فرانس میں دہشت گردی کا ذمہ دار کون ہے ؟

4212_109624585991_3851843_nبیرسٹر حمید باشانی خان


فرانس کا واقعہ وحشیانہ اور افسوسناک ہے۔اس واقعے کی با آواز بلند مذمت ضروری ہے۔دنیا اس مذمت میں مصروف ہے۔مگر ہماری اس دنیا کے اندر ا یک دنیا ایسی بھی ہے جو اس واقعے کی دبے الفاظ میں حمایت کر رہی ہے۔یا پھر واضح الفاظ میں اس کی مذمت سے گریزاں ہے۔ اس دنیا کا تعلق سازشی نظریہ سازوں کے گروہ سے ہے۔جب کبھی کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے تو یہ سازشی نظریہ ساز متحرک ہو جاتے ہیں۔ وہ کسی دہشت گردی کے واقعے کی مذمت کے بجائے اس کی تاویل ڈھونڈتے ہیں اور اس واقعے کو کسی نہ کسی کی سازش قرار دیکر اصل مجرموں کو بری الزمہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

فرانس کے اس خون آشام واقعے کے بعد بھی یہ لوگ اپنے کام میں مصروف ہو گئے ہیں۔فرانس کے اس واقعے پر ان کی مقبول ترین سازشی تھیوری یہ ہے کہ اس واقعے کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہے۔ اس تھیوری کی حمایت میں وہ طرح طرح دلائل سامنے لاتے ہیں۔ماضی کے کئی واقعات کا حوالہ دے کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ سب موساد کا کیا دھرا ہے۔ان کی ایک دلیل یہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے اسرائیل اور فرانس کے درمیان بڑے اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ان اختلافات کی وجہ فلسطین تھا۔

فرانس نے واضح طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کر لیاتھا۔ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ اسرائیل کے لیے انتہائی تبا ہ کن اثرات کا حامل تھا۔چنانچہ اسرائیل نے خفیہ طور پر سفارتی سطح پر فرانس کو اپنے اس فیصلے سے باز رکھنے کی بہت کوشش کی۔لیکن فرانس اپنے اس فیصلے کو بدلنے کے لیے تیار نہیں تھا۔اس بات پر دونوں کے درمیان تناو اس قدر بڑھ گیا کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے میڈیا کے زریعے فرانس کو مخاطب کیا اور خبردار کیا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کر کہ فرانس ایک سنگین غلطی کا مرتکب ہو گا۔

ان حالات میں فرانس میں رونما ہونے والا دہشت گردی کا کوئی سنگین واقعہ جس میں عرب یا عرب نژاد لوگ ملوث ہوں فرانسیسی رائے عامہ میں عرب، فلسطین مخالف جذبات پیدا کر سکتا ہے جس سے اسرائیلی موقف کو تقویت ملتی ہے۔چنانچہ یہ سب اسرائیل اور موساد کا کیادھرا ہے۔

اسی سازشی تھیوری کے حامی ایک اور گروہ کا خیال ہے کہ دہشت گردی کے اس خوفناک واقعے کے پیچھے امریکہ اور سی، ائی، اے کا ہاتھ ہے۔اس گروہ کا خیال ہے کہ امریکہ ایک عرصے سے اسلامی دنیا کے اندر مسلمانوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔وہ افغانستان، عراق اور لیبیا کو تباہ کر چکا ہے۔اب اس کی نظریں ایران اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پاکستان پر ہیں ۔یہ ایک طویل جنگ ہے جس میں امریکہ کو عالمی سطح پر اتحادیوں کی ضرورت ہے۔ اس اتحاد کا بنیادی ستون یورپ ہے۔اگر یورپ اس لڑائی میں امریکہ کا ساتھ نہ دے تو اس کے لیے یہ لڑائی جاری رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔

مگر کچھ عرصے سے یورپ میں اس حوالے سے رائے عامہ تبدیل ہو رہی ہے۔خصوصا فرانس کے اندر رائے عامہ میں اس پر بڑا رد عمل پیدا ہو رہا تھا۔اسی رائے عامہ کے دباو کی وجہ سے گزشتہ سال فرانس کے افغانستان سے امریکی مرضٰی کے خلاف اپنی فوجیں قبل از وقت نکال لی تھیں۔ چنانچہ فرانسیسی عوام کو ڈرانے اور رائے عامہ کے بدلتے ہوئے رحجان کو روکنے کے لیے دہشت گردی کے ایسے واقعات ضروری تھے۔

سازشی تھیوری کا تیسرا گروہ امریکہ اور اسرائیل کو براہ راست اس واقعے کا ذمہ دار تو قرار نہیں دیتا مگر گھوما پھرا کر بلواسطہ طور پر اس واقعے کا ذمہ دار ان ہی کو ٹھہراتا ہے۔ان کا خیال ہے کہ پورا مغرب کروسیڈ کے زمانے سے ہی مسلمانوں کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ چنانچہ انہوں نے اج تک مسلمانوں پر کئی ناجائز اور ظالمانہ جنگیں مسلط کیں۔وہ اس سلسلے میں عراق کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ خود مغربی رہنماوں نے تسلیم کیا کہ عراق پر حملہ ناجائز تھا اور اس سلسلے میں با ا مر مجبوری کچھ مغربی لیڈروں کو اپنی غلطی تسلیم کرنی پڑی۔

ان کے خیال میں کسی بھی عرب یا اسلامی ملک میں جتنے بھی مقامی چھوٹے بڑے جھگڑے ہیں ان کے پیچھے ان ہی طاقتوں کا ہاتھ ہے۔چنانچہ فرانس سمیت دہشت گردی کے تمام واقعات کے اصل ذمہ دار تو مغربی رہنما ہیں اور دہشت گردی کے واقعات ان کے عمل کا رد عمل ہے۔سازشی تھیوری کے ان حامیوں کے پاس اس طرح کے نہ ختم ہونے والے دلائل اور واقعات ہیں جس کا اظہار وہ وقتا فوقتا مختلف طریقوں سے کرتے رہتے ہیں۔

وہ ان تھیوریوں کے ذریعے دہشت گردوں کے سنگین جرم کی شدت کو کم کرتے ہیں اورگھوما پھرا کر وہ ان دہشت گردوں کو اس فعل سے بری الزمہ اور معصوم قرار دیتے رہتے ہیں۔اس طرح وہ نا صرف وہ ان کی مذمت سے بچ جاتے ہیں بلکہ وہ ان کو کچھ اخلاقی حمایت بھی فراہم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور رائے عامہ کو کنفیوز کرتے ہیں۔یہ دہشت گردی کی انتہائی مکارانہ اور منافقانہ حمایت ہے۔

دہشت گردی کے یہ خفیہ حامی ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ مغرب میں بھی ان کی بڑی تعداد ہے۔چنانچہ جو لوگ مغرب میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے عفریت پر قابو پانا چاہتے ہیں ۔ مغرب میں اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ دیکھنا چاہتے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ بھی کبھار اپنی چارپائی کے نیچے بھی ڈانگ پھیر لیا کریں۔

Comments are closed.