جنتی تلور

رشید بلوچ

tft-39-p-16-f

جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے وفاقی و چاروں صوبائی حکومتوں کو پابند کیا کہ وہ آئندہ کسی کو بھی تلور کے شکار کے پرمٹ جاری نہ کریں، سپریم کورٹ کی تین رکنی بینچ نے یہ فیصلہ اگست کے مہینے میں دیا تھا۔سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے اس فیصلے کی بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے توثیق کی ہے۔ بلوچستان ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے فیصلے کے بعد محکمہ وزارت داخلہ کی جانب سے سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ مذکورہ فیصلے پر نظرثانی کی جائے۔

اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ چونکہ خلیج اور دیگر عرب ممالک کے ہمارے اسلامی بھائی ہر سال تلور کی شکار کیلئے پاکستان آتے ہیں اگر ہم نے اپنے اسلامی عرب شیوخ بھائیوں کو تلور کی شکار پر پابندی عائد کردی تو برادر اسلامی ممالک کے شہزادگان پاکستان کی بجائے دشمن ملک بھارت کا رخ کرینگے جس کی وجہ سے پاکستان اور اسلامی عرب ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات ختم نہ سہی خراب ہونے کا اندیشہ ہے ۔

اب یہ نہیں معلوم کہ اس قومی اہمیت کے حامل مسئلہ کے حوالے سے سپریم کورٹ نے اپنے دیئے گئے فیصلے پر نظرثانی کی ہے یا نہیں لیکن گزشتہ چند دنوں سے عرب شیوخ کی لگژری گاڑیاں بلوچستان کے مختلف علاقوں کی کچی سڑکوں پر دھول اڑاتے نظر آرہی ہیں ان امیر وکبیر اسلامی بھائیوں کی شکار پارٹی کا پہلا پڑاؤ نواب زوالفقار مگسی کا پسماندہ کا علاقہ جھل مگسی میں ہوا ہے ۔

رپورٹس کے مطابق 50 سے 60 ہزار کے قریب تلور سائبیریا سے موسمِ سرما میں جنوبی پنجاب ،سندھ اور بلوچستان کا رخ کرتے ہیں، تلور کا سیزن آنے کے بعد عرب شیوخ وزارتِ خارجہ کے خصوصی اجازت ناموں کے ساتھ اپنے لاؤ لشکر سمیت زیادہ تر بلوچستان کا رخ کرتے ہیں،عرب شیوخ حضرات تلور کا شکار اپنے اپنے ساتھ لائے ہوئے تربیت یافتہ باز سے کرتے ہیں، تربیت یافتہ باز بڑے مہارت سے تلور کو نشانہ بنا تا ہے باز اور تلور کی رسہ کشی ظالم اور مظلوم کی مکمل ایک داستان ہے۔

پاکستان میں عام آدمی تلور کے شکار تو کجا تیتر، بٹیر کی شکار کاسوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ ان پرندوں کو ملکی حیاتیاتی قوانین کے تحت مکمل تحفظ حاصل ہے۔آئی سی یو این اور سائٹس جیسے اداروں کی رپورٹس میں بتا یا گیا ہے کہ تلور ان پرندوں میں شامل ہے جس کی نسل کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

شنید میں آیا ہے کہ عرب شہزادوں کے کیمپ کے ارد گرد کتوں کا جم غفیر موجود ہے۔ بقر عید کے بعد علاقے کے کتوں کیلئے یہ دوسری بڑی عید ہے ۔ہر طرف ھڈیوں کی بھر مارہے، صرف دو دنوں میں کتے ہڈیاں کھا کر خوب فربہ ہو چکے ہیں۔ علاقے لوگوں کو کافی عرصے بعد کتوں کی تیز بھونکنے کی آوازیں سنا دے رہی ہیں جبکہ آس پاس کے گاؤں کے لوگوں کو کھانے کو وافر مقدار میں گوشت مل رہا ہے۔

اپنے اسلامی بھائیوں ں کی حفاظت کے نام پر پروٹوکول کیلئے کیمپ کے آس پاس سیکورٹی کے بھی کافی سخت کے انتظامات کئے گئے ہیں۔سیکورٹی پر معمور سپاہیوں کی بھی وارے نہارے ہیں ۔ اگر دور دراز علاقے سے تعلق رکھنے والا کسی بھولا بھٹکا بلوچ چرواہے کی کیمپ کے قریب سے گزر ہوجائے تو سیکورٹی پر کھڑے سپاہی تھوڑی سی ڈانٹ ڈپٹ کے بعد اسے بڑی عزت سے پیٹ بھر کھانا کھلاتے ہیں ۔اسلامی بھائیوں کی اس سخاوت و دریا دلی پر ان کے ساتھ رہنے والے تمام لوگ خوش خرم ہیں۔

ہماری تلور برادری سے گزارش ہے کہ وہ اپنی نسل کشی پر خفا نہ ہوں کیونکہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اکثر سیاسی جماعتوں کے لیڈرز، ایم پی ایز اور بہت سے سردارونواب صاحبان کی عرب شہزاد وں سے دوستیاں تلور کی شکار سے جڑے ہوئے ہیں ،یہ لوگ سال کے نو ماہ تک تلور کی انتظار میں آنکھیں بچھائے بیٹھے ہو تے ہیں ان کے ا ہل و عیال کا نان و نفقہ تلور سے جڑا ہوا ہے۔

یو ں سمجھ لیں ان کی افزائش نسل تلور کی نسل کشی سے وابستہ ،اسی رشتے کا کرشمہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر سردار نواب ،علاقائی میر اور اسکے حواری کئی حج اور عمروں کی سعادت حاصل کر چکے ہیں ،ایک جانب جہاں تلور کی وجہ سے ہمارے سفارتی اور ریاستی رشتے عرب ممالک سے مضبوط ہو رہے ہیں جبکہ دوسری جانب کوئٹہ سے اسلام آباد تک ہمارے بہت سے سیاستداں ہر سال حج اور عمرے کے ذریعہ اپنے گناہ تلور کے خون سے دھو رہے ہیں ۔

گو یا چند تلور ہماری دنیا و آخرت سدھارنے کا وسیلہ بن گئے ہیں میرے جاننے والے ایک مولانا تلور والے حج سے حج بامشرف ہونے کے بعد فتویٰ صادر کر چکے کہ پاکستان میں غازی شہزادوں کی جہاد بلباز سے مرنے والے تلور شہید ہیں،تلور حاجی صاحبان ،تلور عرب شہزادگان اور بذات خود تلور قیامت کے دن اکھٹے جنت وارد ہوں گے۔۔

One Comment