جاؤ جناح تمہیں معاف کیا

6421295a-8074-4623-affe-65103935357cنعمان عالم

میں نے اپنا ہوش ضیاء کے پاکستان میں سنبھالا ، مجھے کان پکڑنا اور اپنی پیٹھ پر استاد محترم کی چھڑی کے وار سہنا ابھی تک نہیں بھولا ، اس لئے نہیں کہ میں نے سبق یاد نہیں کیے ہوتے تھے بلکہ اس لئے کہ مجھے اپنی کاپیوں کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹا سا اعمال نامہ بھی رکھنا ضروری ہوتا تھا جسکو ہم حاضری نماز کہہ کر پکارتے تھے ، ظہر کی نماز پڑھنا لازم ہوتی تھی اور جو نہیں پڑھتا تھا وہ مرغا بنتا تھا یا اپنے ہاتھ سیدھے کیے ڈنڈے کے وار کے انتظار میں ہوتا ۔تھا۔

یہ جو لا اکرہ فی الدین ہے ، اسکو میں نے آپ سب کی طرح پڑھا تو ہو گا لیکن اسکے معانی معلوم نہ تھے ، لہذا میرے لئے اور میرے جیسے کئی دیہاتی بچوں کے لئے اکرہ فی الدین ہی ہمارے بچپن کا حصہ بنا پھر ایک ایسا مضمون تھا جس میں علم کم اور معاشرہ زیادہ ہوا کرتا تھا اسی لئے ہم اسکو معاشرتی علوم کہتے تھے ، کیا مضمون تھا جس میں کہ سواۓ مسلمانوں کے ساری دنیا کرپٹ دکھائی دیتی تھی ، یہی وہ مضمون تھا جسے پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ہم دنیا کی مظلوم ترین قوم ہیں ساتھ ہی ساتھ یہ احساس بھی ہوتا تھا کہ ہم پیدا ہی غالب ہونے کے واسطے ہوے ہیں

جہاں تک میں سمجھا کوئی آٹھ سو برس ایک ساتھ رہنے اور جنگ آزادی کے فوری بعد ہمیں یہ خیال آیا کہ اوہ بھئی ہم تو مسلمان ہیں ، اور اس طرح ایک بھینس نے ہمارے درمیان اقدار کی لمبی لائن کھینچی جو انگریز سرکار کو بہت بھلی معلوم ہوئی اور انہوں نے اس لائن کو اتنا کھینچا کہ وہ کنٹرول سے باہر ہو گئی ، شاید اسی لئے ہم اس لائن کو لائن آف کنٹرول کہتے ہیں ، معاشرتی علوم نے جہاں معصوم ذہن پر ان گنت ظلم کیے ان میں سے ایک قائد اعظم صاحب کا الفرڈ فریڈرک آرتھر جارج ششم کی وفاداری کا حلف پوشیدہ رکھنا تھا۔

یہ ملک جو مسلمانوں کے نام پر حاصل کیا گیا تھا ، اب اتنا زیادہ مسلمان ہو گیا ہے کہ جب جب میں جناح کی سگار والی تصویر کو دیکھتا ہوں تو سگریٹ نوشی کو اسلام کی روشنی میں دیکھنے کو دل کرتا ہے ، جب جب میں جناح کی اپنے پالتو کتے کے ساتھ کھینچی ہوئی تصویر کو دیکھتا ہوں تو اسلامی تعلیمات میں کتے کے نجس ہونے کا خیال آتا ہے ، اور پھر جب میں قائد کو تھری پیس سوٹ میں دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ اگر وہ زندہ ہوتا تو کیا آج خیبر پختونخواہ کے بچوں کو پینٹ شرٹ پہننے سے منع کر پاتا ؟

کیا ہی اچھا ہے باباۓ قوم کہ آج آپ ہم میں نہیں ہیں ، اگر ہوتے تو سوچئے آپکو سر ظفر الله کو منسٹری دینے کی کیا سزا ملتی ؟ عین ممکن تو یہی ہوتا کہ ایک نہیں دو ممتاز قادری غازی کہلاتے ۔بابا آپکو معلوم نہیں اگر آپ زندہ ہوتے تو ٹی وی پر بیٹھے دانشور آپ کو اسلامی جمہوری ملک کی قانون سازی کا قلمدان جوگندرا ناتھ منڈل ، یعنی ایک ہندو کو تھمانے پر ایسے وار کرتے کہ آپ کو ٹی وی پر آ کر ہم سب کے سامنے معافی مانگنی پڑتی۔

جو معاشرتی علوم میں پڑھا تھا ، اسکا لب لباب ایک قومی نغمے کے ایک مصرعے میں ایسے سمجھ میں آیا جیسے دریا کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہو ، یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران مجال ہے یہ مصرعہ غلط ثابت ہو رہا ہو ، کچھ بھی کہوں بھائی آخر ایک دنیا پاکستان کو جانتی ہے ، اور اگر بھولنے کی کوشش کرتی بھی ہے تو ہم وقفے وقفے سے اپنے ہونے کا احساس دلاتے رہتے ہیں ، کبھی امریکا و روس کے درمیان لڑائی کا ایندھن بن کر ، کبھی یورپ میں مسجدوں کا مطالبہ کر کے ، کبھی احمدیوں کی فیکٹریاں جلا کر ، کبھی ھزارہ شیعہ کمیونٹی کی بسوں کو جلا کربھئی دنیا کی خبروں میں بھی تو جگمگانا ہے آخر کچھ نہیں تو دو چار بندے مار کر ہی سہی ایک ملک کی شہرت کا جب معاملہ ہو تو چند انسانی جانوں کی کیا حیثیت ؟

اگر باباۓ قوم اپنے اسلامی ملک میں زندہ ہوتے تو کیا ہوتا ؟ اور کچھ ہوتا نہ ہوتا ، جناح اپنے کیے پر ہر روز خبروں میں معافیاں مانگتے ، بار بار ختم نبوت والوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ، ٹی وی پر بیٹھے دانشوروں کی زد میں ہوتے اور گاندھی کے ساتھ تصویریں اتروانے پر تو غدار بھی کہلواتے ،۔

کہنا یہ چاہتا ہوں کہ جاؤ جناح ہم نے تمہیں معاف کیا ، ایک احمدی کو وزیر خارجہ بنانے پر ، ایک ہندو کو اسلامی ریاست کا قانون دان بنانے پر ، نجس جانوروں کے ساتھ تصویریں اتروانے پر ، شراب پینے پر اور الفرڈ فریڈرک آرتھر جارج ششم کی وفا داری کا حلف لینے پر اور اتنا مشہور اسلامی ملک بنانے پر جاؤ جناح ہم سب نے تمہیں معاف کیا۔

2 Comments