بلوچستان : حلقہ پی بی50کیچ کا الیکشن

اسد اللہ بلوچ

Area-Map-PB-50-Kech-Balochistan-597x399

پی بی 50 کیچ 3کے ضمنی الیکشن کو چھ روز گزر گئے الیکشن کمیشن تاحال نتیجہ کے اعلان میں ناکام ثابت ہورہی ہے، حیرت انگیز طور پر تمام امیدوار ایک دوسرے پر دھاندلی کا الزام عائد کرکے ایک ساتھ پولنگ نہ ہونے کا دعویٰ اور اپنی کامیابی کے نوٹیفکیشن جاری کرنے کا مطالبہ بھی کررہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان کی موجودہ صورتحال میں سیاسی لائن دو واضح حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک جانب سخت گیر موقف رکھنے والے علیحدگی پسند قو م پرست ہیں جو الیکشن اور موجودہ انتظامی سیٹ اپ کے مخالف ہیں۔ان کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان میں عوام کی حمایت ان کے پاس ہے جبکہ دوسری جانب موجودہ سیاسی اور انتظامی سیٹ اپ پر یقین رکھنے والے پارلیمانی جماعتیں ہیں جو اسمبلی کو مسائل کے حل اور اپنی جدوجہد کا آخری ذریعہ سمجھتی ہیں ان کو بھی عوام کی حمایت اپنے ساتھ ہونے کا دعوی ٰرہا ہے۔

ان کے بقول بلوچستا ن کے عوام مزاحمتی جدوجہد کے مقابلے میں موجوہ سیٹ اپ کو پسند کر کے سرمچاروں کی جنگ سے نالاں ہیں۔سیاسی بساط پر پھیلے دونوں طبقوں کا موقف اپنی جگہ مگر گزشتہ سال کے آخری دن 31دسمبر 2015کو ضلع کیچ کے حلقہ پی بی 50جو دشت، تمپ اور مند پر مشتمل ہے یہاں پر ضمنی الیکشن منعقد ہوئے تھے جن میں سیاسی جماعتوں کے علاوہ آزاد امیدوار بھی میدان میں موجود تھے۔ مذکورہ انتخابی حلقے میں رجسٹرڈ ووٹوں کی کل تعداد 60ہزارکے لگ بھگ ہے اور الیکشن میں ووٹنگ کا عمل چلانے کے لیئے 69پولنگ اسٹیشنز اور138پولنگ بوتھ بنائے گئے تھے ۔

شام گئے جب ووٹنگ کا عمل مکمل ہوگیا تو موصول ہوئے الیکشن نتائج کے مطابق تحصیل تمپ کے 22پولنگ اسٹیشنز کو ملا کر ایک کردیاگیا جہاں محض 107ووٹ کاسٹ کئے گئے اسی طرح پورے حلقے میں رات گئے ملنے والی تفصیلات کے مطابق بمشکل 7000ووٹ کاسٹ ہوئے تھے جن میں ابتدائی نتائج کے مطابق نیشنل پارٹی کے امیدوار کہدہ اکرم دشتی نے 2608،مسلم لیگ کے حاجی اکبر آسکانی نے2100،آزاد امیدوار لالہ رشید نے 1200اور بی این پی عوامی کے میر محمد علی رند نے کم و بیش 114ووٹ حاصل کیے ۔

جس کے بعد ضلعی سطح پر الیکشن کمیشن نے غیر حتمی نتیجے کااعلان کر کے نیشنل پارٹی کے امیدوار کہدہ اکرم کو کامیاب قرار دیالیکن اس غیر حتمی اعلان کے فورابعد امیدواروں میں ہل چل مچ گئی اور دو روز بعد مسلم لیگ کے امیدوار حاجی اکبر آسکانی مند کے دو پولنگ اسٹیشنز کا نتیجہ لے کرالیکشن کمیشن پہنچے جس کے بعد نیشنل پارٹی کی برتری ختم ہوگئی اور مسلم لیگ کو نیشنل پارٹی پر2000ووٹوں کی سبقت حاصل ہوگئی۔اس کے بعد غالباًتمام امیدوار وں نے ایک دوسرے پر دھاندلی کا الزام لگا نا شروع کردیا ۔

اب نوبت یہ ہے کہ سب امیدوار یہ دعوی ٰکررہے ہیں کہ 69میں سے بامشکل 7پولنگ اسٹیشنز کھلے تھے جتنے ووٹ کاسٹ ہوئے انہی 7اسٹیشن میں ہوئے باقی جتنے ووٹ پیش کیے جارہے ہیں وہ عوام کے کاسٹ شدہ ووٹ نہیں بلکہ امیدواروں کے دھاندلی شدہ ووٹ ہیں اور دھاندلی پر سب کا موقف ایک ہے لیکن اس کے باوجود ہر امیدوار الیکشن کمیشن سے یہ مطالبہ کررہا ہے کہ انہیں کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے۔

31دسمبر سے اب تک نیشنل پارٹی، مسلم لیگ اور آزاد امیدوار لالہ رشید نے اپنے حامیوں کو جمع کر کے نتیجہ اپنے حق میں لانے کے لیئے دباؤ ڈالنے کا مشق بھی کرلیا ۔کہنہ مشق سیاست دان میر محمد علی رند جنہوں نے غیر حتمی نتیجہ کے مطابق صرف 114ووٹ لیے ہیں ان کاموقف سب سے الگ ہے ان کے مطابق 31دسمبر کو کہیں پولنگ نہیں ہوئی تھی تمام69اسٹیشنز بند تھے اگر صحیح معنوں میں الیکشن کرائے جائیں تو 5مرتبہ اس نشست پر کامیاب ہونے کے بعد وہ چھٹی مرتبہ بھی کامیابی حاصل کرینگے مگر پولنگ نہ ہونے کا دعوی کرنے کے باوجودخود انہوں نے 114ووٹ کہاں سے حاصل کیئے ہیں۔

اسی طرح نیشنل پارٹی کے کہدہ اکرم دشتی مسلم لیگ کے امیدوار اکبر آسکانی پرمند میں اور اکبر آسکانی کہدہ اکرم دشتی پر بل نگور اور مچات کے پولنگ اسٹیشنز میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ اسٹیشنزصبح 9بجے سے شام5بجے تک کھلے ہی نہیں وہاں ووٹ کیسے آئے ؟اسی طرح آزاد امیدوار لالہ رشید کہتے ہیں کہ دشت کے 7اسٹیشنز کے علاوہ پورے حلقے میں کہیں پر ووٹنگ نہیں ہوئی سب کے پاس دھاندلی کے ووٹ ہیں لیکن اس کے باوجود بھی تینوں الیکشن کمیشن سے یہ توقع کررہے ہیں کہ الیکشن کمیشن ان کے حق میں کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کرے ۔

لالہ رشید خود بی این پی مینگل کے رہنما ہیں مگر انتخاب انہوں نے آزاد حیثیت میں لڑاجبکہ بی این پی مینگل نے ایک کشتی کے دو ملاح بننے کی کوشش کر کے بی این پی عوامی کے امیدوار میر محمد علی رند کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ الیکشن نتیجہ کے بعد بی این پی مینگل اپنے حامی امیدوار کے بجائے ایک بار پھر لالہ رشید کی حمایت کررہی ہے ۔انتخابی نتائج کے تناظر میں امیدواروں کے الزامات کو لے کر کئی سوالات ہیں۔ان الزام تراشیوں کے بیچوں بیچ اہم تریں پہلو یہ ہے کہ اگر واقعی الیکشن میں دھاندلی ہوئی تھی یا واقعی میں31دسمبر کو پولنگ اسٹیشنز بند تھے تو امیدواروں کے پاس 100سے لے کر 4000تک ووٹ کہاں سے آئے ؟

کیا آپس میں دھاندلی اور الیکشن نہ ہونے کا الزام عائد کر کے انتخابی سیاست پر یقین رکھنے والے امیدوار غیر ارادی طور پر سخت گیر موقف رکھنے والے علیحدگی پسندوں کے موقف کی تائیدتو نہیں کررہے ہیں جو تواتر سے یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ بلوچستان کے عوام کا پارلیمانی سیاست سے اعتماد اٹھ گیا ہے اور عوام کی حمایت ان کے پاس ہے۔

Comments are closed.