سقوطِ ڈھاکہ ۔۔۔ ایک ناقابلِ فراموش المیہ

MMمسعود مُنّور

میں1971کے موسمِ بہار میں جب ڈھاکہ سے واپس لاہور لوٹا تھا تو میرے ساتھ یادوں کا ایک کارواں تھا ۔

سیگون باغیچہ میں واقع پریس کلب ، بوڑھی گنگا کے چھلکتے کنارے ، پلٹن میدان سے ملحق فٹ بال گرائونڈ جہاں ہر وقت فُٹ بال کے شائقین کا مجمع لگا رہتا تھا ۔ ڈھاکہ کی سب سے جدید اور مرکزی مسجد بیت المکرم اور اُس کے نواح میں واقع ریستوران سویٹ ہیون جہاں میں نے حبیب جالب کے ساتھ چائے پی تھی ۔ یہیں اوپن ائر مارکیٹ میں پنجابی بکا کرتے تھے ۔ جی ہاں ، ڈھاکہ میں بند گلے کے تریزوں والے کُرتے کو پنجابی کہا جاتا تھا ۔ ڈھاکے کا پنجابی ۔

پنجابی پہن کر رمنا پارک کے بھیگے ہوئے موسم کا مزا لینے میں عجیب لطف تھا ۔ وقت بے وقت کی رم جھم کا اپنا مزا تھا ۔ پان کی بیلوں سے مہکتے کھپریل والے گھر ، کٹھل اور انناس کی خوشبو سے مہکتی فضا ۔ بیشتر لوگ اردو سمجھتے اور بولتے تھے ۔ مشرقی پاکستان ایک بہت خوبصورت ملک تھا ۔ سندر بن کے شیروں کا دیس ۔ ایک انتہائی خوبصورت زبان بولنے والوں کا سرسبز و شاداب خطہ ، جو کبھی پاکستان کا مشرقی بازو تھا ۔ پوربو پاکستان ۔

ایک زمانے میں پاکستان کے پنجابی دانشور ، دور کی یہ کوڑی بھی لائے کہ چونکہ اللہ نے ہر چیز کا جوڑا پیدا کیا ہے ، اس لیے پاکستانوں کا بھی ایک جوڑا ہے اور بالآخر وہ جوڑا ہنسوں کے جوڑے کی طرح بکھر گیا :

دو ہنسوں کا جوڑا بچھڑ گیو رے

گجب ہویو رامو جُلم ہویو رے

اُن دنوں سیاسی فضا اگر تلا سازش کی وجہ سے بوجھل تھی ۔ شیخ مجیب الرحمان کی قیادت میں عوامی لیگ نے اپنے چھ نکات پیش کیے تھے جسے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا منشور قرار دیا جا رہا تھا ۔ ملک ایوب خان کے مارشل لا سے نکل کر یحییٰ خان کی وسکی آلود مارشل لا ء کے نشے میں تھا ۔ شیخ مجیب گرفتار ہو چکا تھا ، مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع ہوگیا ۔

پھر یہ سولہ دسمبر کی شام تھی ، میں پاک ٹی ہاوس سے اُٹھ کر میکلوڈ روڈ پر واقع لاہور ہوٹل تک گیا ۔ واپس آیا تو بلیک آوٹ کا اعلان ہو چکا تھا ۔ ٹی ہاوس بند تھا اور سیڑھیوں پر ظہیر کاشمیری کھڑے پاسنگ شو کا سگریٹ نچوڑ رہے تھے ۔ وہ شام ایک بے حد اُداس شام تھی ، جو کیسے گزری یہ ایک الگ قصہ ہے مگر یہ اداس اور بے رحم شام پھیلتی ہی چلی جا رہی تھی ۔

پاکستانی میڈیا حسبِ روایت فتح کے ترانے اور شادیانے بجا رہا تھا کہ اچانک ڈھاکہ میں پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کی خبر بجلی بن کر گری ۔ اُس شام میں نے انارکلی کے نواح میں لوگوں کو اس طرح روتے دیکھا جیسے کوئی سوگوار ماں اپنے بچے کی موت کا ماتم کرتی ہے ۔ نوے ہزار سے زیادہ پاکستانی فوجی بھارت کے قیدی بن گئے ۔ تب عدیم ہاشمی نے کہا :۔

ہم ایک لاکھ تھے ہم نے تو سر جھکا ڈالے

حسین ! تیرے بہتر سروں کو لاکھ سلام

اُس وقت مشرقی پاکستان میں کیا ہورہا تھا ، کسی کو خبر نہ تھی مگر مغربی پاکستان ایک شدید نفسیاتی اور روحانی صدمے سے دوچار تھا ۔میرا اندازہ ہے کہ وہاں کا عام آدمی کم و بیش اسی سکتے کی کیفیت میں رہا ہوگا جس میں مغربی پاکستان کا عام آدمی تھا جو حکمرانوں اور سیاستدانوں کی تنگ نظری ، تعصب اور کم ظرفی کا شکار تھا ۔

اسی اثنا میں ذوالفقار علی بھٹو سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن کر اقتدار سنبھال چکے تھے ۔ اب نوے ہزار فوجی جنگی قیدیوں اور سول افسروں کی رہائی کا مسئلہ درپیش تھا ۔ کیونکہ نوے ہزار فوجیوں کے خاندان شدید ذہنی دبائو اور صدمے کا شکار تھے ۔ ملک میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے تھے ۔ کبھی جنگی قیدیوں کی بیویاں اپنے آنچلوں کو پرچم بنا کر نکلتیں اور کبھی اُن کے بیٹے بیٹیاں اپنے تعلیمی اداروں کے ساتھیوں کو لے کر نکلتے ۔

میڈیا بھی جنگی قیدیوں کی رہائی کے لیے سرگرم تھا ۔ اخبارات ، ریڈیو اور ٹی وی سب یک زبان ہو کر اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے بر سرِ جہد تھے ۔ پاکستان کے شاعر لکھ رہے تھے اور پاکستانی گلو کار جدائی کے نغمے گا رہے تھے ۔ گلو کار شوکت علی نے مجھے پیغام بھجوایا کہ وہ ایک پنجابی نغمہ گانا چاہتے ہیں ، جو میں لکھوں ۔ چنانچہ وہ نغمہ جو شوکت علی نے گایا یوں تھا :۔

چھڈ سُفنے یار غماں دے ، اسیں چھیتی آنڑ ملاں گے

میرا ایک اور پنجابی گانا ریشماں جی نے گایا ، جو کچھ یوں تھا :۔

کونجاں دی لمی اے قطار او میرے بیلیا

ساڈی گلی وچوں لنگھدی بہار او میرے بیلیا

اُچی ٹاہلی تے اُڈیکاں والے آہلنے ، نیویں آہلنے

راتی جاگنا تے ککھ پئے بالنے ، ککھ بالنے

میری ایک اور اردو نظم جو جنگی قیدیوں کی رہائی سے متعلق تھی ، فاروق ضمیر غوری کی آواز میں لاہور ٹی وی سے متعدد بار ٹیلی کاسٹ ہوئی ۔ یہ ہم لکھنے والوں کی وہ جد وجہد تھی جو ایک صدمے سے دوچار قوم اور اُس کی فوج کو شکست کے صدمے سے نکال کر بحالی کی راہ پر چلانا چاہتے تھے ۔

ذوالفقار علی بھٹو جو اب ملک کے سربراہ تھے ، ایک نئے پاکستان کی بات کر رہے تھے ۔ پھر شملہ معادہ ہوا اور فوجی رہا ہو کر واپس آ گئے مگر سقوطِ مشرقی پاکستان کا زخم مندمل نہیں ہو سکا ۔ کیونکہ قائد اعظم کی قیادت میں جو پاکستان بنا تھا وہ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت سے سنبھالا نہ جا سکا ۔ اس وقت مجھے عباس اطہر مرحوم کی ایک غزل کے دو شعر یاد آ رہے ہیں جو اسی تناظر میں ہیں :۔

کس کس کا دامن پکڑو گے ، کس کس کو سمجھاوے

اس طوفان کا رستہ کاٹ کے تن تنہا رہ جاو گے

بند دریچے ، جلے ہوئے کاغذ اور گم سم دروازے

سارے مجھ سے پوچھ رہے تھے کس دن واپس آوگے

سقوطِ مشرقی پاکستان کے ساتھ پاکستان کی تاریخ کا چہرہ مسخ ہو کر رہ گیا ہے ۔ڈھاکہ پاکستان کی حقیقی جنم بھومی ہے ۔ وہ اس لیے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی داغ بیل ڈھاکے میں پڑی تھی ، اور قراردادِ لاہوربھی ایک بنگالی لیڈر مولوی فضل الحق شیرِ بنگال نے پیش کی تھی ۔ اس اعتبار سے پاکستان کی تشکیل میں بنگالی سیاست دانوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مگر ہماری بد قسمتی کہ جمہوریت کے قاتلوں نے ملک کو ایک ایسے دردناک انجام سے دو چار کیا ہے کہ سابق مشرقی پاکستان ، جو اب بنگلہ دیش ہے ، پاکستان سے تعلقات قائم رکھنے کے حق میں بھی نہیں ہے ۔

اس سارے المیے کا ذمہ دار کون ہے ؟

ہمارے وہ نا اہل حکمران ، جو نہ تو دور اندیش تھے اور نہ ہی اس ملک کے غریب عوام سے مخلص ۔ اور اُن کے ہاتھوں قائد اعظم کا پاکستان ٹوٹ گیا ۔ میں اپنی بات کو ناصر کاظمی کے اس شعر پر ختم کرتا ہوں :۔

یہاں تک آئے ہیں چھینٹے لہو کی بارش کے ۔۔

وہ رن پڑا ہے کہیں دوسرے کنارے پر

One Comment