ریاست اور بلیک میلر میں فرق ہونا چاہیے

Nusrat-Javed-267x200نصرت جاوید

انگریزی کا ایک محاورہ بہت عاجزانہ انداز میں ہمیں متنبہ کرتا ہے کہ جہنم کی طرف لے جانے والے تمام راستوں پر سفر ہمیشہ نیک نیتوں کے ساتھ کئے جاتے ہیں۔

پاکستانی ریاست کی نیت بہت صاف ہے۔ دوکروڑ کی آبادی والے شہر کراچی کو اس نے دہشت گردوں، بھتہ خوروں اور سرکاری وسائل اور اختیارات کی مدد سے حرام کھانے والوں سے پاک کرنا ہے۔ 2008ءاور 2013ءکے انتخابات میں سندھ کے لوگوں نے جن لوگوں کو ووٹ دے کر حکومت میں بٹھایا، ان کی نیت مگر صاف نہیں۔ بڑی دادفریاد کے بعد اسے قائل کیا گیا کہ کراچی کو دہشت گردوں، بھتہ خوروں اور سرکاری وسائل اور اختیارات کی مدد سے حرام کھانے والوں سے پاک کرنے کے لئے رینجرز کی مدد لی جائے۔

رینجرز نے چند ہی ہفتوں میں کراچی کی رونقیں بظاہر بحال کردیں۔ اس رونق کے استقلال کو یقینی بنانے کے لئے ہماری ریاست رینجرز کو مزید کچھ عرصے کے لئے متحرک رکھنا چاہ رہی ہے تاکہ دہشت گردوں، بھتہ خوروں اور سرکاری وسائل اور اختیارات کی مدد سے حرام کھانے والوں اور سیاسی جماعتوں میں چھپے ان کے حقیقی اور حتمی سرپرستوں کے بھیانک چہروں کو بے نقاب کرنے کے بعد عبرت کانشان بنایا جاسکے۔

جمہوریت، جسے دُنیا بھر میں ابھی تک دریافت ہوا بہترین سیاسی نظام سمجھا جاتا ہے، ہماری ریاست کو اپنا یہ فرض پورا نہیں کرنے دے رہی۔ سندھ میں ا یک قائم علی شاہ نام کے وزیر اعلیٰ بیٹھے ہیں۔ سنا ہے اپنی قوت وہ ایک منتخب اسمبلی سے حاصل کرتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ ان کی طرح رینجرز بھی اسی ادارے کے سامنے کسی نہ کسی طرح جوابدہ ہو۔ گویا نیت ان کی بھی بہت نیک اور پاک ہے۔

پھر ایک صاحب ہیں ڈاکٹر عاصم۔ خاندانی تعلق ان کا بھی ایک نیک نام ہستی سے ہے۔ ذاتی دوست مگر وہ آصف علی زرداری کے ہیں۔ آصف علی زرداری کو 1990ءسے نواز شریف کی دونوں اور پرویز مشرف کی نیک حکومت نے برسوں جیل میں رکھا تھا۔ عدالتوں کے روبرو موصوف کو اس ملک کا اصلی تے وڈا ویلن ثابت کرنے میں لیکن ابھی تک کسی بھی حکومت کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔

پیپلز پارٹی کی حکومت کو سنگین بدعنوانیوں کے الزامات لگاکر اگست 1990ءمیں گھر بھیجنے والے صدر غلام اسحاق خان نے اسی زرداری کو اپریل 1993ءمیں اس عبوری حکومت کا وزیر بنایا جو نواز حکومت کو بدعنوانی کے الزامات کے تحت برطرف کرنے کے بعد قائم ہوئی تھی۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے اس حکومت کو قبول نہ کیا۔ مگر سیاسی بحران کا حل نئے انتخابات کے ذریعے نکالنے کی ضرورت محسوس ہوئی جن کی بدولت محترمہ بے نظیر بھٹو ایک بار پھر اس ملک کی وزیر اعظم بن گئیں۔

انہیں ایک اور صدر نے نومبر 1996ءمیں کرپشن کے الزامات لگاکر فارغ کیا۔ زرداری کو لاہور کے گورنر ہاوس سے گرفتارکرکے جیل بھیج دیا گیا۔ فاروق لغاری مگر خود بھی فارغ ہوگئے اور زرداری کو عبرت کا نشان بنانے کی ذمہ داری سیف الرحمن نے اپنے سر لے لی۔سیف الرحمن، زرداری کو عبرت کا نشان بنانے ہی والے تھے کہ جنرل مشرف نے اقتدار سنبھال کر انہیں بھی جیل بھیج دیا۔

زرداری کے ساتھ جیل میں پہلی ملاقات کے وقت سیف الرحمن زاروقطار روتے رہے۔ نیت چونکہ ان کی بھی ہمیشہ بہت نیک اور صاف رہی تھی، اس لئے برادر اسلامی ملک قطر کے صالح حکمرانوں کی مدد سے بالآخر رہا ہوئے۔ ان دنوں قطر میں ہوتے ہیں اور اربوں کے سودے چکاتے ہیں۔

کن فیکون والے مکمل اختیارات کے ساتھ اس ملک میں آٹھ سال تک گڈگورننس قائم کرنے کے دعوے دار جنرل پرویز مشرف کے پیغامبروں نے بھی کرپشن کے الزامات کے تحت قیدی بنے آصف علی زرداری سے رابطے ڈاکٹر عاصم سے وابستہ اسی ہسپتال کے ایک کمرے میں استوار کئے تھے، جہاں مبینہ طورپر دہشت گردوں کو طبی سہولیات بازار سے بارعایت فراہم کی جاتی تھیں۔ اب شاید کفارہ ادا کرنے کا وقت ہے۔

ڈاکٹر عاصم کو تحفظ پاکستان والے قانون کے تحت، جسے پیپلز پارٹی کے چند اراکینِ پارلیمان نے آنسو بہاتے ہوئے منظور کیا تھا، 90روز کے لئے گرفتار کیا گیا۔ تین مہینوں کی اس حراست کے دوران موصوف پر کیا بیتی۔ اس کی خبر کم از کم مجھے تو ہرگز نہیں۔

ہمارے مکمل طورپر آزاد اور بلاخوف وخطر پورا سچ بیان کرنے والے اینکر خواتین وحضرات کے ”ذرائع“ کی بدولت مگر پوری قوم یہ جان چکی ہے کہ ڈاکٹر عاصم ے گرفتارہوتے ہی رورو کر اپنے تمام گناہوں کا اعتراف کرلیا۔ان گھناونے گناہوں میں زیادہ تر کا ارتکاب موصوف نے اپنے جگری یار آصف علی زرداری کی ایماءپر کیا تھا۔

اصولی طورپر اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ڈاکٹر عاصم نے بلبلاتے ہوئے جن گناہوں کا اعتراف کیا تھا انہیں واضح طورپر عدالت کے روبرو پیش کیا جاتا۔ ایسا مگر ہونہ سکا۔ اپنی پہلی پیشی پر ڈاکٹر عاصم نے بلکہ دعویٰ کردیا کہ انہیں ایک پہلے سے تیار کردہ بیان پر دستخط کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ حتمی مقصد اس بیان کا زرداری کو کٹہرے میں لاکر عبرت کا نشان بنانا ہے۔ بڑی نیک نیتی سے موصوف نے مگر اپنے جگری یار سے بے وفاقی کرنے سے انکار کردیا۔ دیکھتے ہیں اب اس ملک کوبدعنوانی سے پاک کرنے کی نیک نیت کے ساتھ احتساب بیورو والے اسی عاصم کو کن گناہوں کے اعتراف پر مجبور کرتے ہیں۔

حقیقت کچھ بھی رہی ہو مجھے اور آپ کو بہت شور سے سنائی دینے والا ”سچ“ ہے تو صرف اتنا کہ ڈاکٹر عاصم بدعنوان ہے، دہشت گردوں کا مکار سہولت کار۔جبلی طورپر بزدل دِکھتا یہ شخص دورانِ حراست روروکر کچھ اور بیان کرتا ہے مگر عدالت کے روبروپیش ہوتے ہی بیان بدل لیتا ہے۔

اس شخص کے بارے میں خیر کا لفظ بولنے کو اس ملک میں کوئی بھی تیار نہیں۔ سنا ہے پاکستان کسی آئین کے تحت چلایا جارہا ہے۔ یہ آئین فئیر ٹرائل نامی کسی شے کی ضمانت بھی دیتا ہے۔ وہ ہوتا مگر نظر نہیں آرہا۔ اس کا مطالبہ کرو تو جمہوری نظام کی محبت کا ڈھونگ رچاکر بدعنوانوں کی حمایت کرنے والوں کی صفوں میں شمار ہونا شروع ہوجاو گے ۔

اپنی عزت سب کو پیاری ہوتی ہے۔ مجھے بھی ہے۔ لہذا ڈاکٹر عاصم کے بارے میں وہی کچھ سوچنے پر مجبور ہوں جو خلقِ خدا کی اکثریت نے ہمارے مکمل طورپر آزاد میڈیا کے بہت خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ گڈ گورننس کے حمایت میں شوربرپا کرنے والے اینکر خواتین وحضرات نے اپنے ”ذرائع“ کی بدولت بتایا ہے۔

چودھری نثار علی خان تو خود بہت باخبر آدمی ہیں۔ ہمیشہ سچ بولنے کی شہرت کے حامل اور اپنی بات پر ڈٹ جانے والے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان کے پاس ڈاکٹر عاصم کے اعترافی بیان والی وڈیو ہے تو اسے لوگوں کے سامنے کیوں نہیں لایا گیا۔ ریاست اور بلیک میلروں میں کچھ تو فرق ہونا چاہیے۔

چودھری نثار علی خان نے ہفتے کی شام اپنی دھواں دھار پریس کانفرنس کے ذریعے اس فرق کومگر بے دریغ انداز میں ختم کردیا۔ ”میری بات مان لو، ورنہ….“ والا یہ رویہ چکری کے جی دار راجپوت نے بھی انتہائی نیک نیتی کے ساتھ اپنایا ہے۔ میں توبس یہ جاننا چاہ رہا ہوں کہ ”جہنم“ تک پہنچنے میں ابھی کتنے دن اور کتنا فاصلہ باقی ہیں۔

بشکریہ : روزنامہ نوائے وقت لاہور

One Comment