جلاوطنی کے درد سے آشنائی

ترجمہ و اضافہ : رزاق سربازی

111

میں جہاں جاتا ہوں، جرمنی میرے ساتھ ہے۔ میرا وجود جرمن ثقافت کو اپنے ساتھ لئے پھرتا ہے۔ جرمن ادیب توماس مان اپنی دھرتی سے بچھڑ کر جس درد سے آشنا ہوئے ، وہ جلاوطنی تھی۔ ایک روحانی کینسر ۔۔۔۔۔۔ اپنی جڑوں سے کٹ جانے کی وہ اذیت جسے کسی درماں سے سکون نہ ملے۔ جنگ و شورش اور سیاسی جبر سے تنگ پناہ ڈھونڈنے والے ہمیشہ سرگرداں رہے البتہ جرمنی کا جلاوطنی سے گہرا رشتہ ہے۔ ممکن ہے یہ بھی ایک وجہ ہو کہ آجکل جرمنی پناہ ڈھوندنے والوں کی پناہ گاہ بن چکا ہے۔ اس قوم کے بڑے ناموں نے دوسری جنگ عظیم کے پُرمصائب دنوں میں دربدری کا عذاب جھیلا۔ گھر سے دوری اور جان کی امان ڈھونڈنے کی تکلیف کو جرمن دوسروں سے شاید بہتر سمجھتے ہوں۔ آئن اسٹائن، والٹر بنیامین، توماس مان ، برتولت برشت جیسے نام جلاوطن ہوئے۔ نیچے ان کی جلاوطنیوں کی کہانی بیان کی گئی ہے۔

01آئن اسٹائن ( 1879 تا 1955 )۔

آئن اسٹائن کا دنیا کے سرکردہ سائنسدانوں میں شمار ہوتا ہے۔ ان کا تعلق یہودی گھرانے سے تھا۔1922  میں آئنسٹائن کو نوبل انعام  دیا گیا۔ سوئٹزرلینڈ میں کلرک کے طور پر کام کرنے والے آئن اسٹائن نے اپنے غیرمعمولی نظریات سے پوری دنیا کی سوچ کو بدل کر رکھ دیا تھا۔  1933 میں آئنسٹائن امریکہ کے دورے پر تھا اور جرمنی میں ہٹلر  نے اقتدار سنبھال لیا۔ وہ یورپ واپس پلٹ رہا تھا، تو بحری جہاز میں خبر ملی کہ جرمن پولیس نے اس کی کشتی رانی کی جھونپڑی پر چھاپہ مار کر ملک دشمن مواد تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ آئنسٹائن نے جرمنی کے بجائے بیلجئم پہنچ کر ڈیرے ڈالے۔ یہاں اس نے نازی جرمنی کے خلاف جنگی تیاریوں کی حمایت کی۔ اسی سال آئنسٹائن امریکہ منتقل ہو گیا۔ ہٹلر کی قیادت میں نازیوں کے برسراقتدار آنے کے باعث وہ دوبارہ جرمنی نہیں لوٹے، وہیں جلاوطنی اختیار کی۔

02کُرت توشولسکی ( 1890 تا 1935 )۔

وہ جرمنی کے معروف صحافی، شاعر و طنزنگار تھے۔ برلن میں یہودی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ یہودی، طنزنگار اور سوشلسٹ صحافی ہونے کی صورت میں وہ نازیوں کیلئے ناقابلِ برداشت تھے۔ ہٹلر کی نیشنل سوشلزم پارٹی کے برسراقتدار آنے پر ان کی جرمن شہریت منسوخ کرکے انہیں سویڈن جلاوطنی کیا جاتا ہے۔ ان کی کتابیں نذر آتش کی جاتی ہیں۔ جرمنی سے آنیوالی مایوس کُن خبروں اور گھٹن زدہ ماحول سے دلبرداشتہ ہوکر وہ خودکُشی کرلیتے ہیں۔ پین سویڈن نے ان کے اعزاز میں 1984 میں ایک ایوارڈ کا اعلان کیا۔ جسے حاصل کرنے والوں میں سویتلانا الیکسویچ ( جنہیں اس سال نوبل انعام برائے ادب سے بھی نوازا گیا ) سلمان رُشدی، تسلیمہ نسرین اور دیگر نام شامل ہیں۔ اس ایوارڈ میں000 15 یورو کی رقم بھی شامل ہے۔ ہر سال یہ ایوارڈ ان مصنفین یا ناشرین کو دیا جاتا ہے جو اپنی تخلیقات کے باعث جبرو تشدد کا شکار بنے ہیں۔

03والٹر بنیامین ( 1892 تا 1940 )۔

والٹر بنیامین ، مکتبہ فرینکفرٹ سے تعلق رکھنے والے فلسفی و ثقافتی نقاد تھے۔ انہوں نے ہنری ڈی بالزاک اور پروست کی تخلیقات کا جرمن زبان میں ترجمہ کیا۔ ان کا تعلق بھی یہودی گھرانے سے تھا۔ نازیوں کے برسراقتدار آنے کے بعد فرانس جاکر جلاوطنی کے درد سے آشنا ہوئے۔ وہ امریکا جانا چاہتے تھے لیکن فرانس اور اسپین کی سرحد پر ان کو رکاوٹیں پیش آتی ہیں۔ نازی سیکرٹ ایجنسی ( گستاپو ) کے ہاتھوں گرفتاری سے بچنے کیلئے خودکشی کرلیتے ہیں۔

18ھانا ہرندت ( 1906 تا 1975 )۔

جرمنی میں ھانا ہرندت بیسویں صدی کے فلسفیوں و مفکروں میں ایک اہم نام ہیں۔ انہوں نے یہودی خانوادے میں آنکھ کھولی۔ ہرندت ہوسرل، ہیڈگر اور یاسپرس کی شاگرد رہیں۔ فلسفہ و سیاسی نظریات کے میدان میں ان کی کتابوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ان کے سیاسی خیالات اور یہودی ہونا نازیوں کیلئے قابل قبول نہ تھا، وہ ناچار پہلے فرانس پھر امریکہ جلاوطن ہوئیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد انہوں نے جرمنی کا سفر کیا۔

07برتولت برشت (1898 تا 1956 ) ۔

تھیٹر کی دنیا سے لگاؤ رکھنے والے برتولت برشت کے نام سے ضرور آشنا ہونگے۔ اسٹیج ڈرامہ کے بانیوں اور شاعری میں ان کا مقام اونچا ہے۔ نازیوں کے زمانے میں انہوں نے فرانس میں جلاوطنی کی راہ لی۔ اس دوران جرمنی میں ان کی کتابیں آتش و پابندی کی نذر ہوئیں۔ جلاوطنی کا کچھ عرصہ انہوں نے ڈنمارک، سویڈن، فن لینڈ میں بھی گزارا۔ 1941 میں وہ امریکہ منتقل ہوگئے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد وہ واپس جرمنی آکر اپنے ادبی  شغل میں لگ گئے۔

04ارنسٹ بلوخ ( 1885 تا 1977 )۔

بلاخ، جن کی فلاسفی کو فلسفہ ِ امید بھی کہا جاتا ہے، ایک مارکسسٹ تھے۔ برتولت برشت اور کُرت توشولسکی کے دوست تھے۔ ان کے سیاسی نظریات ہٹلر کی قیادت میں حکومت وقت کو قبول نہ تھے لہذا ان کے حصے میں بھی جلاوطنی آئی۔ جنگ عظیم کے بعد پہلے وہ ، اس وقت کے مشرقی جرمنی میں قیام پذیر ہوئے جبکہ کچھ عرصہ بعد مغربی حصے میں منتقل ہوئے۔

16میکس ہورکئیمر ( 1895 تا 1973 )۔

میکس ہورکئیمر مکتبہ فرینکفرٹ کے بانیوں میں شامل تھے۔ ان کے خیالات و افکار اور تخلیقات کے باعث وہ نازیوں کی آنکھوں میں کھٹکتے تھے۔ وہ سوئٹزرلینڈ اور پھر امریکا منتقل ہوئے۔ انہوں نے کافی عرصہ جلاوطنی کا ذائقہ چکھا۔ ہورکئیمر نے مارکس، ہیگل اور فرائڈ کے نظریات کے جواب میں تنقیدی نظریہ کی بنیاد رکھی۔ 1960 کی دہائی میں اس کے نظریات نے طالب علموں کی تحریک کو خاصا متاثر کیا۔

11کُرٹ وائل ( 1900 تا 1050 ) ۔

یہودی خانوادے سے تعلق رکھنے والے کُرٹ وائل ، بیسویں صدی کے جرمنی میں ایک معروف موسیقار و آہنگساز تھے۔ ان کو دورانِ جوانی شہرت حاصل ہوئی۔ نازی وائل کی ترتیب دی گئی موسیقی سے نفرت کرتے اور اسے فاسد و زوال پذیر خیال کرتے تھے لہذا ان کو خاصے مصائص اٹھانا پڑے۔ 1933 میں انہیں ناچار فرانس بھاگنا پڑا۔ دو سال وہاں رہنے کے بعد امریکا چلے گئے اور ساری عمر وہیں گزار دی۔

09تھیوڈور ایڈورنو ( 1903 تا 1969 )۔

تھیوڈور سوشیالوجسٹ، موسیقی کے نقاد اور مکتبہ فرینکفرٹ کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ خانوادے کے لحاظ سے نصف یہودی تھے۔ آکسفورڈ پڑھنے گئے اور وہاں اپنی تخلیقات کا اہم کام انجام دیا۔ وہ 1938 امریکا ہجرت کرگئے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد جرمنی لوٹے۔ ان کا خاص موضوع ، معاشرتی پابندیوں و جنگ عظیم دوم کے بعد کی دہائیوں کے پروپیگنڈے سے ، فرد کی آزادی تھا۔

05ایرک فرام ( 1900 تا 1980 )۔

ایرک فرام نے فرینکفرٹ شہر کے یہودی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ وہ معروف سماجی نفسیات دانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ نازیوں کے دور میں ان کے پاس جلاوطنی کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ وہ 1934 میں امریکا جاکر بس گئے۔ ایرک فرام کے فلسفہ کی رو سے فرد کی تربیت اس کا سماج کرتا ہے۔

13لیا گروندگ ( 1906 تا 1977 ) ۔

جرمن مصور و گرافک آرٹسٹ گروندیگ نے ایک یہودی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ وہ خاندان کے مذہبی اعتقادات سے گریزاں رہی۔ انہوں نے 1926 میں جرمن کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ نازی جماعت کے برسراقتدار آنے کے بعد ان کی مصوری پر ناصرف پابندی لگادی گئی بلکہ انہیں تفتیشی عذاب سے بھی گزرنا پڑا۔ ان کو اس وقت نجات ملی جب جرمنی سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئیں۔ انہوں نے جلاوطنی کا عرصہ فلسطین میں گزارا۔ جنگ عظیم ختم ہونے کے چار سال بعد وہ اپنے ملک لوٹیں۔

10توماس مان ( 1875 تا 1955 ) ۔

نوبل انعام یافتہ جرمن ادیب توماس مان اس وقت ملک سے باہر تھے جب 1933 میں نیشنل سوشلسٹ برسراقتدار آئے۔ وہ جرمنی لوٹنے کے بجائے کچھ عرصہ فرانس و سوئٹزرلینڈ میں رہنے کے بعد 1938 میں امریکا چلے گئے۔ انہوں نے اس دوران جلاوطنی کے درد پر لکھا: میں جہاں جاتا ہوں، جرمنی میرے ساتھ ہے۔ جرمن ثقافت کو اپنے وجود کیساتھ لئے پھرتا ہوں۔

12کلاؤس مان ( 1906 تا 1949 ) ۔

کلاؤس مان، نوبل انعام یافتہ ادیب توماس مان کا بیٹا تھا۔ ان کا شمار بیسویں صدی کے اہم جرمن مصنفین میں ہوتا ہے۔ وہ ہٹلر کی حکومت کے آغاز سے ان کیخلاف سرگرم تھے۔ جرمنی سے فرار کے بعد یورپ کے دیگر ملکوں و امریکا میں رہ کر بھی نازیوں کے خلاف فعال رہے۔ امریکا جلاوطنی کے دنوں میں انہوں نے اپنا ناول ” آتش فشاں “ مکمل کیا۔ جو ان کے مصائب حالات اور ہٹلر کے زمانے میں دیگر جلاوطن جرمنوں کی زندگی کی کہانی بیان کرتا ہے۔

08پال کلے ( 1879 تا 1940 ) ۔

وہ اپنے وقت کی جرمن مصوری اور گرافک آرٹ کی دنیا کے بڑے نام تھے۔ ڈوسلڈورف شہر کی آرٹ اکیڈمی میں دو سال تک استاد رہے۔ جب نازیوں نے ریاستی طاقت حاصل کی۔ پال کلے سے کہا گیا ، وہ ثابت کریں، وہ یہودی نہیں بلکہ آریائی النسل ہیں۔ پال کلے نے پہلے ان کا حکم ماننے سے انکار کیا پھر کچھ دستاویزات پیش کیں تاہم نازی ریاست نے ان کی تخلیقات کو زوال آمادہ قرار دیا۔ ناچار وہ جرمنی چھوڑ کر سوئٹزرلینڈ میں جلاوطنی پر مجبور ہوئے۔

14مارلینے دیتریخ ( 1901 تا 1992 ) ۔

مارلینے جرمنی کی پہلی خاتون اداکارہ تھیں جنہوں نے ہالی ووڈ میں قدم رکھا اور عالمی شہرت حاصل کی۔ دوسری جنگ عظیم کے دنوں میں ہٹلر نے اسے امریکا سے واپس جرمنی آکر نازیوں کیساتھ کام کرنے کی دعوت دی۔ مارلینے نے ان کی درخواست مسترد کردی۔ جس کے نتیجے میں جرمنی میں ان کی فلموں کی نمائش پر پابندی لگی اور اس کے تمام پوسٹر در و دیواروں سے ہٹادیئے گئے۔ وہ ہالی ووڈ کی مصروف اداکارہ رہ کر امریکیت میں ڈھل نہ پائی۔ ان کا جرمن لہجہ ان کی انگریزی میں اپنی جھلکیاں دکھاتی رہتی تھی۔

15میکس ارنسٹ ( 1891 تا 1976 )۔

میکس جرمنی کی مصوری کی دنیا کا اہم نام تھا۔ وہ شاعر تھے۔ گرافک آرٹسٹ تھے۔ بیسویں صدی میں آرٹ کی دنیا میں سامنے آنے والی آرٹ تحریک ، دادائزم اور سرریئلزم ، کے بانیوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ سال 1933 میں وہ بھی نازیوں کی زد میں آگئے۔ ان کی تخلیقات کو انحطاط پذیر قرار دے دیا گیا۔ اس جرمن فنکار نے پہلے یورپی ممالک میں رہ کر جلاوطنی کے کڑوے گھونٹ پئے۔ 1941 کو پرتغال سے امریکا چلے گئے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد انہوں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ فرانس و امریکا میں گزارا۔

21ویلی برانڈت ( 1913 تا 1992 )۔

وہ تیس کی دہائی کے آغاز سے ہی جرمن سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کے رکن تھے۔ ہٹلر کے برسراقتدار آنے کے بعد وہ ناروے اور سویڈن میں رہے جہاں انہوں نے نام بدل کر ایک لیفٹیسٹ صحافی کے طور پر کام کیا اورنازی رژیم کیخلاف سرگرم رہے۔ جرمنی کے دونوں حصوں کے اتحاد سے قبل ویلے 1969 سے لے کر 1974 تک مغربی جرمنی کے چانسلر رہے۔ 1971 میں انہیں نوبل انعام سے نوازا گیا۔

04ارنسٹ کاسیرر ( 1874 تا 1945 )۔

ارنسٹ جرمنی کے معروف فلسفی اور مورخوں میں سے ایک تھے۔ جرمنی جب نازیوں کے ہاتھ لگا، وہ اپنی دھرتی چھوڑ گئے۔ کچھ عرصہ برطانیہ میں گزارکر سویڈن آگئے۔ جہاں سے وہ امریکا چلے گئے۔ کاسیرر جلاوطنی کے دنوں میں ایک استاد کی حیثیت سے پڑھاتے رہے۔ وہ آکسفورڈ و کلمبیا یونیورسٹی میں مہمان استاد کی حیثیت رکھتے تھے۔

17نیلے زاکس ( 1891 تا 1970 )۔

نیلے ایک شاعرہ، پلے رائٹر تھیں۔ یہودی گھرانے میں ان کی پیدائش ان کیلئے جرم ٹھہری۔ نازی ریاست کے دنوں میں گستاپو کے زیر تفتیش رہی تاآنکہ 1939 میں ان کو جرمنی سے سویڈن فرار کا موقع ملا تب ان کی زندگی میں سکون کا لمحہ آیا۔ وہ آخر عمر تک اسٹاک ہوم میں رہیں۔ انہیں ان کی شاعری پر 1966 میں ادب کا نوبل انعام ملا۔ وہ اپنے مجموعہ اشعار ” خانہ ہائے مرگ “ میں ہولوکاسٹ و یہودیوں کی سرگزشت بیان کرتی ہیں۔

06ایرک ماریا رمارک ( 1898 تا 1970 ) ۔

جرمن ادیب و صحافی، جس کے جنگ مخالف ناول کو بین الاقوامی شہرت ملی۔ ان کا ناول ” مغرب میں کوئی خبر نہیں “ چھپا تب ان کے ناول کو تنازعات کا سامنا کرنا پڑا۔ ناول نے رائے عامہ کو متاثر کیا تھا لہذا خبر ہالی ووڈ کے کانوں تک جا پہنچی اور ایک فلمساز نے، 1930 میں ، اس پر فلم بھی بنا ڈالی۔ نازی ابھی ریاستی طاقت کے مالک نہیں بنے تھے تاہم جب فلم برلن کے سینما گھروں میں پیش کی گئی، ہٹلر کی جماعت نیشنل سوشلزم کے حامیوں نے سنیما گھروں میں توڑ پھوڑ کی اور فلم کو چلنے نہ دیا۔ کچھ ہی وقت میں حکومتِ وقت نے یہ کہہ کر فلم پر پابندی لگادی کہ : فلم جنگ کے بارے میں نہیں بلکہ جرمنی کی جنگی شکست کے بارے میں ہے۔ ہٹلر کے برسراقتدار آنے سے قبل ، نازیوں کیلئے ، ان کے نظریات ناقابلِ قبول ٹھہرے تھے۔ نازیوں کے زمانے میں پہلے وہ سوئٹزر لینڈ اور پھر 1939 میں امریکا جلاوطن ہوگئے۔

بشکریہ: ڈوئچے ویلے

ار

Comments are closed.