بلوچستان میں چہروں کی تبدیلی

علی رضا رند

image3376
بلوچستان میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی اور ڈاکٹر مالک بلوچ کی جگہ نواب ثناء اللہ زہری کا وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالنا چہروں کی تبدیلی کا وہ تسلسل ہے جسے صوبے کے عوام کئی سالوں سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ اس لیے اس تبدیلی کومخصوص سیاسی حلقوں کے سو ا عوامی سطح پر کوئی خاص توجہ نہ مل سکی کیونکہ صوبے کی حالات میں نمودار ہونے والے بہتری کے آثار تیزی سے جاری ان کارروائیوں کی نذر ہوگئے ہیں جس کے تحت سیکیورٹی فورسز کی جانب سے آواران، تربت، خضدار، سبی، بولان ، دالبندین، خاران ، بیسیمہ، پنجگور ، گوادر، مستونگ، قلات اور لسبیلہ کے اضلاع کی مختلف علاقوں میں متعدد مبینہ مزاحمت کار قتل و گرفتار کیے اور انٹیلی جنس کی بنیاد پر کی جانے والی تلاشی کی ان کارروائیوں کے دوران مکران ڈویژن کے کچھ علاقوں میں گھروں کو بھی جلایا گیا۔ جس کا اثر عام لوگوں کی زندگی پر پڑتا ہے ۔

دوسری وجہ ان کارروائیوں کے ردعمل میں علیحدگی پسند بلوچ تنظیموں کی جانب سے شٹرڈاؤن کی دی جانے والی کالیں بھی ہیں جن کے خلاف اب سیکیورٹی فورسز کھل کر میدان میں آگئیں ہیں۔ اس سلسلے میں باقاعدہ اخبارات میں بیان جاری کیے گئے جس میں علیحدگی پسندوں کی ہڑتال کی کالیں ناکام بنانے اور عوام سے دکانیں کھلی رکھنے کی اپیل کی جاتی ہے۔اس صورتحال میں صوبے کے تاجر بھی صحافیوں کی طرح سیکیورٹی اداروں اور علیحدگی پسندوں کے درمیان سینڈوچ بن گئے ہیں کیونکہ اگر وہ ہڑتال کی کال پر دکانیں بند نہ کریں تو علیحدگی پسند مار کھانے کو آتے ہیں اور اگر دکانیں بند رکھیں تو بھی جان کے لالے ہیں۔ اس لیے صوبے کے حالات کو عام لوگوں کے لیے سازگار نہیں کہا جا سکتا کیونکہ بلوچستان میں اب بھی کسی نہ کسی سطح پر سیکیورٹی ایجنسیوں اور مسلح علیحدگی پسندوں میں کشمکش جار ی ہے۔

مئی 2013 میں الیکشن مہم کے دوران نومنتخب وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کے قافلے پر خضدار کے علاقے زہری میں ریموٹ کنٹرول بم حملے میں ان کا بیٹا سکندر زہری، بھائی مہراللہ زہری اور بھتیجے میر زیب زہری سمیت متعدد افراد جان سے گئے جس کی ذمہ داری 2002 کو بننے والی بلوچستان کی علیحدگی پسند مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی جس کے متعلق نواب ثناء اللہ زہری کا ہی دعویٰ ہے کہ اس تنظیم کو مرحوم نواب خیر بخش مری کے لندن میں مقیم صاحبزادے نوابزادہ حیر بیار مری چلا رہے ہیں۔

زہری واقعے کے بعد نواب ثناء اللہ زہری نے بظاہر جذبات میں آکر بلوچستان کے نمایاں قوم پرست رہنماء نواب خیر بخش مری و ان کے صاحبزادے حیر بیار مری، سردار عطاء اللہ مینگل و اس کے صاحبزادوں اختر مینگل و جا وید مینگل اور مکران میں مزاحمتی کارروائیوں کے سرگرم علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ کے رہنماء ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے خلاف مقدمہ درج کرایالیکن حال ہی میں نواب ثناء اللہ زہری نے یہ کہہ کر وہ ایف آئی آر خود ہی واپس لے لی کہ ان کی جانب سے قبائلی سطح پر کی جانے والی تحقیقات میں ایسی کوئی بات سامنے نہ آسکی۔

11 مئی 2013 کے انتخابات کے بعدجب بلوچستان کی حکومت کی تشکیل کا مرحلہ آیا توصوبائی اسمبلی کی سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) بلوچستان کے صدر کی حیثیت سے نواب ثناء اللہ زہری ہی وزارت اعلیٰ کے مضبوط امیدوار تصور کیے گئے تھے۔ لیکن 2 جون کو سیاحتی مقام مری میں ہونے والے معاہدے کے تحت صوبائی اسمبلی کی65 میں صرف 8 نشستیں حاصل کرنے والی قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو ڈھائی سال کے لیے وزیر اعلیٰ بلوچستان منتخب کیا گیا جنہوں نے بعدازاں پشتونخوامیپ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حمایت سے مخلوط حکومت بنائی ۔

صوبے کے سیاسی حلقوں نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے اس فیصلے کو صوبے کے حالات سے ہم آہنگ قرار دیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب نواب ثناء اللہ زہری کے دل میں انتقام کی آگ بڑھک رہی تھی اور انہوں نے اپنے خاندان کے افراد کے قتل کی ایف آئی آر صوبے کے اہم قوم پرست رہنماؤں کے خلاف درج کرائی تھی جس سے کشیدگی کی فضاء پیدا ہوگئی اور اگر نواب ثناء اللہ زہری کو وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز کیا جاتا تو یہ کشیدگی خون خرابے میں بدل سکتی تھی ۔

دوسری جانب ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو وزیر اعلیٰ بلوچستان نامزد کرنا بھی مذکورہ کشیدہ صورتحال میں کمی کا سبب بنی کیونکہ انہوں نے اپنے دور میں نواب ثناء اللہ زہری کی مرضی کے خلاف بہت سے فیصلے کیے جس کی شکایت وہ اکثر کرتے رہے اور اس بات کو لے کر پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے اراکین اسمبلی نے نہ صرف کئی دنوں تک بلوچستان اسمبلی کی کارروائیوں کا بائیکاٹ بھی کیا بلکہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف تک یہ شکایت بھی پہنچائی گئی کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نواز لیگ کے وزراء کو نظر انداز کرکے انھیں بے اختیار بنارہے ہیں لیکن نواز شریف کی جانب سے کوئی قابل ذکر ردعمل سامنے نہیں آیا تھا۔

مری معاہدے کے تحت وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک بلوچ کی مدت 4 دسمبر کو ختم ہونی تھی لیکن مقررہ وقت پرپاکستان مسلم لیگ (ن) قیادت کی جانب سے کوئی فیصلہ نہ کرنے پر ان چہ میگوئیوں کو تقویت ملنے لگی جس کے تحت کہا گیا کہ شاید ڈاکٹر مالک بلوچ کو توسیع ملے گی اور اس بات کی توثیق نہ صرف بی بی سی جیسے معتبر ادارے نے بھی اپنی تجزیاتی رپورٹ میں کہا اور 7 دسمبر کو صوبے کے ایک موقر روزنامے نے تو مری معاہدے کی معطلی اور میاں نواز شریف کی جانب سے ڈاکٹر مالک بلوچ کو بطور وزیر اعلیٰ برقرار رکھنے کے فیصلے کا دعوی کرتے ہوئے اس خبر کو اپنی سپر لیڈ اسٹوری کے طور پر شائع کیا۔

جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ صوبے میں امن و مان کی صورتحال بہتر بنانے اور مفاہمت کی فضاء تشکیل دے کرجلا وطن بلوچ رہنماؤں خان قلات اور براہمدغ بگٹی کو مذاکرات پر راضی کرنے کے سبب فوجی اسٹیبلشمنٹ ڈاکٹر مالک بلوچ سے مطمئن ہے ۔اس لیے صوبے میں فعال کردار ادا کرنے والے سابق کورکمانڈر اور موجودہ قومی سلامتی کے مشیر جنرل (ر) ریٹائرڈ ناصر جنجوعہ ڈاکٹر مالک بلوچ کو بطور وزیر اعلیٰ برقرار رکھنے کی کوششوں میں پیش پیش ہیں جس کے لیے ناصر جنجوعہ کے کورکمانڈر کی عہدے ریٹائر منٹ کے وقت اس تقریر کا بھی حوالہ دیا گیا جس میں وہ دس منٹ تک صرف ڈاکٹر مالک بلوچ کی صلاحیتوں اور کاکردگی کی تعریف کرتے رہے۔

لیکن غیر متوقع طور پر دس دسمبرکووزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اسلام آباد میں صوبے کے متعلق ہونے والی اعلی سطحی اجلاس کے بعد مری معاہدے پر عمل کرتے ہوئے نواب ثناء اللہ زہری کو وزیر اعلیٰ بلوچستان نامزد کر دیا جنہوں نے 24 دسمبر کو اپنے عہدے کا حلف بھی اٹھا لیا جس سے ایک روز قبل ڈاکٹر مالک بلوچ مستعفی ہوگئے۔دوسری جانب مری معاہدے پر عمل نہ کرنے کی صورت میں بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کے صوبائی قیادت کی جانب سے بغاوت کرنے اور ڈاکٹر مالک بلوچ کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت اعلیٰ سے محروم کرنے کے اشارے بھی مل رہے تھے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان میں چہروں کی تبدیلی صوبے کے حالات پر کس قدر ثر انداز ہوگی؟ بہت سے سیاسی حلقے ابھی تک اس قسم کی تبدیلیوں کو سطحی سمجھتے ہیں جن کا خیال ہے کہ صوبے کی قسمت کا فیصلہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں ہے ۔ ڈاکٹر مالک بلوچ بھی صوبے کا وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے چاغی میں چینی کمپنی کے زیر انتظام چلنے والے سونے اور کاپر پیداکرنے والے سیندک پراجیکٹ سے صوبے کو کوئی خاص فائدہ نہ ملنے کی شکایت کھلے عام کرتے رہے ۔

لہذا ایسے حالات میں حکومتی سطح پر ہونے والی تبدیلی محض چہروں کی تبدیلی ثابت ہوگی جس سے صوبے کی عوام کے زندگیوں پر کسی بھی قسم کے دیرپا اثرات کی توقع محض وقت کا ضیاع سمجھا جائے گا اور یہی صورتحال پارلیمانی سیاست سے لوگوں کی اکثریت کا اعتماد کو ختم کرکے انھیں ان علیحدگی پسندوں کی باتوں پر غور کرنے کے لیے مجبورکر تی ہے جو پارلیمنٹ کو ربڑ اسٹیمپ کہہ کر صوبے کے مسائل کا حل مسلح مزاحمت کو قرار دیتے ہیں۔ اس لیے اب فیصلہ حکمران اشرافیہ کو ہی کرنا ہے کہ وہ بلوچستان کو معاشی و سیکیورٹی کے نقطہ نظر سے د یکھتے رہیں گے یا سیاسی کھڑکی کھولنے کی کوشش بھی کریں گے۔

One Comment