بین الاقومی اردو کانفرنسوں کا فیشن

ارشد نذیر
639047-confence-1385750185-562-640x480

کس قدر افسوس کی بات ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے بین الاقومی اردو کانفرنسیں بھی چند وارداتیوں کی سیاست کا شکار ہوتی جا رہی ہیں۔ اس کا اظہار وقتاً فوقتاً کچھ دردِ دل رکھنے والے دانشور کرتے بھی رہے ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں۔ لیکن معاملہ ابھی جوں کا توں چل رہا ہے۔
آج کل کچھ’’ ادیب نما‘‘ ’’ وارداتئے ‘‘بین الاقوامی اردو ادبی کانفرنسوں کے انعقاد میں اپنا مالی حصہ ڈال کر یا پھر اُن کو سپانسر کرکے ان میں شامل ہو جاتے ہیں ۔ وہاں وہ اپنے تعلقات ادیبوں ، شاعروں اور دانشوروں سے بناتے ہیں۔ اُن کے ساتھ اپنی تصاویر بنواتے ہیں۔ دیگر ممالک اور بالخصوص یورپی ممالک کے ٹکٹ حاصل کرتے ہیں ان ممالک کی سیر کرتے ہیں اور یوں خود کو اصلی اور حقیقی ادیبوں میں شامل کرلیتے ہیں۔
اگرچہ ’’حقیقی اور اصلی ‘‘ ادیب، شاعر یا دانشور کی اصطلاح بھی مبہم ہے لیکن کیا کریں موجودہ سماجی زوال پذیری کے دور میں بہت سی ایسی روشیں ، عادات اور رواج جنم لے رہے ہیں جن کے لئے اردو زبان کا دامن تنگ ہوتا محسوس ہو رہا ہے۔ شرم و حیا جیسے الفاظ ابھی بھی موجود ہیں لیکن آج کل وہ صرف جس محاورے میں استعمال ہو رہے ہیں، وہ صرف اسی انداز ہی میں اچھا لگتا ہے : ’’کوئی شرم ہوتی ہے ، کوئی حیا ہوتی ہے!!‘‘
تو جناب بات اصلی اور حقیقی ادبیوں ، شاعروں اور دانشوروں کی ہو رہی تھی۔ سچ پوچھئے تو ’’اصلی اور حقیقی ‘‘ ادیبوں ، دانشوروں اور شاعروں کا تعین بین الاقوامی کانفرنسیں نہیں کرتیں ۔ یہ تو قاری ہوتا ہے جو ان کے اس کردار کا تعین کرتا ہے ۔ اور قاری کا ان کے شہ پاروں کے معیارات متعین کرنے کا اپنا طریقہ ہوتا ہے ۔ خیر اس بات کو یہاں چھوڑتے ہوئے ایک بار پھر ہم ان ’’وارداتیوں ‘‘ کے اس فیشن کی بات کی طرف لوٹتے ہیں۔
زوال پذیری کا یہ قصہ صرف اردو بین الاقوامی کانفرنسوں تک محدود نہیں ہے ۔ اس طرح کے ’’وارداتئے ‘‘ آج کل ہر علمی اور تحقیقی ادارے کے اندر گُھس بیٹھے ہیں اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ ان شعبوں کی باگ ڈور سنبھال رہے ہیں۔
آپ میڈیکل کے شعبہ کو دیکھ لیجئے ۔ فارما سیوٹیکل کمپنیاں ڈاکٹرز کو اپنی مصنوعات متعارف کرانے کے لئے نوازتی ہیں ، مختلف ممالک کے دورے کراتی ہیں اور آخر میں خیر و برکت حاصل کرنے کے لئے ایسے تمام دوروں کے آخر میں ایسے ’’معزز ڈاکٹرز‘‘ کو حج یا عمرہ کی سہولت بھی فراہم کر دیتی ہیں تاکہ ’’ضمیر ‘‘ نامی اندرونی انسان کوبھی کسی قسم کے گناہ اور خلش سے بالکل پاک اور صاف کیا جا سکے تاکہ وہ اس مسیحائی شعبہ میں دکھی انسانیت کی خود دل جمعی سے اور بھر پور طریقے سے خدمت سر انجام دے سکیں ۔
اُن کی ان ’’پیش کشوں‘‘ کا یہ سلسلہ صرف یہاں تک نہیں رکتا بلکہ یہ فارما سیوٹیکل کمپنیاں ڈاکٹرز کے کلینکس کی تزئین و آرائش کے لئے بھی پیش پیش ہوتی ہیں۔ انہیں بڑی بڑی گاڑیوں کے تحائف سے نوازا جاتا ہے ۔ ایسے ’’معزز ڈاکٹرز‘‘ کی بیٹیاں مختلف بڑی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے مالکان کی اپنی بیٹیوں کی طرح ہوتی ہیں جن کی شادی کے اخراجات اور قیمتی تحائف بھی ان کا فرضِ منصبی بن ہوتا ہے ۔
لطف کی بات تو یہ ہے کہ اس طرح کی ’’حرکات‘‘ کے لئے مجھے اردوزبان میں کوئی لفظ بھی نہیں ملا۔ اس کو رشوت کہا جائے ، الفت و محبت کہا جائے یا تحائف پیش کئے جانے والے کلچر کا پاکستانی انداز کا نام دیا جائے یا پھر پورے معاشرے کا بلاد کار ۔سخت کوشش کے باوجود بھی ایسی نوازشات کا کوئی مترادف لفظ تلاش نہیں کر پایا۔ میں اپنی کم علمی اور نالائقی پر معذرت بھی چاہتا ہوں اور دوستوں سے دست بستہ استدعا بھی کرتا ہوں کہ اگر انہیں کوئی اس حرکت کا مترادف مل جائے ، تو مجھے ضرور بتائیں۔
شعبہ تعلیم میں بھی اس قسم کی حرکات نہ صرف عرصہ دراز سے جاری ہیں بلکہ ایسے وارداتیوں نے تعلیم کے شعبہ میں تحقیقات کے سنجیدہ عمل کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ایک عرصہ سے تمام اضلاع کی بیگم ڈی سی موجودہ ڈی سی او طالبات کے کالجز اور سکولز کی سنجیدہ تقریبات میں پہنچ جاتی ہیں ۔ وہ تعلیم کے شعبہ کو کس طرح ہونا چاہئے اور اس کو ایسا کیوں ہونا چاہئے جیسے سوالات پر اپنے پُر معز مقالات پیش کرتی ہیں ۔ پنڈال میں بیٹھی اساتذہ اُسے سنتی ہیں اور سر دُھتی ہیں۔
اس وقت انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ محض ملازم ہیں اور ملازم کا کام جی حضوری کرنا ہوتا ہے ۔انہیں اپنا شعبہ ، اس کے تقاضے ، ضروریات اور اہمیت کا بھی احساس نہیں رہتا ۔ لہٰذا انتہائی خاموشی اور سنجیدگی سے ’’بیگم موصوفہ‘‘ کے ارشادات سنے جاتے ہیں۔ وہ تعلیم کے مقاصد کے حصول کے لئے اپنے شوہرِ موصوف کی انتظامی امور کی تعریف کرتی ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتی ہیں کہ سکولوں کے انتظامی معاملات کو کس طرح بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
گویا تمام تر انتظامی اختیارات، تعلیمی پالیسی جس طرح بیگم ڈی سی یا ڈی سی او بیان کر جاتی ہیں ، کسی بھی ماہرِ تعلیم کو یہ جرات نہیں ہوتی کہ وہ ان سے یہ سوال کریں کہ ’’بی بی‘‘ آپ کی تعلیمی قابلیت کیا ہے اور اس شعبہ میں آپ کی کتنی خدمات ہیں۔
ایسی تجاویز پیش کرنے کے لئے وہ کس قسم کے تجربے سے مسلح ہیں جس کو اس شعبہ کے لئے معیار مان لیا جائے اور انہیں یہ اجازت دے دی جائے کہ وہ طرح کی تمام پالیساں آزادانہ اور بلا سوچے سمجھے بناتی پھریں لیکن کسی کی کیا مجال کہ کوئی بیگم موصوفہ کی شخصیت کے اس پہلو پر انگشت نمائی کرے۔ ’’بیگم صاحبہ‘‘ موصوفہ طالبات کے سکولوں میں تو کچھ زیادہ ہی دخل اندازی کرتی ہیں۔ یہ صورتحال ہماری غلامانہ ذہنیت کی عکاس ہے۔
شعبہِ صحافت میں بھی تو بہت سے ’’صحافی نامہ ‘‘ افراد شامل ہو گئے ہیں ۔ جن کی اس شعبہ میں کوئی خدمات نہیں ہیں لیکن پھر بھی وہ اس شعبہ میں شامل ہیں۔ اس شعبہ میں گھس جانے کے بعد وہ صاحبِ اقتدار لوگوں اور حکومت کی چابلوسی کرتے ہوئے وہ مفادات حاصل کر جاتے ہیں جو ایک حقیقی صحافی کا حق ہے ۔
حقیقی صحافی تو اپنے بنیادی حقوق حاصل کرنے کے لئے بھی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتا ہے لیکن ایسے ’’وارداتئے ‘‘ چند ہی دنوں میں ایسی مراعات اور نوازشات حاصل کر جاتے ہیں کہ حقیقی صحافی انگشت بدنداں رہ جاتا ہے۔یہاں اس امر کا تذکرہ بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ بہت سے صحافی ایسے چہروں سے آشنا بھی ہوتے ہیں لیکن وہ ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے ۔
یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ایسے وارداتئے ہر شعبہ میں اور ہر دور میں رہے ہیں ۔ اس مصیبت سے جان چھڑانے کے لئے محض اصلی اور حقیقی ادیبوں ، شاعروں اور دانشوروں سے یہ استدعا کر دینا کہ وہ اپنے اندر سے ایسے وارداتیوں کو نکال باہر کریں کافی ہے اور نہ ہی یہ نسخہ کارگر ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اصلی اور حقیقی دوستوں کی خود بھی کچھ ’’حکمتِ عملیاں‘‘ ، ’’ مصلحتیں ‘‘ اور ’’مجبوریاں‘‘ ہوتی ہیں۔ وہ ایسے لوگوں کو اپنے بیچ میں برداشت بھی کرتے ہیں اور بعض اوقات خود بھی ایسی صورتحال کو قائم رکھنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
اصل سوال ہی یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو اس زوال پذیری کا باعث ہیں۔ کیا اس زوال پذیری میں ایک نئے کلچر ’’جس کو کارپوریٹ کلچر‘‘ کہتے ہیں کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔ ہمیں اس سوال کا بھی سنجیدگی سے جواب تلاش کرنا چاہئے کہ کیا ہم کتابوں میں بکھری تمام تر ’’اخلاقیات ‘‘ کے باوجود دولت کو عزت اور تکریم کا ذریعہ نہیں خیال کر رہے ہیں۔
کیا بیان کردہ تقریبات میں شامل ہو کر دولت کے ذریعے شہرت حاصل کرنے کا یہ عمل ہماری دولت پرستی اور اس سے مرعوب ہونے کی نفسیات کا عکاس نہیں ہے ۔ اگر ان تمام باتوں کا جواب ہاں میں ہے توان خامیوں کو دور کرنے کے لئے محض پند و نصائح کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں اس کے ارد گرد بکھرے تمام نظام کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم بیماری کا علاج کرنے کے بجائے علامات کا علاج شروع کر دیتے ہیں۔

Comments are closed.