روم کے غلام

مہرجان

Dr.-Abdul-Malik

میں یہاں اسپارٹیکس کی بات نہیں کر رہا بلکہ ڈاکٹر مالک بلوچ  کی بات کر رہا ہوں جو وزارت اعلیٰ کے مسند سے سبکدوش ہوتے ہی نہایت معصومانہ انداز میں یہ کہہ بیٹھے کہ میں بطور وزیر اعلئ روم کے غلاموں کی طرح کام کرتا رہا ۔

رومن ایمپائر جب تمام تر سرکاری مشینری استعمال کرکے بھی ڈاکٹر مالک کی الیکشن میں برتری کو قائم نہ رکھ سکی تو پھر وہی پرانے حربوں کے ذریعے اس غلام کو اسپارٹیکس کے سامنے لاکھڑا کردیا کہ شائد نیرو(حاصل بزنجو) جو کہ اسلام آباد میں بیٹھ کر اقتدار کے رستوں کو ہموار کررہا تھا  کسی نہ کسی طریقے سےاسپارٹیکس کو زیر نگوں لا سکے۔

یہی ان کی پہلی اور آخری کوشش تھی لیکن وائےحسرت…. اسپارٹیکس تو اب بھی پہاڑوں میں اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے اور اس غلام سے اقتدار واپس لے لیا گیا جبکہ نیرو (حاصل بزنجو)بیچارہ اسلام آباد میں بانسری ہی بجاتا رہ گیا۔

ڈاکٹر مالک نہایت ہی چالاک۔دیانتدار نکلے ان کا یہ فخر بلوچ قوم پر ہمیشہ احسان ہی رہیگا کہ انہوں نے کینٹ میں کوئی بنگلہ نہیں لیا شائد اس سے پہلے جتنے بھی وزرائےاعلی آئے ہیں ان سب کا پہلا کام کینٹ میں بنگلہ ہی لینا تھا۔ یہ پہلا وزیر اعلیٰ ہے جنکا نام تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا کہ سدرن کمانڈ سے اتنی دوستی اور یاری کے باوجود کینٹ میں اک عدد بنگلہ  بھی نہیں لیا فقط اپنے آقاؤں کی ابدی خوشنودی حاصل کر لی۔

ویسے اس روم کے غلام سے کوئی یہ تو پوچھے کہ آواران ,مشکے, کوہلو, بولان سمیت جتنے بھی آپریشنز ہوئے اور جتنے بھی درودیوار نذرآتش کیے گئے اس وقت مزاج_ غلامانہ پہ کیا کچھ گزر رہی تھی؟

مسخ شدہ لاشوں کے ساتھ ساتھ اجتماعی قبرستان عورتوں  کا اغواہ ریکوڈک سے لے کر گوادر تک  کی سوداگری  کے وقت نیرو کے بانسری کے کیا سر وتال تھے۔ڈاکٹر مالک کو مڈل کلاس کے نام پہ لایا گیا گرچہ سرداروں کا ریوڑ انکی پارٹی کا لازمی جزو بن چکےہیں۔

سرداروں کے علاوہ امام بیل جیسے لوگ نیشنل پارٹی کے چاند کا تارہ بن چکے ہیں..اور آج اسی مڈل کلاس کے ساتھ جس غداری کے ڈاکٹر مالک مرتکب ہوچکے ہیں یہ سب تاریخ کا حصہ ہے اس روم کے غلام کے بعد اقتدار کی کرسی اب نواب ثناءاللہ زہری کو سونپ دی گئی۔

لیکن کیا اس پوری صورتحال میں بلوچ قوم کی رائے کو اہمیت دی گئ گر یہی صورتحال پنجاب میں ہوتی کہ پنجاب کے عوام بالاے طاق رکھ کر ان پہ کبھی مڈل کلاس کے نام پہ یا کبھی  سرداری کے نام پہ حکمران تھونپ دیتے تو کیا روم کے دانشور یو نہی خاموش رہتے؟

بالکل نہیں انکی خاموشی مسخ شدہ لاشوں پر بھی بجا ہے اور انکی خاموشی ریاستی اداروں کی کھلے عام مداخلت پر بھی بجا ہے۔ لبرل اور جمہوریت پسندی اب طاقوں میں رکھی ہوئی کتابوں کی طرح ہے جنہیں مخصوص وقت میں مخصوص صورتحال میں پڑ ھایا اور دہرایا جاتا ہے اور یہاں کے دانشور غلامی کو بہت اچھے طریقے سے پینٹ کر کے پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔

رہی بات اسپارٹیکس  کی تو وہ اب بھی اپنی جگہ پہ قائم ہیں اب روم  کےغلام بشمول نواب ثناءاللہ زہری آگے کیا گل کھلائیں گے دیکھتے ہیں۔۔

Comments are closed.