مکالمہ اور امن

kamraniڈاکٹر سنتوش کامرانی

بات چیت

اس کالم کا عنوان بات چِیتاس لئے رکھا گیا ہے کہ جو طاقت بات چِیت، گفتگو اور مکالمے میں ہے، وہ دنیا کے کسی چاقو، پسٹل، گَن، توپ یا ا یٹم بم میں بھی نہیں ہے۔ جو مسئلہ آپ بات چِیت کے ذریعے سہولت اور آسانی سے حل کر سکتے ہیں، وہ نتیجہ کسی لڑائی، مار کٹائی کے بعد حاصل نہیں کیا جا سکتا۔

آپ تاریخ کے ہزارہا برس کا مطالعہ کر لیجئے، آپ کو صرف ایک ہی سبق حاصل ہوگا اور وہ یہ کہ جنگ ہمیشہ ایک مسئلہ رہی ہے نا کہ کسی مسئلے کا حل۔ جب دنیا کی آبادی بہت تھوڑی تھی، نہ بہت سے مذاہب تھے، نہ عقائد، نہ نظریات کی بہتات تھی اور نہ ہی فلسفوں کی بھرمار، تب بھی بات سننے اور سمجھنے کا کامیاب ترین ذریعہ بات چِیت اور مکالمہ ہی تھا۔

آج جب دنیا کی آبادی تقریباً ساڑھے سات ارب تک پہنچ چکی ہے، تو ایسے میں کوئی یہ توقع کیسے کر سکتا ہے کہ آپ گولی اور دھونس و دھاندلی کے زور پر، بغیر مکالمے کے کسی پہ اپنی رائے مسلط کر یں ، چاہے وہ آپ کی رائے آپ کے لئے کتنی بھی محترم و مقدس کیوں نہ ہو۔ اگر آپ کی رائے منطق کے بجائےصرف عقیدے کی بنیاد پہ کھڑی ہے تو یقین جانئے کہ اکیسویں صدی میں بحیثیت ایک گلوبل شہری کے آپ کی بات کسی اور پر مسلط نہیں کی جاسکتی۔

ایک ایسی دنیا میں جہاں آپ روزمرہ کی بنیاد پر دنیا کے کسی بھی کونے میں بسے ہوئے، کسی بھی مذہب، مسلک، ثقافت، رِیت و رواج، زبان، لہجے اور بہت ہی متنوع اقسام کے پس منظر میں رہنے اور جینے والے مرد و زن سے نا صرف مخاطب ہیں بلکہ ان سے اثر بھی لے رہے ہیں، اور ان پر کسی نہ کسی طرح اثر انداز بھی ہو رہے ہیں،تو ایسے میں صرف رواداری اور برداشت ہی ایک ایسا راستہ ہے جس پر چل کے اس دنیا کو امن وآشتی کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے۔

یاد رکھئیے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جو 200 ممالک پر مشتمل ہے، جہاں سینکڑوں ثقافتیں روزانہ کی بنیاد پر ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں، جہاں بِیسیوں مذاہب اپنے اپنے مذہبی اور مسلکی فرق کے ساتھ اپنی شناخت اور دوسروں کے احترام کا رشتہ برقرار رکھنے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں، جہاں دَسِیوں صنفی اور سوچ کے تضادات آپس میں گتھم گتھا ہیں، وہاں کوئی کیسے یہ امید رکھ سکتا ہے کہ کوئی ایک اپنے خیالات و نظریات کی بنیاد پر ساری دنیا کو اپنے جیسا بنا سکے گا!

اگر ہم پانچ سے دس ہزار برسوں کی معلوم دنیا کا بغور مطالعہ کریں تو بہت ہی آسانی سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ کبھی بھی اور کسی بھی دور میں ایسے خیالات و نظریات مستقل بنیادوں پر لوگوں کی دلوں اور زندگیوں کا حصہ نہیں بن پائے جو منطق کے بجائے عقیدے کی بنیادوں پر استوار کئے گئے ہوں۔ بدلتی دنیا اور آپس میں ضم ہوتے خیالات و نظریات اور سوچ و ثقافتوں کو اگر ہم سمجھیں گے نہیں، اور اگر ہم تنوع کا احترام کرتے ہوئے سب کے ساتھ چلنے کی روش نہیں اپنائیں گے تو نا تو ہم امن کے ساتھ دوسروں کے ساتھ چل سکیں گے اور نا ہی دوسرے ہمارے ساتھ اعتماد کا رشتہ استوار کر سکیں گے۔

اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ذاتی اور اجتماعی سطح پر ہمیں ساری دنیا کے افراد سے عزت و احترام سے پیش آنے اور جیو اور جینے دو کے تحت برداشت و رواداری کاحوصلہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم سب صرف ایک بات سمجھ لیں کہ جس طرح ہمیں اپنے مذہب، مسلک، ثقافت اور رسم و رواج پے رہنے کی پوری آزادی ہے، ایسے ہی یہی آزادی دوسروں کو بھی ہے کہ وہ بھی اسی آزادی کا مکمل استعمال کرسکتے ہیں۔ کرنا ہم سب نے یہ ہے کہ اپنے خیالات و نظریات کو دوسروں پہ مسلط نہ کریں اور کسی کو بھی مجبور نہ کریں کہ وہ ہماری رسم و روایات کی پیروی کرے، بلکہ جہاں تک ممکن ہو ہم دوسروں کے خیالات و نظریات میں مداخلت دئے بغیر،اور بغیر نمود و نمائش کے اپنے اصولوں پے چلتے رہیں گے تو یقیناً ہم اپنے بچوں کو ایک بہتر دنیا میّسر کر سکتے ہیں۔

ڈاکٹر سنتوش کمار، ڈویلپمنٹ ورکر ہیں ۔انسانی حقوق اور بین المذاہب مکالمے اورتعلیم کے شعبے سے منسلک ہیں۔

Comments are closed.