مرغی کے انڈے کے برابر مکئی کا دانہ

ٹالسٹائی

ID:64516924

پرانے وقتوں کی بات ہے، کچھ بچے گاؤں کے باہر کھیل رہے تھے۔ گاؤں، ایک پہاڑی علاقے میں تھا۔ ایک گھاٹی سے بچوں کو مکئی کے دانے جیسی ایک چیز ملی۔ یہ مرغی کے انڈے کے برابر بڑی تھی۔ بچے اس کو پکڑے، بڑے اچنبے سے دیکھ رہے تھے کہ ایک مسافر وہاں سے گزرا۔ مسافر نے اسے عجوبہ سمجھتے ہوئے، بچوں کو ایک پیسہ دیا اور اسے خرید لیا۔ وہ شہر میں آیا اور ایک عجوبے کے طور پر مکئی کے اس دانے کو بادشاہ کو پیش کردیا۔

بادشاہ نے اپنے دربار میں موجود تمام عقل مند لوگوں کو اکٹھا کیا او ران سے پوچھا کہ وہ اس عجوبے کے بارے میں بتائیں۔ وہ کئی روز سوچ بچار کرتے رہے مگر انہیں کچھ سمجھ نہ آئی۔ یہ دانہ کھڑکی کی سل پر رکھا تھا۔ ایک مرغی وہاں آئی او راس نے چونچیں مار مار کر اس میں سوراخ کردیا۔ تب سب کو معلوم ہوگیا کہ یہ مکئی کا دانہ ہے۔ تمام عقل مند بادشاہ کے پاس آئے اور بڑی خوشی سے اسے خبر دی کہ یہ عجوبہ، دراصل مکئی کا دانہ ہے۔

بادشاہ کو سخت حیرت ہوئی کیونکہ اس نے مکئی کا اتنا بڑا دانہ کبھی نہ دیکھا تھا۔ اس نے عقل مندوں کو حکم دیا کہ وہ معلوم کریں کہ اتنے بڑے دانے والی مکئی کہاں بوئی جاتی تھی۔ عقل مندوں نے پرانے وقتوں کی کتابیں کھنگالیں، سوچ بچار کی مگر مکئی کے اتنے بڑے دانے کی گتھی نہ سلجھی۔ وہ بادشاہ کے پاس آئے اور اس سے کہنے لگے:۔

’’بادشاہ سلامت، ہم مکئی کے اتنے بڑے دانے کا بھید نہیں معلوم کرسکے۔ اس کا کسی کتاب میں ذکر نہیں۔ ہمیں کسانوں سے پوچھنا ہوگا۔ شاید انہیں نے اپنی بڑے، بوڑھوں سے اتنے بڑے دانے والی مکئی کے بارے میں سنا ہو‘‘۔

بادشاہ نے حکم دیا کہ کسی بزرگ کسان کو اس کے حضور پیش کیا جائے۔ بادشاہ کے کارندے ایک بزرگ کسان کو پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے آئے۔ بزرگ کسان، کافی بوڑھے تھے۔ ان کی کمر جھکی ہوئی تھی۔ ان کے چہرے کی رنگت راکھ او رزردی مائل تھی۔ ان کے منہ میں کوئی دانت نہ تھا۔ وہ دوکھپاچوں کی مدد سے نہایت آہستگی کے ساتھ چلتے ہوئے بادشاہ کے سامنے پیش ہوئے۔

بادشاہ نے بزرگ کسان کو مکئی کا دانہ دکھایا۔ بزرگ کی بینائی اس قدر کم تھی کہ وہ دانے کو نہ دیکھ سکے۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اسے محسوس کیا۔ بادشاہ نے ان سے پوچھا:۔

’’کیا آپ ہمیں بتاسکتے ہیں کہ اتنے بڑے دانے والی مکئی کہاں کاشت کی جاتی تھی؟ کیا آپ نے ایسی مکئی کبھی خریدی یا کاشت کی؟‘‘
بزرگ کسان اس قدر بہرے تھے کہ انہیں بادشاہ کی کسی بات کی کچھ سمجھ نہ آئی۔ انہوں نے محض اندازہ لگایا کہ ان سے مکئی کے دانے کے بارے میں پوچھا جارہا ہے۔

انہوں نے جواب دیا:۔

’’نہیں، میں نے ایسی مکئی کبھی اپنی زندگی میں کاشت نہیں کی اور نہ ہی کبھی منڈی میں دیکھی۔ ہم نے اپنی زندگی میں وہی مکئی کاشت کی جو آج کل بھی منڈی میں ملتی ہے۔ مناسب ہے کہ آپ میرے والد سے اس کے بارے میں پوچھیں۔ ہوسکتا ہے، انہیں اس کے بارے میں کچھ معلوم ہو۔۔۔!‘‘۔

بادشاہ نے بزرگ کسان کے والد کو بلوا بھیجا۔ انہیں بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ یہ بزرگ ایک کھپاچ کے سہارے چل رہے تھے۔ بادشاہ نے انہیں مکئی کا دانہ دکھایا۔ یہ بزرگ بخوبی دیکھ سکتے تھے۔ انہوں نے مکئی کے دانے کو پکڑا او راسے بغور دیکھا۔ بادشاہ نے ان سے پوچھا۔
’’
کیا آپ ہمیں، اس مکئی کے بارے میں بتاسکتے ہیں کہ یہ کس علاقے میں بوئی جاتی تھی؟ کیا آپ نے کبھی اسے منڈی سے خریدا یا اس کی کاشت خود کی؟‘‘۔

یہ بزرگ تھوڑا سا اونچا سنتے تھے مگر اپنے بیٹے کے مقابلے میں ان کی سننے کی صلاحیت بہت اچھی تھی۔ انہوں نے جواب دیا:۔

’’نہیں حضور! میں نے اپنی ساری زندگی اتنے بڑے دانے والی مکئی نہ دیکھی او رنہ ہی کسی کو اسے کاشت کرتے سنا۔ جہاں تک خریدنے کی بات ہے، ہمارے زمانے میں روپیہ پیسہ تو ہوتا نہیں تھا، ہم کوئی چیز خریدتے نہیں تھے بلکہ ضرورت کے وقت چیزیں ایک دوسرے کو دے دیتے تھے۔ ہر کوئی مکئی کی کاشت کرتا تھا او رجب کسی کو ضرورت ہوتی ہم مکئی کو آپس میں بانٹ لیتے تھے۔ ہم جو مکئی کاشت کرتے، اس کے دانے، آج کل بوئی جانے والی مکئی سے بڑے تھے اور ان کو پیسنے سے زیادہ مقدار میں آٹا بنتا تھا۔ مگر میں نے انڈے کے برابر مکئی کے دانے کبھی نہیں دیکھے۔ مگر میں نے اپنے والد سے سنا ہے کہ ان کے وقتوں میں مکئی کا دانہ، ہمارے زمانے کی مکئی کے مقابلے میں زیادہ بڑا تھا۔ اس کو پیسنے سے ہمارے زمانے کی مکئی سے بھی زیادہ آٹا نکلتا تھا۔ آپ مزید معلومات میرے والد سے معلوم کرسکتے ہیں‘‘۔

بادشاہ نے اس بزرگ کے والد کو دربار میں طلب کیا۔ وہ ابھی تک زندہ سلامت تھا اور اسے دربار میں حاضر کیا گیا۔ یہ بزرگ کسی بھی سہارے کے بغیر، سیدھی کمرسے چل رہے تھے۔ ان کی آنکھیں بالکل ٹھیک تھیں اور وہ بخوبی سن سکتے تھے۔ ان کے بولنے کا انداز بڑا کرکرا او رواضح تھا۔ بادشاہ نے انہیں مکئی کا دانہ دکھایا۔ بزرگ نے اسے دیکھا او رہاتھ میں الٹا پلٹا۔ انہوں نے دانے کو ایک طرف سے کترا اور اس کا ذائقہ لیا۔ وہ کہنے لگے:۔

’’میں نے اس مکئی کو بڑے عرصے کے بعد دیکھا ہے۔ یہ ہوبہووہی ہے جو میں نے بہت سال پہلے دیکھی تھی۔‘‘
بادشاہ نے بڑی بے تابی سے پوچھا:۔

’’آپ ہمیں بتائیں کہ کب او رکہاں، اتنے بڑے دانے والی مکئی کاشت کی جاتی تھی؟ کیا آپ نے بھی کبھی اپنے کھیتوں میں اس کی کاشت کی تھی؟‘‘۔
بزرگ نے جواب دیا:۔

’’ہم اپنے زمانے میں ہرجگہ یہی مکئی کاشت کرتے تھے۔ میں یہی مکئی کھا کر بڑا ہوا او رمیں نے دوسرے کے لئے بھی یہی مکئی کاشت کی۔ بالکل اسی طرح کے دانے ہم بویا کرتے تھے او راسی طرح کی مکئی پیدا ہوتی تھی؟‘‘۔

بادشاہ نے پوچھا:۔
’’
کیا یہ مکئی ہر جگہ مل جاتی تھی؟‘‘

بزرگ مسکرائے او رانہوں نے جواب دیا:۔
’’
ہمارے زمانے میں خریدنے یا بیچنے کے بارے میں کبھی کسی نے نہ سوچا تھا۔ ہمیں روپے پیسے کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ ہر شخص کے پاس اس کی ضرورت کے لئے کافی مکئی ہوتی تھی‘‘۔

’’تو پھر آپ بتائیں کہ آپ کی زمین کہاں تھی او رآپ یہ مکئی کہاں بوتے تھے؟‘‘ بادشاہ نے بے چینی سے پوچھا۔
بزرگ نے جواب دیا:۔

’’خدا کی زمین ہماری کھیتی تھی۔ میں جہاں بھی ہل چلا لیتا، وہی میری زمین ہوتی۔ زمین سب کے لئے تھی۔ اس کے بارے میں کوئی بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ اس کی ہے۔ صرف مزدوری کے بارے میں کوئی شخص کہہ سکتا تھا کہ یہ اس کی ہے‘‘۔

’’میری دو اور باتوں کا بھی جواب دیں۔ آپ کی مہربانی ہوگی‘‘۔ بادشاہ نے پوچھا۔
’’یہاں سوال یہ ہے کہ پہلے اتنی موٹی مکئی ہوتی تھی، اب کیوں نہیں ہوتی؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ آپ کا پوتا، دوکھپاچوں کے سہارے چلتا ہے، آپ کا بیٹا ایک کھپاچ کے سہارے او رآپ کو ان کی ضرورت ہی نہیں۔ آپ کی آنکھیں بالکل ٹھیک، دانت صحیح سلامت او رآواز، بالکل واضح او رکانوں کو بھلی لگتی ہے۔ یہ سب کیونکر ہوا؟‘‘۔

بوڑھے نے جواب دیا:۔
’’
بات یہ ہے کہ لوگوں نے اب اپنی محنت پر زندہ رہنے کی بجائے دوسروں کی محنت پر انحصار کرنا شروع کردیا ہے۔ پرانے زمانے میں لوگ فطرت کے قوانین کے مطابق زندگی بسر کرتے تھے ان کے پاس جو کچھ ہوتا، وہ اس پر قناعت کرتے۔ وہ دوسروں کی پیداوار اور چیزوں پر نظر نہیں رکھتے تھے۔

سبط حسن

Comments are closed.