول کورٹ میں شروع ہو گئی۔

استغاثہ کو سوائے پولیس کے کوئی گواہ نہیں ملا اس دوران شہلا گل کی والدہ عیسائی ہونے کی وجہ سے حضرت عیسیٰ کا مجسمہ سامنے رکھ کر اور کینڈل جلا کر گڑاگڑاتے ہوئے ڈی ایس پی کو بد دعا ئیں دینے لگی جس نے یہ جھوٹا مقدمہ درج کیا تھا۔وہ جو کہتے ہیں کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے ہر شخص کے اپنے کرموں کا پھل بھگتنا پڑتا ہے، ڈی ایس پی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔واقعہ کے پندرہ روز بعد اس کا ایک بچہ ریس کورس پارک کی جھیل میں ڈوب کر مر گیا۔

خیر مقدمہ کی تاریخیں پڑتی رہیں۔اس دوران مساوات کا رپورٹر خواجہ منور مجھے اور شہلا گل کو ہیومین رائٹس کمیشن کی چیئرپرسن عاصمہ جہانگیر کے پاس لے گیا،عاصمہ نے ہر قسم کی مدد کا وعدہ کیا ۔وہ ایک روز عدالت میں بھی آئی تھیں۔ ایک ٹاؤٹ نے شہلا گل کی ماں کو ورغلا یا اور اس نے عاصمہ جہانگیر سے معذرت کر لی کہ آپ کا بہت بہت شکریہ ہمارا وکیل خود مقدمہ کی پیروی کرتا رہے گا۔

میں نے مشہور وکیل شبیر لالی سے اس کیس کا ذکر کیا۔شبیر لالی نے جج سے بات کی تو اُس نے کہا کہ یہ تو صاف جھوٹا کیس ہے کیونکہ پولیس کے گواہوں کے علاوہ اور کوئی گواہ ہے نہیں لہٰذا گھبرانے کی ضرورت نہیں۔پھر اُس جج کا تبادلہ ہو گیااور نیا جج آگیا۔ اُس نے اپنے ٹاؤٹوں کے ذریعے شہلا گل کو ملاقات کے لیے کہا ، شہلا نے لفٹ نہ کرائی اوراس نئے جج نے دونوں ماں بیٹیوں کو عمر قید اور کوڑوں کی سزا دے ڈالی۔

ماں بیٹیاں پھر جیل پہنچ گئیں اس کا بھائی باہر مجھے لیے وکیلوں کے پاس گھومتا رہا آخر کافی رقم خرچ کر کے ایک بڑا وکیل کیا جس نے دونوں کی شریعت کورٹ سے ضمانت کرائی ۔ کیس عدم پیروی پر ختم ہو گیا۔ شہلا گل دل برداشتہ ہو کر فرانس چلی گئی۔بعد میں اس کا چھوٹا بھائی جو ہیروئن کا عادی تھا مر گیا، ایک سال قبل ان کی والدہ بھی قتل ہو گئی اور اس کا دوسرا بھائی لاہور میں ہے اور اقلیتی سیٹ پر کونسلر ہے۔

نیازمانہ ، ستمبر 2007

Comments are closed.