بہار زیست

maxresdefaultڈاکٹر پرویز پروازی

ریٹائرڈ سیشن جج او رجج انسداددہشت گردی، جناب محمد افضل سہیل کی خودنوشت’’بہارِ زیست‘‘ ماورابکس دی مال لاہور کی طرف سے2012ء میں چھپی اور ان کے صاحبزادے آفتاب سہیل نے مجھے بھیجی ہے۔

دبیز کا غذ اور خوبصورت جلد سے مزین سے یہ خود نوشت ایک ایسے فرد کی داستانِ حیات ہے جو ایک مزدور کا بیٹا تھا اور اپنے نیک والدین کی دعاؤں اور اپنی محنت سے سیشن جج کے مرتبہ تک پہنچ کر ریٹائرہوّا۔ ان کا دوسرا بھائی بھی سیشن جج کے عہدے تک پہنچا۔ محنت کش ماں باپ نے اپنی زندگی میں اپنے دونوں بیٹوں کو بلند مناصب تک پہنچتے دیکھا۔ بیٹے کو بھی اپنے مزدور باپ کو مزدور کہنے اور اس کا برملا اظہار کرنے میں کوئی سبکی محسوس نہیں ہوئی اور یہ مرتبہ ان کے سیشن جج ہونے کے مرتبہ سے کہیں بلند اور ارفع ہے۔

اس طرزِ انکسار کا پہلا پہلا اظہار ہمارے ہاں چوہدری سردار محمد ریٹائرڈ انسپکٹر جنرل پولیس نے کیا تھا اور علی الاعلان اپنی خودنوشت’’متاع کارواں‘‘ میں لکھا تھا کہ میرے والد ٹوبہ ٹیک سنگھ کی کچہری میں چپڑاسی تھے۔

جناب محمدافضل سہیل نے بھی اپنے والد کے مزدور ہونے کا ذکر بڑے فخر سے کیا’’گوجرانوالہ میں میرا ایک ہم جماعت پرائمری میں میرے ساتھ پڑھتا تھا اس کے والد گدھوں پر مٹی اٹھا کرلانے کا کام کرتے تھے جو عمارت کی تعمیر میں استعمال ہوتی تھی۔ اس نے پرائمری میں پڑھائی چھوڑدی اور اپنے والد کا ہاتھ بٹانا شروع کردیا ملازمت کے دوران میں اس سے کئی بار ملتا۔۔۔ وہ بھی ایک مزدور کا بیٹا تھا اور میں بھی۔ وہ اس مزدور کا بیٹا تھا جو مٹی اٹھاکر لاتا تھا او رمیں اس مزدور کا بیٹا تھا جو اس مٹی سے عمارت بناتا تھا‘‘(بہارِ زیست صفحہ77)۔

دو قومی نظریہ سے ان کا تعارف چھ سات برس کی عمر میں ہوا’’تقسیم ہند سے قبل کی بات ہے بارش ہورہی تھی ہم چھوٹے چھوٹے بچے بارش میں نہارہے تھے ہم نہاتے نہاتے لالہ چرن داس کی حویلی میں داخل ہوگئے۔ لالہ جی اوپر سے دیکھ رہے تھے بارش کے بعد وہ اوپر سے نیچے آئے اور اپنی نوکرانی کو بلا کر ڈیوڑھی کا تمام فرش دھلوایا کیونکہ ان کے خیالات میں یہ ہمارے اندرداخل ہونے کی وجہ سے ناپاک ہوگیا تھا۔‘‘ (صفحہ37)۔

عین ممکن ہے ان کا یہ شبہ درست ہو مگر ہم نے ادیب شہیر اور استاذالاساتذہ ڈاکٹر اعجاز حسین کی خود نوشت ’’میری دنیا‘‘ میں پڑھا ہے کہ وہ اپنے رفیق کار پر وفیسر چٹوپادھیا کے گھر ان سے ملنے گئے واپس آنے کے لئے اٹھے تو دیکھا کہ ایک نوکر پانی کی دو بالٹیاں لئے کمرہ میں جارہا ہے ان سے کہا’’مہاراج کیا کمرے میں نہاتے بھی ہو؟ وہ یکدم متین ہوگئے بولے بھائی اعجاز یہ کمرہ دھلے گا مگر یہ نہ سمجھنا کہ چونکہ تم مسلمان ہو تمہارے آنے سے کمرہ ناپاک ہو گیا؟ میری ماں کا مزاج ہی کچھ ایسا ہے کہ باہر کا کوئی آدمی آئے خود وہ برہمن ہی کیوں نہ ہو کمرے کو غسل دیا جاتا ہے۔ یہ میری رائے نہیں میری ماں کی رائے ہے جس کا حکم ہر حال میں ماننا ضروری جانتا ہوں‘‘(میری دنیا صفحہ204)۔

اس سلسلہ میں شیخ منظور الٰہی کی بات زیادہ مستند ہے اور دل کو لگتی ہے کہ’’گرمیوں کی دوپہر تھی گپتاہائی سکول کے سامنے سے گذررہا تھا پیاس محسوس ہوئی تو میں نے سکول کی ٹک شاپ سے پانی مانگا۔ بھلا ہو اس حلوائی کا جس نے ترکی ٹوپی دیکھ کر لیموئینڈ دیتے ہوئے کہا’’بابوجی کل سے آپ کا یہ گلاس ہوگا‘‘ اس روز احسا س کے نازک آبگینے ٹوٹ گئے ۔۔۔ برسوں بعد ایک دوست نے حلوائی کی یہ بات سن کر کہا حلوائی کی ایک حرکت نے تمہارے دل میں پاکستان کا بیج بودیا۔‘‘(سلسلہ سلسلۂ روز وشب صفحہ22)۔

جج صاحب کا ارشاد ہے کہ’’نوجوانوں کو اسلام سے دور رکھنے میں ایسے کم علم مولوی(مولویوں) کا بھی کافی ہاتھ ہے جو لکیر کے فقیر ہیں اور اسی لکیر کو پیٹنے پر بضد ہیں۔ شائد اسلام کو اتنا نقصان اسلام کے دشمنوں نے نہ پہنچایا ہو جتنا ان کم ظرف لوگوں نے۔‘‘( صفحہ143) ۔

مگر حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ موہنجودارواور ہڑپہ کے آثار قدیمہ کی حفاظت اور دیکھ بھال کرنے اور اس پر لاکھوں روپیہ خرچ کرنے کا محکمہ دیکھ کر ان کے اندر کا مولوی بھی باہر نکل آتا ہے اور فرماتے ہیں’’ہم یہ بات بھول گئے ہیں کہ قرآن وحدیث میں ان تباہ شدہ بستیوں کے مکینوں کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان کو عبرت کا نشان بنادیا گیا ہے۔ ہماری سوچ قرآن اور حدیث سے کس قدر متصادم ہے‘‘ (صفحہ145)۔

قبلہ کیا عبرت گاہوں کی دیکھ بھال کرنا اور آنے والی نسلوں کے لئے ان عبرت گاہوں کو قائم رکھنا قرآن کی رو سے منع ہے؟ ایسی سوچ میں اور طالبان کی طرف قدیم ثقافت کے نادربتوں کو توڑدینے کی سوچ میں کیا فرق ہے؟

ہمیں اس خود نوشت میں اپنے مرحوم دوست ارشاد حسین کاظمی کا خوبصورت شعر پڑھنے کو ملا۔ رکھتا ہے کون یادپرانی رفاقتیں؟ مٹی کا نام تک نہیں مٹی کے تیل میں!(صفحہ 116) اپنے پرانے جج دوستوں کا ذکر خیر بھی پڑھنے میں آیا چوہدری تاج محمد اور ملک افضل کا ذکر (صفحہ168) اور حلیم صادق کا ذکر بھی(صفحہ202)اس لئے اورباتوں کے علاوہ یہ خودنوشت اس وجہ سے بھی دلچسپ رہی مگر ایک بات نے ہمیں چونکایا اور پریشان کیا کہ پڑھے لکھے اور عدالتی مناصب پرفائز رہنے والے اشخاص اپنی تاریخ کے بعض کھلے حقائق کی طرف سے آنکھیں کیوں بند کرلیتے ہیں؟

جج صاحب نے تقسیم ملک کا ذکر کرتے ہوئے انگریز کی سازش اور مسئلہ کشمیر کے عنوان سے لکھا ہے’’شکر گڑھ کی تحصیل ضلع گرداس پور کی تحصیل تھی۔ اس تحصیل کی آبادی باقی تحصیلوں سے زیادہ تھی اور اس میں مسلمانوں کی اکثریت آباد تھی۔ اگر پورے ضلع کی آبادی میں ایک خاص فرقے کو بھی شمار کرلیا جاتا تو اس وقت غیرمسلموں کی آبادی کم ہوجاتی اور یہ ضلع ہندوستان کا حصہ نہ بنتا۔ اس فرقے نے اپنے آپ کو مسلمانوں میں شمار نہ کرنے پر اصرار کیا چنانچہ اسی وجہ سے صرف شکر گڑھ تحصیل مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں شامل ہوئی‘‘(صفحہ83)۔

اس اقتباس میں جج صاحب نے ناانصافی کی انتہا کردی ہے پہلا الزام تو یہ ہے کہ’’ایک خاص فرقہ(یعنی جماعت احمدیہ) نے اپنے آپ کو مسلمانوں میں شمار نہ کرنے پر اصرار کیا‘‘۔ قبلہ جج صاحب! اس فرقہ نے تو باؤنڈری کمیشن کے سامنے بہ حیثیت مسلمان پاکستان میں شامل ہونے کا اپنا کیس مسلم لیگ کے کیس کی تائید میں پیش کیا تھا اور لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج مسٹر جسٹس شیخ بشیر احمد ان کے وکیل تھے۔ اب تو پنجاب باؤنڈری کمیشن کی ساری کارروائی چھپ کر دنیا کے سامنے آچکی ہے او راحمدیوں کا کیس اس میں موجود ہے۔ احمدی جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے اور سمجھتے ہیں کس طرح پاکستان کے خلاف جاسکتے تھے؟

اگر ایسا تھا تو1974ء میں اتنے لمبے چوڑے تردد کے بعد انہیں نامسلم قرار دے کر نوے سالہ مسئلہ حل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ پھر قبلہ جج صاحب حیات ہوتے تو میں ان سے جسٹس منیر کی منیر انکوائری رپورٹ پڑھنے کی درخواست کرتا جس میں لکھا ہے کہ

’’مشروط تقسیم کے ماتحت قادیان پاکستان میں شامل کیا گیا تھا لیکن ضلع گورداس پور میں(جہاں قادیان واقع ہے) مسلمان صرف ایک فیصد اکثریت میں تھے اور اس ضلع کی مسلمان آبادی زیادہ تر تین شہروں میں جمع تھی۔ جن میں ایک قادیان تھا۔لہذا قادیان کے آخری شمول کے متعلق اندیشے محسوس کئے جانے لگے اور چونکہ احمدی اس کو ہندوستان میں شامل کرنے کا مطالبہ کرسکتے تھے لہٰذا ان کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ باقی نہ رہاکہ اس کو پاکستان میں شامل کرنے کے لئے جدوجہد کریں۔ احمدیوں کے خلاف معاندانہ اور بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں کہ باؤنڈری کمیشن کے فیصلے میں ضلع گورداس پور اس لئے ہندوستان میں شامل کردیا گیا کہ احمدیوں نے ایک خاص رویہ اختیار کیا اور چوہدری ظفر اللہ خاں نے جنہیں قائداعظم نے اس کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے پر مامور کیا تھا خاص قسم کے دلائل پیش کئے۔ لیکن عدالت ہذا کا صدر جو اس کمیشن کا ممبر تھا اس بہادرانہ جدوجہدپرتشکر وامتنان کا اظہار کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے جو چوہدری ظفر اللہ خاں نے گورداس پور کے معاملے میں کی تھی۔ یہ حقیقت باؤنڈری کمیشن کے کاغذات میں ظاہر وباہر ہے اور جس شخص کو اس مسئلہ سے دلچسپی ہووہ شوق سے اس ریکارڈ کا معائنہ کرسکتا ہے۔ چوہدری ظفر اللہ خاں نے مسلمانوں کے لئے نہایت بے غرضانہ خدمات انجام دیں ان کے باوجود بعض جماعتوں نے عدالتی تحقیقات میں ان کا ذکر جس انداز میں کیا وہ شرم ناک ناشکرے پن کا ثبوت ہے۔‘‘ (رپورٹ تحقیقاتی عدالت برائے تحقیقات فسادات پنجاب1953ء) المعروف منیر انکوائری رپورٹ شائع کردہ نیازمانہ پبلیکیشنز لاہور صفحہ305)۔

قبلہ جج صاحب نے اپنی ایک عادت کا ذکر فرمایا ہے کہ میں عدالت کاکام شروع کرنے سے قبل آیت الکرسی اور چاروں قل پڑھ کر قلم پر پھونک مارتا(ہوں) جہاں تک مجھے یاد ہے کبھی عدالت کی کرسی پر وضو کئے بغیر نہیں بیٹھا اور نہ ہی اپنے قلم سے کسی مقدمہ کی کاروائی بغیر وضو کے تحریر کی۔۔۔ درود شریف بھی آپ کثرت سے پڑھتے ہیں کیونکہ اس طرح آدمی اپنے آپ کو خدا کی امان میں محسوس کرتا ہے’’یہی طریقہ میں نے اپنی داستانِ حیات تحریر کرتے ہوئے اپنایا ہے۔‘‘(صفحہ156)

مگر مجھے وثوق ہے کہ اتنا بڑا الزام لگانے اور تاریخی غلط بیانی کرنے سے قبل جج صاحب یقیناًاپنی اس نیک عادت کے حصار میں نہیں ہوں گے۔ ورنہ کوئی پڑھا لکھا شخص جو منصب عدالت پر بیٹھنے کا تجربہ رکھتا ہو کبھی کوئی ایسی بات نہیں لکھتا جو اس علم کے مطابق پورے طور سے درست نہ ہومیں یہ تو باورکرنے سے رہا کہ جج صاحب نے تقسیم ملک سے متعلق یہ دو عدالتی دستاویزات ملاحظہ نہ فرمائی ہوں گی۔ جج صاحب ماشاء اللہ شریعت کے پابند رہے ہیں۔ کتاب کے سرورق پر ان کی جو تصویر ہے اس میں ان کی خوبصورت داڑھی ہے۔

داڑھی کے متعلق آپ نے ایک استاد ملک عبداللہ صاحب کے بارے میں لکھتے ہوئے لکھا ہے کہ’’عمر کے اس حصے میں جہاں پہنچ کر آدمی عموماً کلین شیو نہیں ہوتے اور اپنی جوانی کی لغزشوں کو چھپانے کے لئے داڑھی کو بطور پردہ استعمال کرتے ہیں مگر وہ کلین شیو تھے‘‘(صفحہ40) قبلہ جج صاحب کی داڑھی کو تو میں’’پردہ‘‘ کہنے کی جرأت نہیں کرسکتا مگر انہیں نارواالزام تراشی سے احتراز کرنا چاہئے تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کی پردہ پوشی فرمائے۔

جج صاحب نے اپنی خودنوشت میں توصیفی الوداعی ایڈریس اور اخباری رپورٹیں(صفحہ225) بھی شامل کردی ہیں۔ کچھ سفر نامے ہیں۔ مصر کے بطل جلیل جمال عبدالناصر سے سیاسی اختلافات کا ذکر ہے(صفحہ255) مگر یہ توان کا حق ہے اور میں ان کا حق چھیننے والا کون ہوتا ہوں؟ مجموعی طور پر عمدہ طریق سے چھپی ہوئی یہ خودنوشت تاریخی غلطیوں سے مبرا اور تعصب سے خالی ہوتی تو زیادہ مستند سمجھی جاتی اورنئی نسل کے لئے مفید۔

One Comment