اہل کراچی کا فیصلہ

عظمٰی اوشو

Waseem-Akhtar

کراچی کا بلد یاتی الیکشن اپنے نتائج کے لحاظ سے حیران کن تھا ۔کراچی میں جاری آپریشن کے بعد ،جس کی زد میں سب سے زیادہ ایم کیو ایم کے ارکان آئے ہیں، ان نتائج کی توقع نہیں کی جا رہی تھی۔اس آپریشن میں ارکان کی پکڑ دھکڑ ،ایم کیو ایم کے دفاترز پر چھاپے یہاں تک کہ نائن زیرو پر چھاپہ اوراس کے بعدکے دعوے کے انتہائی مطلوب افراد کو نائن زیرو سے حراست میں لیا گیا ہے، سب پروپیگنڈا نکلا۔

پھر حسب ضرورت حلقہ بندیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ کراچی کے ہر سیکٹر میں صلیب اور سلاخوں کی محفل سجائی گئی ۔اس ساری صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ قیاس آرائی کی جارہی تھی کہ اب کراچی میں ایم کیو ایم کا سیاسی مستقبل ختم ہو گیا اور کراچی تحریک انصاف کی گود میں آنے والا ہے ۔ کیونکہ کہا جاتا تھا کہ ایم کیو ایم نے آج تک تمام الیکشن بندوق کے زور پر جیتے ہیں اور اب رینجرز کی موجودگی میں ایسا نا ممکن ہے اس لے ناکامی کا طوق ایم کیو ایم کے گلے پڑنے والا ہے۔

میڈیا میں ایسٹیبلشمنٹ کے پروردہ اینکر پرسن اور سیاسی تجزیہ نگار بڑے اعتماد سے یہ کہتے اور سنے گئے کہ اب کراچی والے خوف سے نکل آئے ہیں اور آزادی سے اپنا فیصلہ کریں گے اوریقیناًیہ فیصلہ ایم کیو ایم کے خلاف ہی ہو گا ۔مگر جوں جوں بلدیاتی الیکشن کے نتائج آنا شروع ہوئے، سارے تجزیے دھرے کے دھرے رہ گئے ۔

ان نتائج نے کئی سوالات کو جنم دیا ،پہلا یہ کہ منہ زور میڈیا اور بے لگام سوشل میڈیا کے دور جس میں ایک کلک سے آپ اپنا پیغام دنیا کے کسی بھی کونے میں پہنچا سکتے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک سیاسی جماعت ایسے شہر کو یرغمال بنا کے رکھے جسے پاکستان کی معیشت کا گڑھ کہا جاتا ہے ۔

دوسرے کیا تحریک انصاف کوواقعی ایک سیاسی جماعت کہا جا سکتا ہے یا اس کے لیے ایک پریشر گروپ کا نام ز یادہ بہتر ہے اور پریشر گروپ کبھی بھی عوام کی حمایت حاصل نہیں کر پاتے ۔

تیسرا سوال کیا کراچی میں جاری آپریشن کو عوام کی حمایت حاصل ہے۔ اگر ہے تو ایم کیو ایم کی الیکشن میں کا میابی سے اس آپریشن پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے ۔

چوتھا سوال کیا ایم کیو ایم کو کٹہرے میں لا کر اس جماعت کی نئی قیادت تیار کی جارہی ہے اور بلدیاتی انتخابات اس کی ریہرسل تھے۔

ان سوالات کے جواب ڈھونڈے جائیں تو میری ناقص عقل یہ کہتی ہے کہ ایم کیو ایم مہاجروں کی حقیقی نمائندہ جماعت ہے اور مہاجر اپنی جماعت سے خاص لگاؤرکھتے ہیں ۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ایم کیو ایم سے کچھ غلط فیصلے ہوئے اور پارٹی کے نام و کچھ جرائم پیشہ افراد نے استعمال کیا مگر اس کے باوجود پارٹی کی جڑیں مضبوط رہیں۔

دوسری طرف غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ کراچی کے بگاڑ میں بڑا کردار رینجرز کا بھی ہے اور اسے کاروباری اور پڑھا لکھا طبقہ خوب سمجھتا ہے۔ بڑے بڑے کاروبارز کے لین دین اور خریدوفروخت میں رینجرز شامل ہوتی ہے ۔

تیسری بات یہ کہ ایم کیو ایم کی جگہ لینے کے خواب دیکھنے والی تحریک انصاف ، عوام کی نبض پار ہاتھ رکھنے سے تا حال نا کام ہے۔ تحریک انصاف یہ تاثر کو زائل نہیں کر سکی کہ یہ جماعت ون مین شو ہے۔ سیاسی بصیرت سے تحریک انصاف کا جائزہ لیا جائے تو عمران خان کے بعد سکینڈلیڈر شپ نظر ہی نہیں آرہی۔اگر جو چہرے نظر آتے بھی ہیں تو یہ وہی چہرے جو سالوں سال دوسری جماعتوں میں اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ہیں اور اب اسی نظام کو تبدیل کرنے کی رام کہانی سناتے نہیں تھکتے ۔

اور چوتھی بات جو فی الحال پس پردہ ہے وہ ایم کیو ایم اور آل پاکستان مسلم لیگ کا انضمام ہے۔قیاس ہے کہ جنرل الیکشن سے پہلے ایک بڑی سیا سی تبدیلی متوقع ہے اور یہ تبدیلی کراچی سے آئے گی جس میں ایم کیو ایم کا اہم رول ہو گا۔ ایم کیو ایم کی قیادت میں بڑی تبدیلی کی قیاس آرئیاں کی جارہی ہیں۔

شنید ہے کہ پرویز مشرف جو کہ خود بھی مہاجر ہیں کو ایم کیو ایم کی قیادت سونپی جائے گی اور آئندہ الیکشن سے پہلے پرویز مشرف کو تمام مقدمات میں کلین چٹ دے دی جائے گی اور الیکشن میں ان کی بھر پور شرکت کی توقع کی جا رہی ہے۔


2 Comments