ہندوستان کے مسلمان

عطیہ خان۔ لندن

00123
ہندوستان کے مسلمان تعلیم وترقی کے میدان میں ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی، بدھ اور جین مذہب کے ماننے والوں سے بہت زیادہ پچھڑے ہوئے ہیں۔ مسلمان بچوں کی ایک بڑی تعداد سکولوں کے بجائے مدرسوں میں پڑھتی ہے جہاں بچوں کو نہ تو سائنس او رٹیکنالوجی کی تعلیم دی جاتی ہے او رنہ ہی کوئی ہنر سکھایا جاتا ہے جس سے وہ مدرسوں کی تعلیم ختم کرنے کے بعد اپنی روٹی روزی کا انتظام کرسکیں۔ مدرسوں میں بچوں کو مارپیٹ کر قرآن حفظ کرایا جاتا ہے جس کے معنی بھی انہیں نہیں سمجھائے جاتے۔

یہاں صدیوں پرانا درس نظامی ہی نصاب میں شامل ہے۔ بچوں میں سوال پوچھنے او رخود سوچنے سمجھنے کی عادت ڈالنے کے بجائے اسی پرانے نظام تعلیم کو اصلی تعلیم سمجھا جاتا ہے اور انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ جدید تعلیم مغرب کی چالاکی ہے، مسلمانوں کوگمراہ کرنے کی، اس لئے مسلمانوں کو اس سے پرہیز کرنا چاہئے۔ ان مدرسوں میں بچوں کی فطری صلاحیتوں کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا جاتا۔ حالانکہ ان میں ایسے ذہیں بچے بھی ہوتے ہیں جنہیں اگر مناسب تعلیم ملے تو وہ ڈاکٹر انجینئر سائنس دان، موجد، محقق، موسیقار او رکھلاڑی بن کر نام کماسکتے ہیں لیکن ان مدرسوں میں بچوں کی قدرتی صلاحیتوں کو کچل دیا جاتا ہے اور وہ جو کچھ بن سکتے ہیں اس کی جگہ صرف مولوی بن کررہ جاتے ہیں۔

پاکستان بننے کے بعد تعلیم یافتہ اور سیکولر ذہنیت کے مسلمان تو پاکستان چلے گئے ہندوستانی مسلمانوں کی لیڈر شپ ان ملاؤں کے ہاتھ میں آگئی جنہوں نے کانگریس کا ساتھ دیا تھا۔ ان میں وقت اور حالات کے تقاضوں کو سمجھنے کی قطعی صلاحیت نہیں او رنہ ہی یہ مصلحت اور مصالحت سے کام لینا جانتے ہیں۔ مسلمانوں کی علیحدگی پسندی نے ملک کی تقسیم کرائی تھی اس کے نتیجے میں جو خون خرابہ ہوا تھا او رنفرتیں پیدا ہوئی تھیں انہیں کم کرنے کی کوشش کے بجائے انہوں نے ہندوستان میں رہتے ہوئے بھی پرسنل لاء کے ذریعے خود کو عام دھارے سے الگ کرلیا۔

پرسنل لاء کو مسلمان اسلامی قانون سمجھتے ہیں او راسلامی فرائض میں عورتوں کو گھر میں بندرکھ کر کالج او ریونیورسٹی کی تعلیم سے محروم رکھتے ہیں۔ برقعہ، حجاب، داڑھی اور چار شادیوں کا حق اس قدر ضروری سمجھتے ہیں جیسے کہ یہ اسلامی فرائض ہیں۔ ان معاملوں میں نہ تو اپنے ہم وطنوں کے جذبات کا احترام کرتے ہیں او رنہ ہی اپنے ملک کے قانون کا، شاہ بانو والے معاملے میں اتنا شور مچایا جیسے کہ طلاق کے بعد شوہر کو بیوی کے گذارے کے لئے کچھ نہ دینا ہی اسلام کا بنیادی اصول ہے۔ انہیں خاموش کرنے کے لئے راجیو گاندھی کو آئین میں تبدیلی کرکے سپریم کورٹ کا فیصلہ روکنا پڑا۔

ہندو جو ملک کی تقسیم کی وجہ سے پہلے ہی زخم خوردہ تھے ان کی نفرت او ربھی بڑھی۔ انہوں نے سوچا کہ مسلمان شور مچاکر اپنی ہر بات پوری کرالیتے ہیں تو یہی طریقہ ہندؤں کو بھی اپنانا چاہئے۔ انہوں نے بھی راجیو گاندھی کو بابری مسجد کا تالا کھولنے پر مجبور کردیا او رہندتواکااب طوفان آیا کہ بابری مسجد ٹوٹی، فسادات ہوئے او ربی جے پی اتنی مقبول ہوگئی کہ اس کو حکومت کرنے کا موقع مل گیا۔ لیکن مسلمانوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔

ہندوستانی مسلمان ذہنی طور پر خود کو پاکستانی سمجھتے ہیں۔ پاکستان کے طورطریقوں کو اپنانا اسلامی فریضہ سمجھتے ہیں مثلاً شلوار قمیض جو پاکستانی لباس ہے اسے ہندوستانی مسلمان بھی پہننے لگے ہیں۔ ہندوستان میں ہمیشہ خدا حافظ کہاجاتا تھا لیکن جب سے پاکستان میں اللہ حافظ کہنے کا رواج ہوا ہندوستانی مسلمانوں نے بھی اللہ حافظ کہنا شروع کردیا ہے۔ کرکٹ کے کھیل میں اگر پاکستانی ٹیم ہندوستانی ٹیم کو ہراتی ہے تو ہندوستانی مسلمان خوش ہوکر پٹاخے چھوڑتے ہیں او رمٹھائی بانٹتے ہیں۔ ہندوؤں کو ان باتوں سے تکلیف ہوتی ہے۔ سیکولر جمہوریت میں آزادی اظہار کی وجہ سے مسلمانوں پر سختی تو نہیں کی جاتی لیکن ہندوؤں کو مسلمانوں کو غدار کہنے کا موقع ملتا ہے۔

مسلمانوں کو ساری دنیا میں اسلامی حکومت قائم کرنے کا شوق ہے۔ ہندوستان میں بھی ایسی جماعتیں ہیں جو پھرسے ہندوستان میں اسلامی حکومت قائم کرنا اپنا فرض سمجھتی ہیں جس کی وجہ سے ہندوؤں میں مسلمانوں سے نفرت بڑھ رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے دو حصے کاٹ کر مسلمانوں نے اپنی حکومتیں قائم کرلیں اور اب بھی جو کرنا چاہتے ہیں شور مچاکر حاصل کرلیتے ہیں۔

مولوی بڑے دعوے کے ساتھ کہتے ہیں کہ دنیا کے سارے مسائل صرف اسلام ہی کے ذریعے حل ہوسکتے ہیں اور عام مسلمان اس پر یقین کرلیتے ہیں کیونکہ ان میں غوروفکر اور سوچنے سمجھنے کی عادت نہیں۔ وہ یہ سوال نہیں کرتے کہ اگر اسلام ہی سے زندگی کے مسائل حل ہوسکتے ہیں تو پھر مسلمانوں کے ممالک میں اتنے مسائل کیوں ہیں؟ وہ مولویوں کے بنائے ہوئے اسلام پر بغیر سوچے سمجھے عمل کرتے ہوئے نہ تو بینک میں پیسہ جمع کرتے ہیں نہ ہی تجارت او راپنا کاروبار بڑھانے کے لئے قرض لیتے ہیں۔ نہ زندگی کا بیمہ کراتے ہیں او رنہ ہی فیملی پلاننگ کرتے ہیں۔

کیونکہ مولویوں نے ان سب کو اسلام کی روح سے حرام قرار دے رکھا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں ننگے، بھوکے او رجاہل مسلمانوں کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ غریبی کی وجہ سے مسلمان جرائم میں بھی ملوث ہوجاتے ہیں او ران میں شدت پسندی بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ مسلمان لیڈر اس بد حالی او رپسماندگی کی ذمہ داری خود لینے کی بجائے حکومت اور ہندوؤں کو ذمے دار ٹھہراتے ہیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باحیثیت مسلمانوں کی ذہنیت بھی مختلف نہیں ہے۔ وہ بھی مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی پسماندگی کا ذمہ دار حکومت ہی کو قرار دیتے ہیں۔ اور مسلمانوں میں بڑھتی ہوئی تنگ نظری، شدت پسندی، تشدد پسندی او ردہشت گردی کی مذمت کرنے کے بجائے اسے مانتے ہی نہیں او رکہتے ہیں کہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے غیرمسلم ان پر دہشت گردی کا الزام لگاتے ہیں۔ جب مسلمان دہشت گردی میں ملوث ہو کر پکڑے جاتے ہیں تب بھی ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔

بنگلور کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان کا ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص جو برطانیہ میں کام کررہا تھا وہ28جون2007ء کو گلاسگواےئر پورت پر خودکش حملہ کرنے پہنچا تو اس کا منصوبہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ مسافروں کو ختم کیا جائے۔ یہ صرف اتفاق کی بات تھی کہ عین وقت پر پکڑلیا گیا اور اپنے علاوہ کسی او رکو نہیں مارسکا۔

برطانیہ اگر امریکہ کے ساتھ افغانستان او رعراق پرحملہ کرکے وہاں کے عوام کو نشانہ بنارہا ہے تو اس کے خلاف سخت احتجاج تو ضروری ہے لیکن خود کش حملہ کرکے اپنی جان دے کر او ربے قصور لوگوں کی جان لینا تو انتہائی حماقت کی بات ہے۔ اس ہندوستانی مسلمان کی خود کش حملے کی مذمت ہندوستان کے سب مسلمانوں کو کرنی چاہئے تھی تاکہ دوسرے مسلمان دہشت گردی میں ملوث نہ ہوں۔ لیکن ہندوستان کے مسلمانوں نے اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ میڈیا نے اس کو بہت اہمیت دی جو مسلمانوں کو بہت ناگوار گذری۔

مسلمانوں نے ہندوستان پر سات سو سال حکومت کی، مسلمان حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے ملک انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا۔ لیکن انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ہندوؤں کے ساتھ رہنا پسند نہیں کیا۔ او رعلیحدگی پسندی کی وجہ سے ملک کے تین ٹکڑے کردئیے۔ اور کشمیر پر حملہ کرکے اور اسے اپنی شہ رگ بناکر مستقل طور پر ہندوستان سے دشمنی کی بنیاد ڈال دی۔ ملک کی تقسیم کے بعد غیر مسلموں کو جوان علاقوں میں صدیوں سے آباد تھے، پاکستان بننے کے بعد انھیں اپنی جڑوں سے اکھڑے پر مجبور کردیا گیا۔ انہوں نے اپنی جائیدادیں، اپنے گھر چھوڑے، اپنی عورتوں کی بے حرمتی برداشت کی اورہندوستان آکر نئے سرے سے زندگی تعمیر کی۔ محنت مزدوری کی، چھوٹے چھوٹے کاروبار سے ابتداء کرکے بڑے بڑے بزنس مین بن گئے۔

مسلمان جنہوں نے سات سو سال ہندوستان پر حکومت کی تھی وہ آزاد ہندوستان میں اپنے لئے کوئی مقام نہیں بناسکے او راپنی دنیاوی ترقی سے بالکل ہی لاپرواہ ہوگئے۔ عیسائیوں کی تعداد مسلمانوں سے بہت کم ہے لیکن ان کے بہت اچھے اسکول ، کالج، میڈیکل کالج او رہسپتال وغیرہ ہیں لیکن مسلمان اس دنیا میں ترقی کی بجائے دوسری دنیا کی زیادہ فکر کرتے ہیں۔ ان کے پاس پیسہ ہوتا ہے تو اسکول، کالج، ہسپتال وغیرہ کھولنے کی بجائے مسجدیں او رمدرسے بنواتے ہیں۔

مسجدوں میں لاوڈ اسپیکر لگوانا بھی بہت ضروری ہوگیا۔ لیکن جو غریب مسلمان جھونپڑوں میں رہتے ہیں ان کی کوئی فکر نہیں کرتے۔ مسلمانوں کے پاس اوقاف کی اتنی زمینیں ہیں کہ اگر ذمہ داری اورایمانداری سے ان کا انتظام کریں تو ان کی آمدنی سے مسلمانوں کی غریبی دور ہوسکتی ہے۔ لیکن وہ خود اپنی حالت سدھارنے کی بجائے اپنی بدحالی اور پسماندگی کا الزام حکومت کو دیتے ہیں۔

مسلمانوں میں یہ عام بات ہے کہ ان میں احساس مظلومیت او رخود رحمی کی زیادتی اور خوداحتسابی کی کمی ہے۔ ہندوستانی مسلمان بھی اپنی مظلومیت کا رونا روتے ہیں لیکن ذرا سی بات بھی جو اپنے مذہب کے خلاف سمجھتے ہیں اس پر شدت سے بھڑک اٹھتے ہیں مثلاً بی جے پی نے اپنے الیکشن کے مینی فسٹو میں لکھا تھا کہ اگر ان کی حکومت ہوئی تو ہندوستان میں مسلمانوں کے پرسنل لاء کو ختم کرکے سب کے لئے ایک ہی قانون لاگو کریں گے۔

مسلمانوں میں ہلچل مچ گئی۔ یہ اسلام دشمنی ہے۔ ہمارے ایک بہت ہی مشہور عالم نے اعلان کیا کہ اگر ہمارے پرسنل لاء کو ہاتھ لگایا تو خون کے دریا بہہ جائیں گے۔ ہندوؤں کو معلوم ہے کہ مسلمانوں کو خون بہانے میں کتنی مہارت ہے اس لئے ملک میں امن وامان قائم رکھنے کے لئے انہوں نے ارادہ بدل دیا۔ سلمان رشدی ،تسلیمہ نسرین او راسرائیل کا نام سنتے ہی تشدد و احتجاج پر اترآتے ہیں۔

بابری مسجد کے معاملے میں بھی ہٹ دھرمی کی بجائے مسلمان اپنے ہم وطنوں کے مذہبی عقائد کا احترام کرتے ہوئے جو تجویزیں ان کے سامنے رکھی گئی تھیں ان میں سے کوئی قبول کر لیتے تو ہندوؤں سے بھی کہہ سکتے تھے کہ دوسری مسجدوں پر حملہ نہ کریں لیکن مسلمان تو مصلحت او رمصالحت سے کام لے کر گفت وشنید سے معاملات سلجھانے کی بجائے فوراً تشدد پر آمادہ ہوجاتے ہیں جس سے نقصان مسلمانوں ہی کو پہنچتا ہے۔

مسلمانوں کے کٹرپن اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہندوؤں میں بھی ہندو تواکی طرف رحجان بڑھ رہا ہے۔ لبرل اور سیکولر ہندو اس کی مخالفت کرتے ہیں لیکن مسلمانوں کے بے لوچ روئیے کی وجہ سے مجبور ہوجاتے ہیں مثلاً آرٹسٹ فداحسین نے جب ہندو دیویوں کی ننگی تصویریں بنائیں تو ہندوؤں نے ان کے اسٹوڈیو پر حملہ کرکے بہت نقصان پہنچایا جس کے نتیجے میں وہ خود ہندوستان چھوڑ کر دبئی چلے گئے۔ اسی زمانے میں مسلمان تسلیمہ نسرین کے خلاف پر تشدد احتجاج کرکے اسے ہندوستان سے نکالنے میں کامیاب ہوگئے تھے اور اس نے سوئیڈن میں پناہ لی تھی۔ اس حالت میں لبرل ہندو آرٹسٹ فدا حسین کو ہندوستان واپس بلانے کی کوشش نہیں کرسکے کیونکہ ہندوؤں میں اس کا زبردست ردعمل ہوتا۔

ہندوستان ایک سیکولر جمہوریت ہے جس میں مذہبی آزادی او رفکرو اظہار کی آزادی ہوتی ہے۔ اس جمہوریت کی حفاظت کے لئے پر اُمن بقائے باہمی او رقانون کی بالا دستی ضروری ہے۔ لیکن مسلمان اپنے ملک کی سیکولر جمہوریت کا احترام کرنے کی بجائے اپنی مذہبی شناخت قائم رکھنا زیادہ ضروری سمجھتے ہیں اور اپنے مولویوں کے علاوہ او رکسی کی بات نہیں مانتے۔ ہندوستان کے حکمران ووٹ بنک کی مصلحت کی بنا پر مسلمانوں کو خوش رکھنے کے لئے مولویوں کی مانگوں کو قبول کرلیتے ہیں۔

آزادی کے اتنے دنوں بعد اب’’حق تعلیم‘‘ بل پاس ہوگیا ہے او راب جگہ جگہ سرکاری اسکول کھولے جارہے ہیں جن میں 14سال کی عمر تک کے بچوں کو مفت او رلازمی تعلیم دی جائے گی او ردوپہر کا کھانا بھی ملے گا۔ مولوی گھبرائے ہوئے ہیں کہ مسلمان بچے اب مدرسوں کی بجائے ان اسکولوں میں جائیں گے۔ یہ حضرات ایک طرف تو مسلمانوں کو اس تعلیم سے محروم رکھتے ہیں جو اچھی ملازمتوں کے لئے لازمی ہے او ردوسری طرف مسلمانوں میں بے روزگاری کا الزام حکومت کو دیتے ہیں۔

جس طرح سرکاری اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اور سرکاری ملازمتوں میں دلتوں اور دوسری پچھڑی ہوئی ذاتوں کے لئے کوٹامقرر ہے اسی طرح کا کوٹا مسلمانوں کے لئے بھی مانگتے ہیں۔ منموہن سنگھ کی حکومت نے انہیں دلتوں وغیرہ کے کوٹے میں سے4.5%مسلمانوں کو بھی دے دیا ہے تو بہت خوش ہیں کہ انہوں نے اپنا ایک مطالبہ منوالیا۔

مسلمانوں کو اس بات پر بالکل شرم نہیں آتی کہ وہ ان لوگوں کے حصے میں شریک ہورہے ہیں جنہیں ہزاروں سال سے جانوروں سے بھی بدتر زندگی گذارنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ ان سے گندے سے گندہ کام کراکر انہیں پیٹ بھر کھانے کو بھی نہیں دیا گیا۔ خود مسلمانوں نے بھی اپنے دور حکومت میں ان کی حالت سدھارنے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ اور اب جو مراعات ان غریبوں کو دی گئی ہیں ان میں سے4.5%خود لے کر خوش ہورہے ہیں۔

2 Comments