واقعہ پٹھانکوٹ کے بعد۔۔۔

4212_109624585991_3851843_nبیرسٹر حمید باشانی

پٹھان کوٹ حملے سے پاکستان بھارت کے درمیان پیس پراسس مکمل طور پر سبوتاز تو نہیں ہوا، مگر متاثر ضرور ہوا ہے۔دونوں طرف سے ارباب اختیار نے کہا ہے کہ مذکرات عارضی طور پر ملتوی ہوئے ہیں۔

ماضی کے برعکس اس واقعے پر دونوں طرف کا رد عمل نسبتاً بالغ نظری پر مبنی تھا۔یہ طرز عمل دونوں طرف سے امن کی طرف بڑھنے کی مثبت خواہش کا اظہار ہے۔اس سارے سلسلہ عمل میں بنیادی لفظ خواہش ہی ہے۔اس خواہش کی عدم موجودگی میں امن سے فرار کے لیے محض بہانہ چاہیے ہوتا ہے۔اور ارباب اختیار کو یہ بہانہ دہشت گردی کے کسی نہ کسی چھوٹے بڑے واقعے سے ملتا رہا ہے۔

بھارت کا ایک عرصے سے یہ موقف رہا ہے کہ جب تک پاکستان دہشت گردی کے خلاف اقدامات نہیں کرتا اس وقت تک امن کی طرف پیش قدمی یا با مقصد مذکرات ممکن نہیں۔ دہشت گردی کے خلاف ان اقدامات میں اہم قدم ان دہشت گردوں کے خلاف کاراوئی ہے جو پاکستان کے اندر رہتے ہیں۔یہاں کی سر زمین کو استعمال کر کہ بھارت کے خلاف کاورائی کرتے ہیں۔ اس کے جواب میں پاکستان کی طرف سے تین مختلف موقف سامنے آتے رہے ہیں۔

پہلا یہ کہ پاکستان کسی کو بھی اپنی سر زمین دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔بھارت میں دہشت گردی کی جو کاروائیاں بھی ہوئی ہیں ان سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں۔

دوسرا یہ کہ اگر کسی ایسی کاروئی کا تعلق پاکستان سے جڑتا بھی ہے تو یہ غیر ریاستی لوگوں کی کاروئی ہے اور اس کا پاکستان کی ریاست یا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

تیسرا یہ کہ دنیا کہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان ہر دہشت گرد کو کنٹرول کرنے سے قاصر ہے اور اس وجہ سے خود بھی دہشت گردی کا شکار ہے۔

پاکستان میں عام طور پر یہ تاثر بھی رہا ہے کہ بھارت میں اس طرح کی دہشت گردی کی کارائیوں میں یا تو بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ہے یا پھر یہاں کی ہندو بنیاد پرست اور شدت پسند تنظیمیں اس کاروائی کی ذمہ دار ہیں۔اور ایسا پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک قرار دلوانے یا امن مذاکرات کو سبوتاز کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔پاکستان نے اس خیال کی حمایت میں کبھی اگرچہ کوئی سرکاری بیان تو جاری نہیں کیا لیکن اس کی طرف سے سرکاری سطح پر دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد بھارت کی طرف سے دیے جانے والے ثبوتوں کو ناکافی قرار دینے کے عمل سے اس خیال کو تقویت ضرور پہنچتی رہی۔

بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے بعد بھارت نے مولانا مسعود اظہر کو نامزد کیا۔ممبئی حملوں میں ذکی الرحمن لکھوی نامزد ہوئے۔ ان دونوں کے خلاف تفتیشی یا عدالتی کاروئی تو چلتی رہی مگر یہ تاحال کوئی فیصلہ کن شکل اختیار نہیں کر سکی۔پٹھان کوٹ واقعے میں بھارت کی طرف سے ثبوت دئیے جانے کے بعدحکومتی حلقوں کی طرف سے مولانا مسعود اظہر کی گرفتاری یا حفاظتی تحویل کے سلسلے میں متضاد بیانات آتے رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اب کی بار مولانا صاحب کے خلاف کوئی کاروائی ہوگی یا بھارت کے طرف سے مہیا کیے گئے ثبوت ناکافی قرار دئیے جائیں گے۔

بھارت کی طرف سے مذاکرات کے التوا کی وجہ بھی یہ دیکھنا ہے کہ پاکستان اس سلسلے میں کیا پیش رفت کرتا ہے ؟جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کیا پاکستان کی سر زمین دہشت گردی کی تبلیغ، ترویج یا فروغ کے لیے استعمال کی جاتی ہے یا نہیں ؟ اس سوال کے جواب کے لیے پاکستان بھارت سے ثبوت مانگنے کے بجائے اگر ملک کے اندر سرگرم مختلف کالعدم جہادی تنظیموں کی سرگرمیوں پر ایک نظر ڈالے تو اسے مزید کسی قسم کے ثبوت کی ضرورت نہیں رہے گی۔

یہ تنظیمیں کالعدم قرار دئیے جانے کے باوجود سر عام دفاتر چلا رہی ہیں۔ ان کے رہنما عوامی اجتماعات میں اپنے شدت پسندانہ خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔یہ لیڈر کھلے عام جہاد کے مقدس فریضے کی آڑ میں دہشت گردی، نفرت اور تشدد کا پر چار کرتے ہیں۔کئی ایک جلسہ عام میں کشمیر میں ظلم کے خلاف اور جہاد کے نام پر سر عام القاعدہ اور داعش سے مدد اور تعاون کی اپیل کر چکے ہیں۔اور سر عام آزادی سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف کسی سر زمین کے استعمال کاصرف یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہاں پر ٹریننگ کیمپ چل رہے ہوں۔یا لوگوں کو جسمانی تربیت دی جا رہی ہو۔ بلکہ ابلاغ عامہ کا استعمال، عوامی اجتماعات میں جہاد کے نام پر دہشت گردی کی تبلیغ ، نفرت اور خون خرابے پر مبنی نظریات کا پرچار بھی کسی سر زمین کو دہشت گردی کے فروغ کے لیے استعمال کرنے کے مترادف ہی ہوتا ہے۔ریاست کی طرف سے ایسی سرگرمیوں سے صرف نظر ،امن کی حقیقی خواہش کی عدم موجودگی کا مظہر ہوتا ہے۔

پاکستان میں ارباب اختیار کے لیے اب یہ ناگزیر ہوتا جا رہا ہے کہ وہ کالعدم قرار دی جانے والی تنظیموں کے رہنماوں کو نام اور حلیے بدل کر سر گرمیاں جاری رکھنے سے باز رکھیں۔ایسا کرنا صرف بھارت کے ساتھ امن مذاکرات جاری رکھنے یا دوستی کے لیے نہیں بلکہ خود ہ پاکستانی عوام کے مفادمیں ہے۔یہ قانون کی حکمرانی کے، نفرت اور تشدد سے پاک سماج کے لے قیام کے لیے ناگزیر ہے۔

ارباب اختیار کو اس سلسلے میں اپنی ذہنی ڈھل مل یقینی کی کفیت سے نکلنا ہو گا۔اگر کالعدم تنظیموں کے لوگ معصوم اور نیکوکار ہیں تو پھر ان کو کلالعدم قرار دینے کا کوئی جواز نہیں۔لیکن اگر وہ فرقہ ، پرست، تشدد پسند یا دہشت گرد ہیں اور اس وجہ سے ان کو کالعدم قرار دیا گیاتو پھر ان کو دفاتر چلانے اور سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت کا کیا مطلب ہے۔اور ارباب اختیار اپنے اس طرز عمل کی کیا توجیح پیش کر سکتے ہیں۔

Comments are closed.