عمیرہ بلوچ کا موت کے کندھوں پر سفر

رزاق سربازی

IMG_3922

بلوچ گلوکار ہونا ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ آپ عشق و محبت کے گانوں سے اُن لوگوں کو کیسے بہلا سکتے ہیں جو فوجی آپریشنوں میں اپنے بچوں کو کھورہے ہیں۔ میرے دوستوں کی فہرست میں ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں جو سیاسی خیالات کے باعث لاپتہ کردیئے گئے ہیں۔ میں نے اِن لوگوں کیلئے گایا جن کا درد سیاسی حالات کا پیدا کردہ تھا۔ “ چالیس سالہ گلوکار حفیظ بلوچ اُن بلوچوں میں شامل ہیں، جن کے حصے میں جلاوطنی آئی۔

سویڈن کے شہر گوتنبرگ میں رہائش پذیر یہ گلوکار بلوچی زبان کے گلوکاروں کی معروف نئی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔

چودہ اگست کے دنوں میں پاکستانی نغمے ٹی وی پر دیکھ کر، میں سوچتا تھا، میں نغمے گانے کیلئے پیدا نہیں ہوا۔ میں ایسا خوش نصیب کہاں، جس کو آزادی میسر ہو اور وہ اپنی آزادی پر اِتراتا پھرتا ہو۔“ نیا زمانہ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا ” میں استاد عبدالستار بلوچ کا شاگرد رہا ہوں، جس نے ساری زندگی انقلابی گانے گائے۔ بلوچ گلوکاروں کی نئی نسل سے تعلق رکھنے والے بیشتر ان کی شاگردی سے مستفید ہوئے ہیں۔“

میں خوش ہوں، میرے بچے مجھ تک آپہنچے۔ انہوں نے اپنی فیملی کے سویڈن آنے کے متعلق بتاتے ہوئے کہا۔ مجھے اپنی شریک حیات عمیرہ بلوچ پر فخر ہے، وہ دو چھوٹے بچوں کو لے کر گھر سے نکلی، ایران، ترکی، یونان، مقدونیہ اور کتنے ملکوں کا تکلیف دہ سفر کرتے، یہاں پہنچیں۔ جو لوگ سوچتے ہیں، عورتیں کمزور ہوتی ہیں، انہوں نے اپنی اہلیہ کی طرف دیکھتے، مسکراتے ہوئے کہا، نہیں، عمیرہ بلوچ بہادری کی ایک مثال ہے۔

حفیظ بلوچ کا گانا سُنیں۔۔۔۔۔۔

میرے لئے یہ فیصلہ آسان نہیں تھا۔ “ عمیرہ بلوچ نے بتایا۔ ” میں بچوں کو لے کر گھر سے چل پڑی۔ پاکستان میں، موت بلوچوں کیلئے نئی بات نہیں۔ اپنے شوہر کی قوم پرستانہ گلوکاری کے باعث میں نے پاکستان میں رہتے ہوئے بہت کچھ جھیلا۔ ذکری کمیونٹی سے تعلق ہونے کے باعث میں نے دوہری نفرت دیکھی ہے۔ “

عمیرہ بلوچعمیرہ بلوچ گھوڑے پر مقدونیہ کی سرحد پار کرتے ہوئے

میں خوش ہوں، اپنے شوہر کیساتھ دوبارہ مل کر۔ عمیرہ بلوچ نے مسکراتے ہوئے بتایا۔

میں نےکراچی ، پھر چابہار مغربی بلوچستان ( ایران ) سے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ سفر کا احوال بتاتے ہوئے انہوں نے کہا تب میں نے سوچ رکھا تھا، اس طویل سفر میں ، مجھے اپنے بچوں سمیت ، موت بھی آسکتی ہے لیکن میں بلوچ عورتوں کی بہادری بھی دنیا کو دکھانا چاہتی تھی جو ہمیں جاہل کہہ کر ہمیشہ نظرانداز کرتے رہے ہیں۔

یہ سفر موت کے کندھوں پر بیٹھ کر آگے بڑھنے جیسا سفر تھا۔ عمیرہ بلوچ نے اپنے بچوں کو پیارکرتے ہوئے کہا ” میرے ایک بیٹے کا نام براہمدغ ہے۔ یہ نام میں نے اُس وقت رکھا، جب براہمدغ بگٹی پہاڑوں پر تھے۔ “

مسلسل آٹھ دن پیدل چلنا پڑا۔ کہیں دونوں بچوں کو گود میں بٹھا کر گھوڑے پر سفر کیا۔ کہیں پلاسٹک کی کشتی میں بیٹھ کر گہرے سمندر عبور کئے۔

میں نے راستے میں، کافی بلوچ دیکھے۔ انہوں نے مزید بتایا ” وہ یونان یا مقدونیہ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ گھر چھوڑنا شاید آسان نہیں لیکن بلوچ جہاں رہتے ہیں وہاں سیاسی حالات کے باعث ان کیلئے زندہ رہنا بھی مشکل ہے۔ وہ امن اور سکون کی تلاش میں نکل رہے ہیں۔ اپنی زندگی اپنی خواہش کے مطابق گزارنے کیلئے نکل رہے ہیں۔ میں خواہش کرتی رہی کہ ان کو بھی شامی، عراقی و افغانیوں کی طرح آگے بڑھنے کیلئے راستہ دیا جائے۔

عمیرہ بلوچ کی ویڈیو دیکھیں:

Tags: ,