کیا محمد علی جناح ابہام کا شکار تھے؟

0,,17325470_303,00

بانیٴ پاکستان کی 139 ویں سالگرہ پر بھی یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ وہ کیسا پاکستان چاہتے تھے، اسلامی یا سیکولر؟ اس سوال پر پاکستانی قوم بدستور تقسیم ہے۔ چند مبصرین کے خیال میں جناح خود بھی اس بارے میں واضح نہیں تھے۔

پاکستان اسلام پسندوں اور لبرلز کے مابین شاید پہلے کبھی بھی اتنا منقسم نہیں تھا، جتنا کہ آج ہے۔ پاکستانی ریاست کیسی ہونی چاہئے؟ سیکولر یا اسلامی ؟ کیا پاکستان کے بانی محمد علی جناح، جن کی 139 ویں سالگرہ اس سال پچیس دسمبر کو منائی گئی ہے، ایک اسلامی ریاست کا قیام چاہتے تھے یا مسلم اکثریت والا ایک ایسا ملک، جہاں دیگر اقلیتوں کو بھی برابری کے حقوق حاصل ہوں؟ دکھائی یوں دیتا ہے کہ پاکستانی باشندے برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے عشروں بعد بھی واضح نہیں ہیں کہ پاکستان کو کس طرح کا ہونا چاہیے ؟

پاکستان میں بہت سے لوگ، جو ملک میں طالبان طرز کا اسلامی نظام حکومت نہیں چاہتے، وہ بھی کسی حد تک یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ملک کو اسلامی قوانین کے تحت ہی چلایا جائے۔ یہ لوگ پاکستان میں اکثریت رکھتے ہیں اور ملک میں سیکولرازم اور مغربی طرز زندگی کے مخالف ہیں۔ پاکستانیوں کی اکثریت کا دعویٰ ہے کہ جناح اور ان کی آل انڈیا مسلم لیگ پارٹی خالصتا ایک مذہبی ریاست چاہتی تھی، ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک ایسا ملک، جہاں کا نظام شرعی ہو۔ پاکستانی حکمران بھی گزشتہ چھ دہائیوں سے اسی نظریے کی تائید کرتے آئے ہیں اور کسی نہ کسی طریقے سے اسی کا پرچار کیا جاتا رہا ہے۔

دوسری جانب ملکی سیکولر طبقے کو یقین ہے کہ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کا خیال ہی خطرناک ہے اور یہی نظریہ ملک میں کئی عسکری تنظیموں کے قیام کی وجہ بنا ہے۔ ان کے مطابق جناح شراب پیتے تھے، مغرب کے تعلیم یافتہ آزاد خیال انسان تھے اور غیر روادار اسلامی ریاست نہیں چاہتے تھے۔ پاکستان کا زیادہ تر لبرل طبقہ تعلیم یافتہ اور شہروں میں آباد ہے۔ اس طبقے کے مطابق ملک میں ان کے لیے جگہ ختم ہوتی جا رہی ہے اور وہ بڑھتی ہوئی اسلامییت پر فکر مند ہیں۔

پاکستان کو ایک جدید سیکولر یا پھر اسلامی ریاست ہونا چاہیے، یہ بحث گزشتہ چند برسوں سے تیز ہوتی جا رہی ہے۔ اسلامی اور سیکولر پاکستانی دونوں ہی طبقے اپنے خیالات کی حمایت میں جناح کی تقاریر اور تحریروں کے حوالہ دیتے ہیں۔

ابہام

کراچی میں ہیومینیٹیز کے پروفیسر، اسلامی تاریخ اور فلسفہ کے ماہر ایس نعمان الحق کے خیال میں جناح خود بھی اس معاملے میں بہت واضح نہیں تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میرے خیال میں اس معاملے میں بہت ہی ابہام پایا جاتا ہے، یہ معاملہ واضح نہیں ہے۔ ان کے چند بیانات ایسے ہیں، جن سے بہت ہی واضح ہوتا ہے کہ وہ کس قسم کی ریاست چاہتے تھے جبکہ چند ایک واضح نہیں ہیں‘‘۔

نعمان الحق کا مزید کہنا تھا کہ لبرل طبقے کے ایسے دلائل کہ جناح ایک سیکولر پاکستان چاہتے تھے، زیادہ مضبوط نہیں ہیں، ’’ہندوستان سے علیحدہ ہونے کے فوری بعد جناح نے قانون سازوں سے اسلامی بینکاری نظام وضع کرنے کو کہا، اب آپ اس کو کیا سمجھیں گے؟‘‘ ان کے مطابق سیکولر بھارت کے برعکس معرض وجود میں آنے والی نئی ریاست پاکستان کی کچھ تو امتیازی خصوصیات ہونا تھیں۔ ان کے مطابق ’’جناح نے سوچا کہ یہ امتیازی پہلو مذہب ہی ہو سکتا ہے‘‘۔

نعمان الحق کے مطابق جناح کی ذاتی زندگی بہت ہی سیکولر تھی لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ ان کے ذاتی رویوں کا اثر ان کی سیاست پر بھی تھا، ’’بعض لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ جناح نے اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں بہت کچھ کہا تھا لیکن اقلیتوں کے بارے میں بات کرنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ وہ ایک سیکولر ریاست چاہتے تھے‘‘۔

لیکن کراچی میں بائیں بازو کی سیاست کے لیے کام کرنے والے سرتاج خان جناح کے بارے میں بہت واضح ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’جناح کی سیاست سیکولر تھی۔ وہ مسلمان نسلی گروپوں کی نمائندگی کرتے تھے نہ کہ مذہب کی‘‘۔

کراچی کے صحافی عامر اسحاق سہروردی کا کہنا ہے کہ جناح یقینی طور پر ایسا پاکستان نہیں چاہتے تھے، جیسا کہ وقت کے ساتھ ساتھ اب یہ ملک بن چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’’ یہ کہنا بہت ہی مشکل ہے کہ جناح ایک اسلامی یا پھر ایک سیکولر ریاست کا قیام چاہتے تھے۔ لیکن یہ ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ جناح ایک فلاحی ریاست چاہتے تھے۔ وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ ایک مخصوص عقیدے کا گروپ دوسروں پر غلبہ حاصل کرے‘‘۔

اکثر پاکستانیوں کے خیال میں جناح اور ان کی آل انڈیا مسلم لیگ پارٹی،پاکستان کی صورت میں خالص مذہبی ریاست چاہتی تھی ۔ایک ایسا ملک، جہاں کا نظام شرعی ہو،سہروردی کے اس خیال سے شیعہ کارکن سید علی مجتبیٰ زیدی بھی اتفاق کرتے ہیں، ’’مجھے یقین ہے کہ جناح ایسی ریاست نہیں چاہتے تھے، جہاں اسلام کے نام پر شہریوں کو قتل اور مذہبی اقلیتوں کو تنگ کیا جائے‘‘۔

مذہبی شناخت

اسلام آباد میں مقیم فلمساز اور سماجی کارکن وجاہت ملک تو موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ وہ تقسیم ہند کو ’بیس ویں صدی کی سب سے بڑی غلطی‘ قرار دیتے ہیں۔ ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں اُنہوں نے کہا،’’تقسیمِ ہند سے مسلمانوں کو کیا فائدہ ہوا، سوائے اس کے کہ اب وہ تین ملکوں (بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش) میں بٹے ہوئے ہیں اور نسلی اور فرقہ ورانہ تشدد کا سامنا کر رہے ہیں۔‘‘

اسلام آباد ہی کی ایک صحافی ماورا باری کے خیال میں مذہب کی بنیاد پر بننے والے کسی ملک کو لازمی طور پر مسائل کا ہی سامنا کرنا پڑے گا۔ ڈوئچے ویلے سے باتیں کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا،’’میں اگر ایک پاکستانی ہوں تو اس کا لازمی مطلب یہ نہیں ہے کہ میں مسلمان بھی ہوں۔ اسی طرح اگر کوئی مسلمان ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ زیادہ محب وطن بھی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ مذہبی نظریے نے پاکستانی شہریوں اور بالخصوص اقلتیوں کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔

لیکن صحافی سہروردی کے مطابق پاکستان کو اپنے زیادہ اہم مسائل کی طرف توجہ دینی چاہیے نہ کہ اس بحث میں وقت ضائع کیا جائے کہ تقسیم ہند کیوں ہوئی اور ملک کے بانی کیا چاہتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو بہت سے بحرانوں کا سامنا ہے جبکہ تعلیم، معیشت اور قوم کی تعمیر پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ دیگر کے خیال میں پاکستان اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتا، جب تک ملک کے پورے نظریاتی فریم ورک پر نظر ثانی نہیں کی جاتی۔

DW

Comments are closed.