تہذیبی نرگسیت

سلمان احمد۔ٹورنٹو

image3377
مسلم انتہا پسندوں کی طرف سے دہشت گردی کے مسلسل واقعات کے بعد مغربی ممالک میں بسنے والی مسلمان کمیونٹی کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔اس نفرت کا اظہار کہیں توہین آمیز خاکوں کی صورت میں ہوتا ہے تو کہیں ان کی ظاہر ی وضع قطع یا عبادت ( سٹرکوں پر نماز ادا کرناوغیرہ) اور مساجد کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یورپ میں دائیں بازو کی اسلام مخالف انتہا پسند تنظیموں کی عوام میں مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ان عسکریت پسندوں کی حمایت کرتی ہے، اس کا موقف ہیکہ یہ مغربی پالیسیوں کا ردعمل ہے لہذا انہیں اب بھگتنا چاہیے جبکہ کچھ مسلمان جو اپنے آپ کو ماڈریٹ کہلواتے ہیں اور اپنے تئیں اسلام کی ’’درست ‘‘ تشریح کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں کا کہنا ہے کہ یہ مسلمان نہیں ہیں۔ اسلام تو سرتاپا امن کا مذہب ہے۔

اسلام کی ’’ درست‘‘ تشریح بھی ایک متنازعہ مسئلہ ہے۔ تمام فرقے اپنے آپ کو ’’درست‘‘ قرار دیتے ہیں۔ لیکن کوئی بھی اپنے موقف میں لچک پید ا کرنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ ان کے نزدیک ’’سچائی‘‘ صرف ان ہی کے پاس ہے۔ مسلمان ممالک میں فرقے ایک دوسرے کے خلاف قتل و غارت میں مصروف ہیں جبکہ مغربی ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔جرمنی، ہالینڈ اور سویڈن میں مسلمانوں کی مساجد اور پناہ گزینوں پر دائیں بازو کے انتہاپسندوں کی طرف سے نہ صرف حملے ہورہے ہیں بلکہ ان مسلمان خواتین کے ساتھ بدتمیزی اور توہین کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں جنہوں نے حجاب یا برقعہ پہنا ہوتا ہے۔

دوسری طرف مغربی ممالک میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں کی طرف سے حجاب کے حق میں مہم چلائی جارہی ہے ۔ کینیڈا اور امریکہ میں مسلمان تنظیموں کی خواتین کی جانب سے یونیورسٹیوں یا پبلک مقامات پر حجاب ڈے منایا جارہا ہے جس میں خواتین کو حجاب پہننے پر آمادہ کیا جاتا ہے۔ یہ عمل بالکل ویسے ہی ہے جیسے پاکستان میں جماعت اسلامی اینڈ کمپنی ،روشن خیالوں اور سیکولر ازم کے حامیوں کو للکارتے ہوئے حجاب ڈے یا حیا ڈے مناتی ہے۔

حجاب ڈے منانے والوں کا دعویٰ ہے کہ حجاب مسلمان عورت بلکہ تمام خواتین کی عزت و احترام کا نشان ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو خواتین حجاب کا استعمال نہیں کرتیں کیا وہ عزت و احترم کے قابل نہیں ؟ کیا حجاب کے بغیر عورت زندگی کے کسی شعبے میں ترقی نہیں کر سکتی؟ آخر مذہبی رسومات پر عمل درآمد کے لیے عورت کو ہی کیوں چنا جاتا ہے؟ کیا انہی خیالات کا اظہار مولانا فضل الرحمن ، ابتسام الہیٰ ظہیر اور اسی قبیل کے دوسرے علما نہیں کرتے؟

اس مہم میں دوسرے فرقوں کی طرح جماعت احمدیہ بھی شامل ہے۔ دلچسب بات یہ ہے کہ پاکستان میں احمدی کمیونٹی بدترین ظلم و زیادتیوں کا نشانہ بن رہی ہے اور طاقتور انتہا پسندوں، جنہیں ریاستی پشت پناہی حاصل ہے، کی طرف سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ احمدیوں کی پہچان کے لیے ان کی کوئی ظاہری شناخت رکھی جائے جبکہ یورپ میں احمدی یا دوسرے مسلمان گروہ اپنی مخصوص شناخت کو برقرار رکھنے کے لیے حجاب اوڑھنے پر اصرار کررہے ہیں۔کیا یہی مطالبہ امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نہیں کر رہے کہ مسلمانوں کی ظاہری شناخت مقرر کرنی چاہیے؟

نائن الیون سے پہلے حجاب یا پردہ مغربی سماج اور نہ ہی مسلمانوں کا مسئلہ تھا۔اگر کسی طرف سے مسلمانوں کے رسوم ورواج پر تنقیدبھی ہوجاتی تھی تو اسے عموماً نظر انداز کر دیا جاتا تھا ۔اگر کسی ملک میں کہیں ملازمت کے لیے حجاب اتارنے کی شرط لگائی جاتی تھی تو ملازمت کرنے کے لیے خاموشی سے اس پر عمل کر لیا جاتا تھا یا ملازمت نہیں کی جاتی تھی۔ حتیٰ کہ پاکستان میں اگر کوئی خاتون ملٹی نیشنل کمپنی (میکڈونلڈ وغیرہ) میں ملازمت کرتی ہے تو مغربی لباس پہنتی ہے۔لیکن اب حجاب کے استعمال پر اصرار سیکولر معاشرے میں مذہبی آزادی کے نام پر کیا جاتا ہے جبکہ یہ مذہبی آزادی عورت پر آئیڈیالوجی کے نام پر ٹھونسی جاتی ہے۔مسیحیوں اور یہودیوں کے بنیاد پرست بھی اپنا مخصوص وضع قطع کا لباس زیب تن کرتے ہیں مگر وہ اس کا سیاسی استعمال نہیں کرتے۔

مغربی ممالک میں مسلمان فرقے یا ان کی تنظیمیں، سیکولرازم اور سماجی رواداری کا ناجائز فائدہ اٹھاتی ہیں۔کوئی حجاب پر زبردستی عمل کروا رہا ہے اور کوئی ’’ پیار‘‘ سے۔ مغربی سماج اتنا روشن خیال اور روادارہے کہ یہاں کے شہری حجاب پہن کر مسلمانوں کی بظاہر ’’معصوم ‘‘ خواہش کا احترام کر رہے ہوتے ہیں ۔ لیکن اگر کسی دوسرے مذہب کا گروہ یا فرقہ ان مسلمانوں سے یہ مطالبہ کرے کہ ایک دن ہمارے ساتھ ہمارے کلچر کا لباس پہن کر اظہار یک جہتی کرو تو یہ صاف انکار کر دیں گے کہ یہ صریحاً بے حیائی ہے اور ہمارے مذہب میں ایسا کرنا منع ہے۔ مغربی سماج میں ا تنی لچک ہے کہ وہ بنیادپرستوں کے لباس کو برداشت کرلیتے ہیں جبکہ مسلمان ان کی ثقافت اور رسوم و رواج کو بے حیائی سے تعبیر کرتے ہیں اور بے حیائی کا مطلب اسلام کے خلاف کھلی جنگ ہے۔

مسلمان تنظیموں نے اپنے مذہبی رسوم و رواج کو سیاسی مسئلہ بنا لیا ہے۔ یہ تنظیمیں انسانی حقوق اور سیکولر ازم کی آڑ میں اپنا بنیاد پرستی کا ایجنڈا آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔ ان کا حال اس اونٹ جیسا ہے جو سردی سے بچنے کے لیے خیمے میں داخل ہوتا ہے اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اونٹ خیمے میں اور مالک باہر بیٹھا ہوتا ہے۔ یہ فرقے یا تنظیمیں سیکولر ازم کی آڑ میں اسلام کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کررہی ہیں۔یہ مغربی معاشروں میں مل جل کر رہنے کی بجائے اپنی علیحدہ پہچان کے لیے اصرار کرتی ہیں اور اب تو یہ جماعتیں اپنی علیحدہ رہائش گاہیں یا کالونیاں بنا ر ہ رہی ہیں ۔

ان کالونیوں اور اپارٹمنٹس میں طالبان کی طرح ان کا اپنا قانون چلتا ہے جہاں مسلسل مخصوص آئیڈیالوجی ان کے ذہنوں میں انڈیلی جاتی ہے۔ یہ تنظیمیں اپنی رسوم کی ادائیگی کے لیے اصرار کرتی ہیں، مخلوط محفلوں کی شدت سے مخالفت کرتی ہیں ۔ پردے پر سختی سے عمل کراتی ہیں ۔ اپنی شریعہ کورٹس بنا رکھی ہیں۔مغرب کی ثقافت ،ان کے لباس اور رسوم و رواج کو نفرت آمیز بلکہ اکثر اسے کراہت آمیز قرار دیتی ہیں اور اپنے مخصوص لباس کو عین اسلامی قرار دے کر اس پر قائم رہنے کا اصرار کرتی ہیں۔ تہذیب نرگسیت کا شکار یہ فرقے اور تنظیمیں اپنے افراد کو شاہ دولے شاہ کے چوہے بنا کر سماج میں ثقافتی گھٹن پیدا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کررہی ہیں۔

Comments are closed.