سلگتا بلوچستان اور سول سوسائٹی

مہرجان

3-5-2012_38341_l

انسان سب کو دھوکے میں رکھ سکتا ہے لیکن اپنے آپ کو کبھی بھی نہیں .آج پاکستانی سول سوسائٹی جس بے حسی کا مظاہرہ کررہی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ریاست پاکستان , بلوچستان، سندھ اورکے پی کے سمیت جہاں جہاں ریاستی اداروں کے ذریعے اپنی رٹ قائم کرنے کی ناکام کوشش میں لگی ہوئی ہے۔اس سنگین جرم کا جہاں یہ ادارے ارتکاب کررہےہیں وہاں اس جرم میں سول سوسا ئٹی کے کردار کو یکسر طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

سول سوسا ئٹی خاص کر پنجاب کی عوام جس میں ہر طبقہ فکرکلیدی کردار کے حامل ہوسکتے ہیں لیکن انکی خاموشی( اخلاقی حمایت )ہی اس بد مست ہاتھی کومزید بد مستی پہ راغب کررہی ہے کہ وہ علاقہ غیر میں جاکر فقط اپنے جھنڈے گاڑھنے کی غرض سے جتنا بھی قتل و خون و بر بریت کا مظاہرہ کرے، سول سوسا ئٹی یونہی خاموشی کا روزہ رکھ لیں ۔

ان کے دانشور ہیگل کی جدلیات، کانٹ کی الہیات اور فرانز فیینن کی افتاد گان خاک دیریدا کے فرانس میں کردار سب کو زیر بحث لاتے ہیں مگر انہیں اپنے ریاستی اداروں کی بر بریت نظر نہیں آتی۔ یہ لوگ سر دیوار پڑھ کر نہ جانے کس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ سب اچھا ہے جبکہ جمہوریت کے نام پہ جمہوریت کے ساتھ جو کھلواڑ ہورہا ہے اور پس دیوار جو تاریخ رقم ہورہی ہے شاید بہت ہی کم لوگ اس حقیقت سے آشنا ہو۔

. سول سوسائٹی میں سے کچھ اہل علم ان اداروں کے سیاسی عمل کے لیے ناقد تو بن جاتے ہیں لیکن جب بندوقیں بلوچ عوام پہ تانی جا ئیں تو انکی خاموشی بندوق بردار فوج کی اخلاقی حمایت ہی کے زمرے میں آتی ہے۔ان کے لیے ریاست کے نام پہ کوئی بھی قتل خون اور دہشت گردی، دہشت گردی کے زمرےمیں نہیں آتی۔

جہاں تک عوام کی بات ہے ان کےذ ہنو ں میں یہ راسخ کیا گیا ہے کہ یہ مارشل ریاست چونکہ اسلام کے نام پہ بنا ہے۔ اب اسکے خلاف جو بھی آواز اٹھے گی وہ ریاست کے خلاف نہیں بلکہ اسلام کے خلاف ہوگی اور باغیوں کو مارنا نہ صرف جائز ہے بلکہ عین اسلام ہےاس عمل کو بلوچستان کے کئی علاقوں میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ آزادی پسند تحریکوں کو انڈین یا اسرائیلی ایجنٹ قرار دے کر مذہبی تشدد کو پروان چڑھاتے ہیں۔

لشکر جھنگوی یا لشکر طیبہ کو ہر جگہ نہ صرف سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں بلکہ سپاہ صحابہ کے راہنماوں کو تو باقاعدہ سرکاری طور پر پروٹوکول دیا جا رہاہے وہ سرعام اسلحہ لے کر گھومتے پھریں اور اداروں کی توسط سے جلسہ بھی منعقد کریں۔لیکن کیا سول سوسائٹی بھی ریاستی نظریہ کے خول میں بندھا ہوا نظر آتا ہے؟

ریاستیں جب بھی طاقت کا بے دریغ استعمال کرنا شروع کریں اور جہاں ریاستی دانشوروں کے پاس کوئی اخلاقی یا سیاسی جواز باقی نہ رہے جہاں مسخ شدہ لاشوں کا کاروبار چلے تو سمجھ لیجیے کہ رد انقلاب کے ذریعے وہ انقلاب ہی کی راہ کو ہموار کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ آوازیں تو دبائی جاسکتی ہے قبرستانوں میں ترقی بھی ہو سکتی ہے لیکن تاریخ اور سچ کے سامنے نہ ادارے بند باندھ سکتے ہیں اور نہ ہی سول سوسائٹی کی خاموشی۔

اب سو ال یہ ہے کہ کیا سول سوسائٹی اپنے آپ اس خول میں مطمئن کر پائےگا کیوں کہ انسان سب کو دھوکہ میں تو رکھ سکتا ہے لیکن اپنے آپ کو نہیں اور کب یہ لوگ اپنے نفسیاتی و مذہبی و ریاستی خول سےبا ہر نکلیں گے قتل غارت گری کو قتل وغارت گری ہی کہیں گے، اسے مذہبی و ریاستی خول نہیں چڑھائیں گے۔ ان کی خاموشی کا روزہ کب ٹوٹتا ہے یہاں پر بھی اک تاریخ رقم ہورہی ہے۔

Comments are closed.