خپل قام خپلہ پارٹی: ایک نظریہ ایک عظیم سیاسی فلسفہ

تحریر: عبدالحئی ارین

13

یہ ہماری تاریخ کا ایک بہت ہی نمایاں باب ہے ۔ ہماری مٹی نے ایسے بیٹوں کو بھی جنم دیا ہے جو اپنے وطن قوم اور انکے دفاع و استقلال کیلئے اپنے سر کو ہتھیلی پر رکھ کرکشور مادر کا دفاع کرتے ارہے ہیں جن میں روشنا ئی تحریک کے بانی بایزید روشان اور اس طرح ایمل خان ،دریا خان ،خوشحال خان خٹک ، میروس نیکہ ، احمد شاہ بابا، ایوب خان ،عبداللہ خان، بابائے استقلال غازی امان اللہ خان، باچا خان ، استاد نور محمد ترکئی ، ڈاکٹر نجیب اللہ، عبدالصمد خان اچکزئی ، اور دیگر سرباز پشتونوں نے اپنے وطن کی دفاع کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھ کر اپنے زیرک سیاست، بزم اور تلوار کے زور سے دشمن کے عزائم کو خاک میں ملادیااور اپنی تمام قوم و مٹی کو خودمختاری کا مالک بنادیا۔

خان عبد الصمد خان اچکزئی المعروف خان شہید وہ ہستی تھے جن کی سیاسی، ادبی اور صحافتی خدمات کے ہر پہلو پر یقیناً پی ایچ ڈی کیا جاسکتا ہے۔ تاہم آج پہلی بارخان عبدالصمد خان المعروف خان شھید کی زندگی کا ایک اور فلسفہ اس مضمون میں زیر بحث لایا جارہا ہے اور وہ ہے خان شہید کا نظریہ ’( خپل قام خپلہ پارٹی)۔ یہ نہ صرف ایک مشہور سیاسی نعرہ ہے بلکہ ایک عظیم سیاسی فلسفہ بھی ہے جو پشتونوں کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار خان شہید نے متعارف کروایا اور اس نظریے ساتھ آج لاکھوں سیاسی پیروکار منسلک ہیں۔اس سے پہلے کہ ہم خان شہید کے اس سیاسی فلسفے پر روشنی ڈالیں ،آئے اُس دور میں اس خطے بالخصوص پشتونوں کے خلاف جاری استعماری سیاست پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔

انگریز نے اپنی استعماری پالیسیوں کی برکت سے اٹھارویں صدی کے آخر میں ہند پر بالادستی حاصل کی اور اباسین کے ساحل تک پہنچ گئے چونکہ انگریز استعمار کو سب سے بڑا خطرہ افغان وطن سے تھا جس کی نشاندہی اُس وقت کے افغان بادشاہ شاہ زمان ، فرانس کے نیپولین اور ہندوستان کے ٹیپو سلطان کے اُس دور میں ایک دوسرے کے ساتھ خط و کتابت سے بھی معلوم ہوا ہے۔
انگریزوں نے آزا د افغانستان پر قبضہ کرنے کیلئے دو سیاسی منصوبے بنائے جن میں ایک منصوبہ جان لارنس نے پیش کیا تھاتھا جسے ماسٹرلی ۔ایکٹوٹی جبکہ دوسرا فارورڈ پالیسی کا منصوبہ تھا جسے لاٹسن، جان جیکب اور رابرٹ سنڈیمن نے پیش کیا تھا۔

فاروڈ پالیسی یہ تھی کہ افغانستان کی اپنی حکومت ہو لیکن اس کے سر پر انگریز کا ہاتھ ہو یعنی رابرٹ سنڈیمن تقسیم کرو اور حکومت کے نظرئے کے تحت افغانستان کو برٹش انڈیا کے زیر اثر لانا چاہتے تھے۔مختصراً یہ کہ انہوں نے افغانستان کے لئے سنڈیمن کی فارورڈ پالیسی پر عمل درآمد کرنا شروع کیا تھا۔
اس طرح انگریزاستعمار نے 19ویں صدی کے شروع میں پنجاب کے رنجیت سنگھ اور ایران کی مدد سے افغانستان پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی شروع کی اور اس کام کے لئے انہوں نے افغانستان کے مراعات یافتہ طبقوں اور ملاوں سے پورا پور کام لیا اور 1838میں افغانستان پر پہلا حملہ کیا۔اور 1838میں پہلا اینگلو افغان جنگ کے نتیجے میں افغانستان کے بادشاہ دوست محمد خان کو تخت سے ہٹا کر افغان وطن و مٹی کا واک و اختیار وطن فروش شاہ شجاع کے ہاتھ میں دیا۔
شاہ شجاع نے پشاور سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان تک (شمالی پشتونخوا) پنجاب کے رنجیت سنگھ کو دیا جو بعد میں انگریز وں کے حوالے کیا گیا اور انگریز وں نے دوسرے مرحلے میں پشاور سے افغانستان پر حملہ کیا اور پھر دوسری اینگلوافغان(1878) جنگ کے نتیجے میں افغان حکمران امیر شر علی خان کو شکست دے کر وطن دشمن و قوم دشمن یعقوب خان کو افغانستان کا حکمران بنایا۔

جس نے نام نہاد استعمار ی گندامک معاہدے کے تحت افغانستان کے علاقے کوئٹہ،سبی ٗ پشین ، (جنوبی پشتونخوا)اور کرامہ،میچنئی اور خیبر(وسطی پشتونخوا)کا واک و اختیارانگریزوں کے ہاتھ میں تھما دیا اور باقی افغانستان پر انگریز کی بالادستی کو تسلیم کیا اور پھر جب 1879میں افغان عوام میں قومی شعور بیدار ہوا تو انہوں نے کابل میں ایک انگریز کو قتل کیا اور اس طرح اسی سال جنرل رابرٹس کے حملے کے نتیجے میں افغانوں نے میوند کے میدان میں فرنگی کو تاریخی شکست سے دوچار کیا۔۔

اس کے بعدامیر عبدالرحمن کو افغانستان کا حکمران بنایا گیا۔جس نے 1893ء کو تیسری اور اخری ڈیورنڈ کے استعماری معاہدے کے تحت افغانستان کے مزید علاقے ژوب ،بورائی (لورالائی)اور وزیرستان ،سوات ،چترال و باجوڑ (وسطیٰ پشتونخوا)کے علاقوں پر انگریز کی بالادستی تسلیم کی اور اس طرح 1801سے لے کر 1893تک انگریز نے چترال سے لیکر بولان تک پشتون افغان وطن پر قبضہ کیا اوران کے افغانی شناخت کی پہچان ،ثقافت و جغرافیہ کو مسخ کرنے کیلئے ان علاقوں کو نہ صرف ایک دوسرے سے جدا رکھے بلکہ انھیں شمال مغربی سرحدی صوبہ (اٹک، میاں والی)، فاٹا اور برٹش بلوچستان جیسے غیر حقیقی اور پشتون دشمن ناموں سے منسوب کئے رکھا ۔
۔انگریزوں نے یہ تمام علاقے اپنے فارورڈ پالیسی کے ذریعے افغانستان سے علیحدہ کئے ان مقبوضہ علاقوں کو چار علیحدہ انتظامی یونٹ میں غیر فطری ناموں سے منسوب کیا تھا۔ جسے آج بھی پاکستان کے حکمرانوں نے جاری کیا ہوا ہے۔
۔برٹش بلوچستان برطانوی قبضے کے بعد انگریزوں نے جب بندوق، جبر اوراپنے فارورڈ پالیسی کے ذریعے افغانستان سے کچھ علاوہ قبضہ کرکے انھیں ہندوستان میں شامل کروائےاور پھر ان علاقوں کے افغانی شناخت، تشخص، فطری آزادی، تاریخ وثقافت مٹانے کے لئے وسطی پشتون علاقوں کو فاٹا،شمال کے علاقوں کو این ڈبلیوایف پی ، اٹک اور میاں والی کوصوبہ پنجاب میں شامل کرادیے۔ جنوب کے علاقے ژوب سے لے کر سبی تک کو برٹش بلوچستان جیسے غیر فطری وجغرافیائی ناموں سے موسوم کئے۔۔

یہاں پر پشتونوں نے انگریزوں کے اس استعماری جبر و تقسیم کے خلاف مختلف قو می تحریکوں کی شکل میں آواز اٹھائی اور مختلف پشتون قوم دوست(وطن پال) تحریکیں شروع ہوئیں۔ ان تحریکیوں کے نتیجے میں انگریزوں کو پشتونوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ دوسری طرف ہندوستان میں دوسری اقوام کی قومی تحریکیں بھی انگریزوں کے خلاف شروع ہو چکے تھے جن میں کانگریس سر فہرست ہے۔ انگریزوں کے خلاف جہاں ہندوستان میں قومی تحریکیں شروع ھوئی تھی وہاں پشاور سے لیکر کوئٹہ تک مقبوضہ پشتون وطن میں بھی سیاسی اور مسلحہ تنظیم بر سر پیکاررہے تھے۔

انہی سیاسی حالات اور پشتونوں کی تقسیم کے خلاف قلعہ عبداللہ عنایت اللہ کاریز کے ایک نوخیز نوجوان عبداصمد خان اچکزئی کو بھی یہ فکر اور قومی احساس لاحق ھوگئی تھی کہ اپنی مادر وطن کو نہ صرف انگریزوں سے ازاد کرانے کی ضرورت ہے بلکہ اس وطن کو ایک بار پھر متحد رکھنے کی ضرورت تھی، اس سلسلے میں اچکزئی نے عملی سیاست میں قدم رکھتےہوئے نہ صرف پہلی بار غازی امان اللہ خان کی مدد کیلئے بندوق اٹھا کر مسلح جدوجہد چاہی بلکہ کم عمری میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کے جرم کی پاداش میں جیل بھی گئے۔

شروع شروع میں آپ نے پشتون بلکہ بلوچ سندھی، سرائیکی ، پنجابی سب کے حقوق کیلئے ہر سیاسی پلیٹ فارم پر اواز اٹھائی ۔ سیاسی تحریک کا آغاز کرتے ھوئے 1939 میں اپنی سیاسی پلیٹ فارم ’انجمن وطن ‘ کی داغ بیل ڈالی ۔ اس پارٹی کا بنیادی مقصد پشتونوں، بلوچوں اور یہاں آباد دیگر مظلوم اقوام کی رہنمائی اور سیاسی جدوجہد کرکے انگریزوں کو اس خطے سے نکال دینا تھا۔

اور پھر جب 1929 میں خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان کی پارٹی ’ خدائی خدمتگار ‘ اور دیگر پارٹیاں کانگرس مین ضم ھوئی تو عبداصمد خان اچکزئی نے خپل قام خپلہ پارٹی کے نظرئے کے تحت اپنی پارٹی کانگریس میں ضم کرنے کی بجائے صرف کانگریس کیساتھ اتحاد بنایا۔ چونکہ اپ جانتے تھے کہ کانگریس یا دیگر پارٹیوں کیساتھ تو ا تحاد کیا جاسکتا ہے لیکن انکے پارٹی میں اپنی تحریک ضم کر کے وہ کبھی بھی اپنے قوم کے حقوق کیلئے موثر آواز نہیں اٹھا سکتے ہیں۔

اسی طرح آپ کانگریس کی مشترکہ پلیٹ فار م اور انجمن وطن کے پلیٹ فارم سے انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرتے رہے یہاں تک کہ کچھ ہی سال بعد میں آپ کی پارٹی کو کالعدم قرار دیگر اپکو جیل بھجوا دیا گیا تھا۔ کانگریس سے کیساتھ اتحاد اور انجمن وطن پارٹی میں شامل دیگر اقوام کے رویوں سے اچکزئی اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ کثیر القومی پارٹی ہر گز پشتونوں کے حقوق کیلئے یکسوئی اور سو فیصد کمیٹمینٹ کیساتھ جدوجہد نہیں کرسکتی،

اسلئے پشتونوں کے علیحدہ شناخت اور قومی وحدت کیلئے ضروری ہے کہ اُنکا اپنا نمائندہ پلیٹ فارم ہو، ایک ایسی تحریک ہو جس میں من حیث القوم وہ اپنی حیثیت منواسکے۔ یہیں سے اس عظیم نظرئے خپل قام خپلہ پارٹی کے نظرئے کی بنیاد پڑی، جو بعد میں ثابت بھی ہوا کہ کانگرس میں جو پارٹیاں ضم ھوئی تھیں، تقسیم ہندوستان کے وقت پشتون ایک علیحدہ حیثیت اور نمائندہ فریق کے طور پر سامنے نہ آسکی اور تقسیم ہند کے وقت کانگریس کو اپنی جدوجہد کے نتیجے میں بھارت اور مسلم لیگ کو پاکستان مل گئے اور پشتون قومی سوال سرے سے نیست رہا۔

جب 3جون 1947ء کو ہندوستان کو تقسیم کرنے کا منصوبہ تیار ہوا اور اس کے بعد ہندوستان کو پاکستان وبھارت میں تقسیم کیا گیا۔ انگریزوں نے افغانستان سے مقبوضہ علاقوں کے بارے میں یہ فیصلہ دیا کہ این ڈبلیوپی (صوبہ پشتونخوا) کو ریفرنڈم کے ذریعے جب کہ کمشنری صوبے ( کوئٹہ سمیت بلوچستان کے پشتون علاقے) کو شاہی جرگہ وکوئٹہ میونسپل کمیٹی کے ذریعے پاکستان یا ہندوستان میں شامل ہونے کا اختیار دیا گیا۔

بدقسمتی سے کانگریس اور مسلم لیگ مین پشتون قومی سوال کا مسئلہ نہ اٹھانے اور پشتونوں کی اپنی نمائندہ پارٹی نہ ھونے کی وجہ سے انگریزوں نے ان محکوم پشتون افغان علاقوں کےپشتونوں کو اپنا الگ ملک بنانے کا کوئی تیسرا اپشن نہیں دیا گیا تھا۔ اگرچہ 1945 میں خان شہید عبدا لصمد خان اچکزئی نے اپنے رفیق ، باچا خان کو ایک خط بھی لکھا تھا جس میں برطانوی ہند میں مقبوضہ پشتون علاقوں کو ہندوستان میں شامل کرنے کی بجائے علیحدہ پشتونستان کا مطالبہ برطانیہ اور ہندوستان کے کانگریس جماعت سے پشتونوں کیلئے بھی مطالبہ کرنے کا کہا تھا۔

ہندوستان کا صرف دو ملک پاکستان اور بھارت میں اس استعماری تقسیم کے خلاف پشتون رہنما خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان اور خان عبدالصمد خان اچکزئی سمیت اکثر سیاسی اور قبائلی رہنماوں نے اس غیر فطری تقسیم پر اپنے شدید رد عمل کا اظہار کیا اور اسے پشتون دشمن عمل قرار دیا تھا۔ باچا خان بابا نے کانگریس کی جانب سے پشتونوں کی قربانیوں اور جدوجہد کو نطر انداز کرنے پر اپنی شدید غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے گاندھی جی سے یہ تاریخی جملے کہے تھے کہ “ تم نے ہمیں(پشتونوں) کوبھیڑیے کے سامنے ڈال دیا ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کے بننے کے پوری بعد پشتون رہنماوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا۔ سیاسی، مذہبی اور قبائلی پشتون رہنماوں نے بنوں میں ایک بہت بڑا قومی جرگہ منعقد کیا جسمیں مشترکہ طور پر ایک قرار داد پاس کی گئی جمیں پاکستان کے پشتون علاقوں پر مشتعمل ایک ازاد ریاست کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس قرار داد کو بنوں قرار کا نام دیا گیا تھا۔

مملکت پاکستان کے قیام کے بعد 1954 میں پہلا ایوبی مارشل لا لگانے کے بعد نہ صرف نوازئیدہ جمہوریت کو ٹھکانے لگانے کی کوشش کی گئی بلکہ ملک میں دیگر اقوام کے تاریخ شناخت، جغرافعیہ، اور حقوق پر شب خون مارتے ھوئے ون یونٹ بنائی۔ یعنی بنگلا دیش ایک صوبہ جبکہ، سندھ، سرحد (صوبہ پشتونخوا)، پنجاب اور برٹش بلوچستان ( کوئٹہ سمیت بلوچستان کے پشتون علاقوں پر مشتمل کمشنری صوبہ) کو ختم کرکے مغربی صوبہ بنایا گیا۔ جسکے خلاف ملک کے مختلف پشتون، بلوچ، سندھی پنجابی اور بنگالی وطن دوست پارٹیوں نے آواز بلند کی اور ان سب نے اپنی اپنی پارٹیوں کو ضم کرکے نیشنل عوامی پارٹی کے نام سے ایک نئی پارٹی بنائی۔ نیب کا بنیادی منشور ،ون یونٹ کا خاتمہ کرکے صوبوں کی اپنی پرانی حالت میں بحالی، زبان اور قوموں کے بنیاد پر صوبوں کی تشکیل، صوبائی خود مختاری، جیسے مطالبات شامل تھے۔،

ایوب خان کے اس مارشل میں ون یونٹ کے خلاف خان عبدا صمد خان کی پارٹی نے ایک بار پھر صبر آزما جدوجہد شروع کی۔ جسکے باعث ایوب خان نے آپکو جیل بھجوا کر مارشل لا بچہ عدالت سے عمر بھر کی سزا دلوائی، اور آپ واحد سیاسی رہنما ہیں جس نے جنرل ایوب خان کے دور میں سب سے زیادہ جیل کاٹی۔

مختصر یہ کہ جب ان سیاسی پارٹیوں کی جدوجہد کے نتیجے میں یحییٰ خان نے ون یونٹ توڑا، تو یہاں ایک بار پھر یاروں نے دغا دیتے ھوئے نیب کے منشور سے انکار کیا۔ باقی تمام صوبے ون یونٹ سے پہلے والے حیثیت پر بحال ھوئیں لیکن چار حصوں میں منقسم پشتونوں کو ایک صوبے میں لانے کی بجائے نہ صرف انکی تقسیم کو برقرار رکھا گیا بلکہ کوئٹہ سمیت تمام پشتون علاقوں پر مشتمل برٹش بلوچستان والہ صوبہ بحال کرنے کے بجائے اسے بلوچ علاقوں کیساتھ غیر فطری طور پر ملا کر بلوچوں کیلئے بلوچستان کا صوبہ بنایا گیا۔یہاں پر دوسری بار خان صاحب کا نظریہ خپل قام خپلا پارٹی کا موقف ثابت ھوگیا کہ پرائی پارٹیاں کبھی بھی پشتونوں کی نمائند گی نہیں کرسکتیں۔

اسی طرح 1971 میں بنگلا دیش کی آزادی کے بعد موجودہ پاکستان کیلئے لوگوں کیلئے ایک ۱۹۷۳ میں نیا آئین بنایا گیا۔ اس آئین میں بھی پشتونوں کے حقوق سے انحراف کیا گیا، خان شہید کے بار بار اسرار کے باوجود پشتونوں کے چار حصوں میں تقسیم وجود کو ایک صوبے میں لانے اور اُسے دوسرے صوبوں کی طرح فطری نام دینے سے صاف انکار کیا گیا۔

آپ یہ جان چکے تھے اور اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ غلامی سے نجات حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پشتونوں کی اپنی نمائندہ جماعت ھو. 1947 میں کانگریس کی بے رخی، ون یونٹ کے خاتمے کے وقت اور 1973 کے ائین کی تشکیل کے وقت اپنوں کی بے وفائی کے نتیجے میں، خان عبد اصمد خان اچکزئی کا موقف بار بار ثابت ھوتا رہا کہ پشتون قوم کی نمائندگی پشتونوں ہی کی پارٹی کرسکتی ہے۔

بالاخر نیب کے دوستوں کے رویوں سے مجبور ھوکر خان شھید اور اُسکے پشتون رفقا نے پشتونوں کی نمائندہ جماعت نیشنل عوامی پارٹی پشتونخوا بنائی۔ تاکہ وہ اس مظلوم قوم کی صحیح معنوں میں رہنمائی کریں۔پشتون قوم کے حقوق کیلئے خان شہید نے نہ صرف اپنی جان کا نظرانہ پیش کیا بلکہ اپنی قیمتی زندگی کے تیس سال بھی قید بامشقت میں گزارے جو شاہد دنیا کے بہت کم رہنماوں نے گزارے ھونگے۔

لیکن افسوس کہ افریقہ کے نیلسن منڈیلا نے زندگی کے اٹھائیس سال جیل میں گزار کر نہ صرف افریقی قوم کے بلکہ تمام عالم کے اقوام کے ہیرو بن چکے ہیں لیکن خان شہید عبدالصمد خان نے جوانی سے لیکر بڑھاپے تک زندگی کے تیس سال جیل میں گزارے اور آج ہم اسکے تعلیمات و مشین کو ہم بھول گئے ہیں۔ آپ کو ٢ دسمبر کی رات کو بموں سے اس لئے اڑایا گیا تھا کیونکہ کہ آپ پشتون قوم کے بچوں کیلئے خوشحال، مترقی اور تابناک مستقبل کے خواہاں تھے۔

خان شہید چاہتے تھے کہ پاکستان کے پشتونوں کا ایک متحدہ صوبہ ہو جس کا نام پشتونستان ہو جسکی تصویر ہمیں خان شہید کا لاہور ھائی کورٹ کے اس بیان سے باخوبی معلوم ھوسکتا ہے۔

سنہ۱۹۵۶میں جب بابا پشتون عبدا صمد خان اچکزئی کو ایک قیدی کی شکل میں لاہور ہائی کورٹ کے روبرو پیش کیا گیا، تو ہائی کورٹ کے جج نے آپ سے استفسار کیا کہ آپ پر پشتونستان کا مطالبہ کرنے کا الزام ہے، تو بابا نے اپنے مدبرانہ لہجے میں جواب دیا۔

جناب والا: معزز عدالت جس چیز کو الزام کہہ رہا ہے، میری نظر میں وہ الزام نہیں بلکہ میری زندگی کا مقصد اور سیاسی جدوجہد کا بنیاد ہے۔ پشتونستان کا مطالبہ کرتے ھوئے مجھے کوئی عار یا شرمندگی محسوس نہیں ہورہی ہے۔ بلکہ میں اس بات پر فخر محسوس کر رہا ھوں کہ میں پشتونوں کیلئے پشتونستان کا مطالبہ کررہا ہوں۔

جج صاحب : کیا اپنے قوم کے بچوں کیلئے بہتر اور تابناک مستقبل چاہنا کوئی گنا ہ ہے؟ ۔ کیا انکے لئے عزت اور باوقار زندگی کی کوشش کرنا کوئی گناہ ہے؟ جج صاحب! میں اپنے قوم کے بچوں کیلئے بہتر تعلیم چاہتا ہوں اور وہ بھی اُنکی مادری زبان میں ۔ چونکہ یہ تمام عالم کے انسانوں کا مطالبہ ہے کہ بچوں کو مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کا حق دیاجائے ۔پشتونوں کو بھی اپنی ثقافت اور زبان کے ترویج کے مواقع ملنے چاہے۔ ۔ ہر پشتون کو بہتر روزگار کا حق حاصل ہو، انھیں بھی علاج معالجے کے بہتر سہولیات حاصل ہو۔۔ اپنی سرزمین کے وسائل پر انھیں اختیار دینے کا حق ہے۔ آزادی اور حق حاکمیت ہر انسان کا بنیادی حقوق میں سے ہیں۔

جج صاحب : آپکی یہ کال کوٹھریاں، جبر اور جیل کی صعوبتیں مجھے پشتونستان کے مطالبے سے ہر گز دستبر بردار نہیں کر سکتے۔ حتی کہ میری موت بھی نہیں بلکہ جبر اور استبداد کی یہ کارروایاں میرے نظرئے اور ارادے کو مزید پختہ کررہے ہیں۔

۔یہ ہے وہ ہمت جو بابا کی بڑھی ہڈیوں میں اخر دم تک جوان رہی اور اسی سوچ کیلئے اپنے نظریات پر سودا بازی کی بجائے اپنی قیمتی جان بھی دے دی۔ خان عبدا صمد اچکزئی نے نظریات اور قوم کے یکسوئی کیلئے اپنی قیمتی جان کا نظرانہ پیش کرکے نہ صرف تا حیات امر ہوچکے ہیں بلکہ اُس کے نظریات ،افکار اور فلسفہ ’ خپل قام خپلہ پارٹی ‘ سے اج بھی لاکھوں پشتون تسبیح کے دانوں کی طرح پرو ئے ہوئے ہیں۔

Comments are closed.