مردم شماری اور سرائیکی خانہ

sattarعبدالستار تھیہم۔ملتان

مردم شماری سے کسی بھی ملک میں معاشی ترقی، ملکی وسائل اور عوام کے معیار زندگی کو سامنے لایا جاتا ہے۔ 1973 کے آئین کے مطابق ہر دس سال بعد مردم شماری کرانا لازم ہے۔

لیکن حکمران مردم شماری کرانے سے ہمیشہ ڈرتے رہے۔ اور کرائی بھی گئی تو متنازعہ اور من پسند نتائج حاصل کرنے کی کوشش کیں،جس سے وفاق پاکستان کی سا لمیت کو نہ صرف نقصان پہنچا بلکہ جھوٹے اعدادوشمار ظاہر کیے گئے۔ملک کے نامور دانشور مشتاق احمد یوسفی نے اس حوالے سے کہا ہے کہ حکومتی اعدادوشمار اور سفید جھوٹ کی قسم ایک ہی ہوتی ہے۔

حکومتی فیصلہ کے مطابق ملک میں حالیہ 9 ویں مردم شماری13مارچ 2016 کو کرانے کے تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔انگریز دور میں ہندوستان میں باقاعدطور پر آغاز ہو۔انگریز حکمرانوں نے پہلی مرتبہ ہر دس سال بعد مردم شماری کرانے کا قانون بنایا۔قیام پاکستان کے بعد پہلی مردم شماری1951 میں ہوئی۔ بعد ازاں ہر دس سال بعد ہوتی رہی لیکن 1991میں آئین پاکستان سے انحراف کرتے ہوئے۔ملک میں مردم شماری نہ کرائی گئی۔ایک طویل ایکسرسائز کے بعد1998 میں مردم شماری عمل میں لائی جاسکی۔

مردم شماری میں تاخیر کی بنیادی وجہ بلوچوں ، پختونوں ، سندھیوں ، سیرائیکیوں اور اردو زبان بولنے والوں کا پنجاب کے حاکمانہ اور ناانصافیوں پر مبنی رویہ پر اعتراضات تھے۔صوبہ سند ھ میں مہاجر سندھی مخاصمت ، بلوچستان میں بلوچوں اور پختونوں کے درمیان محاذ آرائی اور پنجاب میں پنجابی سرائیکی لڑائی بنیادی وجوہات تھیں ۔1991 میں جب مردم شماری کے فارم چھپ کر آئے تو میاں نواز شریف (اس وقت کے وزیر عظم ) نے پنجابیوں کو بڑی قوم ثابت کرنے کے لیے سِر سے ہی سرائیکی خانہ ختم کر دیا۔

جس پر سرائیکی پارٹیوں نے میاں نوازشریف کی حکومت کے خلاف احتجاج اور مظاہرے شروع کر دیے جس پر مردم شماری کو موخر کردیا گیا۔اس دوران پاکستان سرائیکی پارٹی کے سربراہ بیرسٹر تاج محمد خانہ گاہ نے ملتان ہائی کورٹ میں سرائیکی خانہ ختم کرنے کے خلاف رٹ پٹیشن دائر کر دی۔ رٹ پٹیشن میں محکمہ شماریات کے چیف کمشنر (اسلام آباد ) کو فریق بنایا گیا۔مسلسل 7 سال کی سماعت کے دوران اور ہائی کورٹ ملتان کے بینچ کے نوٹسوں کے باوجود محکمہ شماریات اور حکومتی حکام عدالت میں پیش ہوناتو کجا پٹیشن کا جواب دینا بھی گوارا نہ سمجھا ۔

سنہ 1998 میں مردم شماری ہونے سے ایک ہفتہ قبل معروف قانون دان سردار الطاف خان ایڈوکیٹ تاریخ پیشی پر ہائی کورٹ میں پیش ہوئے اور محکمہ شماریات کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس جاری کرایا ۔اگلے ہفتے تاریخ پیشی پر ڈپٹی کمشنر (شماریات)عدالت عالیہ میں پیش ہوئے۔ ڈبل بینچ ہائی کورٹ ملتان جسٹس تصدق حسین جیلانی (جو بعد میں چیف جسٹس آف پاکستان بنے) اور انکے ہمراہ جسٹس اللہ نواز شامل تھے۔جب عدالت عالیہ نے ڈپٹی کمشنر شماریات اسلام آباد سے سرائیکی خانہ ختم کرنے کے بارے میں سوال کیا تو وہ کوئی جواب نہ دے سکے۔

جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ڈپٹی کمشنر شماریات کی سخت سرزنش کی اور سرائیکی خانہ شامل نہ کرنے کو بدنیتی قرار دیا۔ اور حکومت کو سرائیکی خانہ شامل کرنے کا حکم جاری کیا۔1998 کی مردم شماری مکمل طور پر حکومت کی کھلی دھاندلی ثابت ہوئی۔مردم شماری فارم میں اردو ، پنجابی، سندھی ، بلوچی اور پختون خانے یعنی کالم تو موجود تھے لیکن سرائیکی خانہ موجود نہ تھا۔

سرائیکی کے لیے حکومت نے ایک بھونڈا طریقہ یہ نکالا کہ نمونہ فارم ) چند یونین کونسل میں جاری کردیا جس کے تحت اندازہ کر تے ہوئے 6کروڑ سے زائد سرا ئیکیوں کو 1998 کی مردم شماری میں مجموعی طور پر صرف 1کروڑ 47 لاکھ کی آبادی ظاہر کیا گیا۔ جب کہ صوبہ بلوچستان میں محمود خان اچکزائی کی قیادت میں پختونوں نے بندقیں اٹھالیں ۔اور فوج کے زیر سایہ مردم شماری کا بائیکاٹ کیا۔

بعد میں مردم شماری کے نتائج انداز ے کے نام نہاد اصول کے تحت مرتب کیے گئے۔مجموعی طور پر 1998کی مردم شماری کو بلوچوں، پختونوں ، سرائیکیوں اور اردو بولنے والے(کراچی ، حیدرآباد)نے مسترد کر دیا۔اس کے باوجود ڈھونگ اور کھلی دھاندلی پرمبنی مردم شماری کو سوائے پنجابیوں کے کسی نے آج تک تسلیم نہ کیا ہے۔1998 میں حکومت نے اعلان کیا تھا کہ سن 2000 میں نئی مردم شماری کرائی جائے گی لیکن وہ بھی نہ ہوسکی۔

مارچ 2016 میں منعقد ہو نے والی مردم شماری بھی 1998 کی طرح کرائی گئی تو اس کی حیثیت بھی صفر ہوگی۔ معلوم ہوا ہے کہ اس مرتبہ بھی سرائیکی خانہ (کالم ) شامل نہ کیا گیا ہے اور 8 کروڑ سے زائد سرائیکیوں کو دھاندلی اور زبردستی سے پنجابی لکھا جائے گا تاکہ ملک پر مصنوعی پنجابی بالا دستی کا راج قائم رہے۔

یہاں یہ بھی واضح رہے کہ 1998 میں فوج کے ذریعے گن پوئنٹ پر مردم شماری کرائی گئی تھی۔ کیونکہ بلوچ، پختون ، سندھی ، سرائیکی اور اردو بولنے والے نام نہاد مردم شماری کے خلاف سخت مزاحمت کر رہے تھے۔ ملک میں 60لاکھ سے زائد افغانی جو اب پاکستانی شہری بن چکے ہیں مقامی قوموں کے لیے بڑا مسئلہ ہیں ۔

اتفاق سے اب بھی ملک کے وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف ہیں۔ جو پنجاب کے بڑے قوم پرست لیڈر ہیں اگر انھوں نے اس مرتبہ بھی اپنی سابقہ پالیسی قائم رکھی تو وفاق پاکستان کا اللہ حافظ ہوگا۔یہاں یہ بھی واضح رہے کہ پنجابی نام نہاد اکثریت ثابت کرنے کے پیچھے فوج مکمل طور پر متفق ہے۔ چاہے اس کے وفاق پاکستان کے استحکام پر تباہ کن اثرات کیوں نہ مرتب ہوں ۔

Tags:

2 Comments