بھٹو کی بیٹی آئی سی

عظمیٰ اوشو250764-3x2-940x627

ستائیس دسمبر 2007 کو ٹی وی پر پیپلز پارٹی کا جلسہ دیکھ رہی تھی بینظیر تقریر کر رہیں تھیں ۔مگرایک انجانی سی بے چینی تھی جو مجھے پریشان کر رہی تھی اس جلسہ میں، میں نے محسو س کیا بی بی میں ایک ا نوکھا سا جوش اور جذبہ تھا ۔میں نے اپنی پریشانی سے جان چھڑانے کے لیے گھر سے باہر نکلنے کا ارادہ کیا جونہی میری گاڑی مال روڈ لاہور پر چڑھی حالات کچھ غیر معمولی لگ رہے تھے ۔ڈرائیور نے پٹرول ڈلوانے کے لیے کئی پٹرول پمپ چیک کیے مگر جس پمپ پرجاتے وہ یا بند ہو چکا ہوتا یا بند ہو رہا ہوتا ۔

میں نے ڈرائیور سے گلبرگ ایک ملنے والوں کے گھر چلنے کو کہا اسی دوران میرے فون کی گھنٹی بجی میرے بھائی کا فون تھا اس نے بتایا بی بی کے جلسے میں دھماکہ ہو گیا ہے مگر بی بی ٹھیک ہیں میں ایک پل میں دل ڈوبنے اور پھر سنبھلنے کے عمل سے گذری ،جیسے ہی گلبرگ پہنچی تو خواتین کے رونے کی آوازیں آرہی تھیں جسے میں ان کے گھر داخل ہوئی ہرعورت کہہ رہی تھی ظالموں نے بے نظیر کو مار دیا ،ان سے ایک عورت برداشت نہیں ہوئی۔

ان میں سے کسی بھی عور ت کی سیاسی وابستگی پیپلز پارٹی سے نہیں تھی مگر وہ بی بی سے پیار کرتیں تھیں ۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ بی بی شہید ہو گئیں ہیں میں نے تصدیق کے لیے ایک صحافی ساتھی کو فون کیا تواس نے بھرائی ہوئی آواز میں بی بی کی شہادت کی تصدیق کر دی چند لمحوں تک مجھے لگا میں نے بولنے کی طاقت کھو دی ہے۔اور یوں 27 دسمبر کو نہ صرف پاکستان بلکہ ایشیا کی ایک عظیم لیڈر کو ہمیشہ کے لیے سلا دیا گیا ۔

بے نظیربھٹو کہا کرتیں تھیں کہ میں نے اس زندگی کا انتخاب نہیں کیا بلکہ اس زندگی نے میرا انتخاب کیا ہے ۔بی بی کی زندگی میں ہلچل رنج والم اور فتوحات سب کچھ تھا ،ان کی زندگی میں ان سے فوجی آمریت دھوکہ بازی اور سازشوں کے خطرناک کھیل کھلے گئے اپنی طاقت کے چھن جانے کے خوف اور ترقی پسندی سے خوف زدہ قوتیں ایک کے بعد ایک سازش کا جال بنتی رہیں ۔بے نظیر کی زندگی انتہائی غیر معمولی تھی۔

والد کا عدالتی قتل ،پھر بھا ئیوں کی اذیت ناک موت ،شوہر کی طویل قید ،بچوں سے دوری ماں کی بیماری اور پھر جلاوطنی یہ سب اذیتیں اس با ہمت عورت کے حصے میں آئیں جسے یہ اعزاز حاصل تھا کہ ا س نے مسلمان عورتوں کا سر اور مقام بلند کیا جس نے گھسی پٹی روایات میں جکڑی ہوئی عورتوں کوشعور دیا ،بے نظیر بھٹو نے جتنی بھی سیاسی لڑائیاں لڑیں ان کے پیچھے محض اقتدار کا حصول نہیں تھا ۔ان کے مقاصد میں اظہار رائے کی آزاد ی سے لے کر معاشی آزادی تک کی جدوجہد تھی ،اور یہ جدوجہد یقیناًاس وقت ایک بڑا چیلنج بن جاتی ہے جب اسے عورت لیڈ کررہی ہوتی ہے۔

عورت کی جدوجہد ہمارے سماج میںآسان نہیں ہے۔ اس راہ میں عورت کا صرف جسم ہی نہیں روح بھی زخمی ہوتی ہے نہ صرف ریاستی اداروں کی بد معاشیاں بلکہ خاندانی مردوں کے غیر مناسب رویے اور تکلیف دہ جملے بھی ہمراہ رہتے ہیں ،بے نظیر بھٹو ان عظیم عورتوں کے قبیلے میں سے تھی جس نے ہر جبر اور ظلم کا بڑی ہمت سے مقابلہ کیا اور فوجی آمریت کا مقابلہ اس دلیری سے کیا کہ اس کی کوئی اور مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔

بینظیر بھٹو ایک مکمل شخصیت کی حامل خاتون تھیں جو بیک وقت کئی محاذوں پر مورچہ زن رہتی تھیں وہ کبھی یونیورسٹیوں میں مقالے پڑھتی نظر آتی تو کبھی سیا سی تحریک کو لیڈ کرتی تو کہیں اپنے شوہر کے مقدمات کی پیروی میں مصروف ہوتیں اور کبھی پارٹی کو ایک ماں کی طرح لے کر چلتیں۔ کہیں خار جہ پالیسی پر پیپر لکھتیں ، ماں کی تیماداری کرتیں تو کبھی اپنے بچوں کو امتحانات کی تیاری کروا رہی ہوتیں ۔

گذشتہ دنوں محترمہ شاہین کوثرڈار ڈپٹی اسپیکر آزاد جموں کشمیر کے ساتھ سفر کا موقع ملا تو بی بی کی باتیں شروع ہو گئیں۔ شاہین ڈار بتاتی ہیں کہ سا نحہ کارساز کے بعد بی بی نے تمام پارٹی رہنماؤں کو بلایا میں بھی اس میٹنگ میں شامل تھی۔ بی بی نے ہمیں کہا کہ آ پ لوگوں نے میرا بہت ساتھ دیا میں آپ کی شکر گذار ہوں مگر میں آپ کو ایک سچائی بتانا چاہتی ہوں۔ میری زندگی بہت غیر یقینی ہے مجھے پتہ ہے کہ مجھے مار دیا جائے گا۔ میں سر پہ کفن باندھ چکی ہوں۔ آپ میں سے جو میرا ساتھ چھوڑنا چاہتا ہے چھوڑ دے مجھے کوئی شکوہ نہیں اور جو میرے ساتھ رہنا چاہتا ہے اسے یہ جان لینا چاہیے کہ موت ہمارے تعاقب میں ہے ۔

وہ اچھی طرح واقف تھیں کہ ان کے خلاف سازش ہو رہی ہے مگر وہ اپنی دھرتی سے پیار کرتیں تھیں وہ اس دھرتی پر جمہوریت کوپنپتاہوا دیکھنا چاہتی تھیں۔ ان کی جدوجہد اقتدار کے لیے نہیں تھی۔ بی بی آخری دم تک ضیاؤں اور مشرفوں سے نبرد آزما رہی۔ اس نے ہمیشہ اپنے عظیم باپ کی طرح آمریت کو پکارا جس کی کوکھ سے ہمیشہ دہشت گردی جنم لیتی ہے ۔جیسے کہا جاتا ہے جمہوریت کے اپنے اثرات ہوتے ہیں میرا ایک سیاسی ورکرہونے کی حیثیت سے یہ یقین ہے کہ آمریت کے بھی اثرات ہوتے ہیں جو انتہائی غیر مفید ہوتے ہیں ۔

اظہار رائے پر پا بندی سے لے کر اسلام کی انتہا پسندانہ اور ناقابل عمل تشریح آمریت کے ہی کارنامے ہیں جس کے نتائج نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا بھگت رہی ہے۔ جس دہشت گردی کی داغ بیل آمریت نے ڈالی، افسوس اس کا علاج بھی وردی والوں سے ہی کروا رہے ہیں ۔

ہمیں فخر ہے بے نظیر پہ جس نے ذاتی اقتدار کے لیے نہیں بلکہ ہر مرد عورت کے وقار و عزت اور جمہوریت کے لیے لڑتے لڑتے جان دے دی وہ کسی آمر سے ڈر تی اور نہ جھجکتی تھی۔ یقیناً بی بی کے جان نثار بھی اسی راہ پر چلیں گیے۔ڈاکٹر مارٹن نے کہاتھا۔

ہماری زندگیاں اس روز ختم ہوجاتی ہیں۔۔۔جب ہم معاملات کے سامنے خاموش ہو جاتے ہیں۔

Comments are closed.