شہید جاوید نصیر رند

علی رفاعی

baloch-journo-300x225

بلوچ قومی تحریک میں روزنامہ توار کے صحافی جاوید نصیر رندکے ذکر کیے بغیر مزاحمتی صحافت کا تذکرہ ادھورہ ہی رہے گا۔

کراچی میں انجمن ترقی پسند منصنفین کی ہفتہ وار نشست میں اکثر جانا ہوتا تھا۔ بہت سے نامور شعراء اور ادیبوں کی دیدار نصیب ہوجاتا تھا اور کچھ سیکھنے کو مل جاتاتھا۔ لکھنے لکھانے کا کا شوق تھا ۔ اس وقت بلوچستان کے حالات اتنے خراب نہ تھے لیکن انسانی حقوق کی بے انداز پامالیاں بڑھتی جارہی تھی۔

میرا تعلق ایمنسٹی انٹرنیشنل سے تھا جس کی وجہ سے میں کسی سیاسی جماعت کا ممبر نہیں بن سکتا تھا البتہ حمایت کرنے میں کوئی حرج نہ تھا۔میں اس وقت شاید عمرانی کے نام سے لکھتا تھا ۔ ایک مضمون لکھ کر توار کے دفتر کی جانب چل پڑا۔ ٹریفک کی بے ہنگم شور سے ہوتا ہوا پاکستان چوک سے نکل کر یونی سنٹر پہنچ کر معلوم کیا دفتر تیسری منزل پر واقع ہے ۔ جیسا ہی اندر داخل ہوا تو میری نظر جاوید پر پڑی۔

بلوچستان سمیت عالمی سیاست پرسیر حاصل بحث کے ساتھ جا وید نے چائے کا کپ پلا کر اور مضمون کو شائع کرنے کا وعدہ کیا۔ ۔۔جاوید سے میری پہلی بار ملاقات لسبیلہ کے شہر بیلہ میں ہوئی تھی ۔ اس وقت میں ایک این جی اوز کے ساتھ رضاکارانہ طور پر ایک پروجیکٹ میں کام کررہا تھا ۔
ایک مدت کے بعد پھر میری دوبارہ ملاقات جاوید کے ساتھ کراچی میں شہید غلام محمد کے ساتھ ہوئی۔ طویل وقفے کے بعد جاوید اب مکمل ایک سیاسی کارکن بن چکے تھے۔ ان کی باتوں میں نا جام یوسف تھا اور نہ ہی رجب رند کی حمایت ۔ جاوید مکمل بدل چکا تھا۔ پہلے والا جاوید نہ تھا ، اب قومی سوچ اتنی پختہ معلوم ہورہا تھی کہ انھیں صرف بلوچ قومی اور بلوچستان کی آزادی کی فکر لائق تھی۔

میں نے جاوید سے پوچھا ۔ اتنی بدلاؤ کیسے ؟ کہنے لگا اب وقت بدلنے کا ہیں ۔ ہم سب کو بدلنا ہوگا ۔ جاوید نے تاریخ دہراتے ہوئے کہا کہ مارچ 1948 کو ریاست پاکستان نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو عملی جامہ پہناتے ہوئے بلوچ قوم کے خلاف اپنی ننگی جارحیت کے ذریعے آزاد و خودمختار بلوچ سر زمین پرقبضہ کیا تھا ۔بلوچوں نے اس ناجائز قبضہ کے ردعمل میں پہلے دن سے ہی قابض ریاست پاکستان کیخلاف جدوجہدشروع کردی جو ہنوز جاری ہے ۔

لیکن انسانیت اور انسانی حقوق سے نا بلد پاکستان قبضے کے پہلے دن سے لے کر آج تک اپنے ناجائز قبضے کو دوام بخشنے اور بلوچوں کی اپنے حق آزادی کیلئے اٹھنے والے آوازوں کو دبانے کیلئے بلو چ نسل کشی میں مصروفِ عمل ہے ۔بلوچستان تاریخی طور پر دنیا کے نقشہ پر ایک آزاد اور ذمہ دار ریاست کی حیثیت سے رہالیکن 1947 میں سامراجی عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی خاطر راتوں رات بنایا گیا ریاست پاکستان جس کے متنازعہ قیام کو ابھی تک ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ آتش و آہن کے زور پر بلوچ عوام کے مرضی و منشاء کے خلاف بزور طاقت بلوچستان پر قابض ہوا ۔

اس فکراورسوچ کو پھیلانا ہوگا گھر گھر محلہ محلہ گلی گلی سب جگہ ۔۔ ۔ جاوید روزنامہ توار میں بہت سی قلمی ناموں سے لکھتا تھا جس میں ایک معروف قلمی نام دوستین لاسی تھا۔ اس کی تحریریں ہمیشہ سبق آموز ہوتی تھی ۔یہ وہ دور تھا جب چاروں جانب میڈیا کا یلغار تھی ۔رپورٹرز اور جرنلسٹ اچھی تنخوا ہ اور اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لئے بڑے بڑے اداروں کو جوائن کررہے تھے۔

جاوید اس وقت بھی قومی تحریک کی آس لئے روزنامہ توار کے ساتھ منسلک رہا ۔ جاوید نہ صرف توار کے ساتھ بطور رکن کام کررہا تھابلکہ ہمیشہ توار کی بہتری کے لئے فکرمند رہتے تھے فنانس کے نہ ہونے کی وجہ سے توار کی کارکردگی میں شاید اس طرح کی بہتری دیکھنے کو نہ ملی جس کا جاوید کو فکر تھا کہ بلوچ قوم توار کی مالی مدد کرے تاکہ قومی تحریک کو سپورٹ کرنے والا واحد جرائداپنا کام بخوبی انجام دیتا رہے۔۔
جاوید نے درمیاں میں خاموشی اختیار کرتے ہوئے باہر نکلنے کی کوشش میں لگ گیا اس دوران بہت سے دوستوں نے جاوید کی مکمل مدد کرنے کا طے کیا تھا۔ اس کی وجہ بلوچستان اور خاص کر ضلع لسبیلہ میں سیکورٹی اداروں کی جانب سے بلوچ قومی تحریک سے وابستہ صحافیوں اور کارکنوں کو اغوا کرکے قتل کرنے کے واقعات میں اضافہ تھا ۔

پھر ایک دن خبر ملی کہ جاوید کو 10 ستمبر2011 کو حب سے خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے اغوا کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کیا۔ یہ خبر بلوچ صحافتی حلقہ اور خاص کر روزنامہ توار کے لئے بھی بڑی تشویش ناک تھی ۔اسی طرح یورپ میں مقیم بلوچ ایکٹسوسٹ بھی جاوید کے حوالے سے کافی فکر مند تھے۔جس کا ڈر تھا یہی ہوا جاوید نصیر رند کو ازیتیں دے کر ان کی تشدد زدہ لاش خضدارمیں ویرانہ میں پڑی ملی۔

یہ خبر ہمارے لئے صدمے سے کم نہ تھی۔ ایک دوست ایک ہمدرد ایک فکرمند کو صرف اس لئے شہید کیا گیا کہ وہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی بے انداز پامالیوں کو اپنے قلم سے دنیا کے سامنے لاتا تھا۔ شہید کو لکھنا آتا تھا وہ لکھتا تھا انسانی حقوق کی عالمی اداروں کو وقتا فا وقتا آگاہ کرتا رہتا تھا ۔ وہ بولتا تھا اور اسے بولنا آتا تھا۔ ۔۔

آج تین سال ہوچکے ہیں شہید کو ہم سے بچھڑے ہوئے ۔ جاوید مرا نہیں بلکہ بلوچ قومی تحریک کے ہزاروں شہیدوں میں گھل مل گیا۔ جن کی کوخوشبوسے بلوچ سرزمین ایک دن ضرور مہکے گی ۔ ۔ جاوید ہمیشہ یہ شعر گنگناتا رہتا تھا

آگ لگانے والوں کوسر عام یہ نوید دو
دریاؤں کے کمزور بند ٹوٹنے لگے ہیں اب
سیل رواں اب نکلے گا
ہر ظلم بہا لے جائے گا
ہر ظلم بہا لے جائے گا

Comments are closed.