دیہات میں نئی چیز کی مخالفت کیوں کی جاتی ہے

qazi-310x387فرحت قاضی


انسان نے بیل،گدھے،گھوڑے اور اونٹ کو سدھایا تو اسے سامان اور بوجھ اپنے سر،کندھے اور پیٹھ پر رکھنے یا ہاتھ میں لے کر ساتھ چلنے کی ضرورت نہیں رہی کار،سوزوکی،ٹرک اور ٹرالر نے اس کے کاموں میں مزید آسانیاں پیدا کردیں دخانی کشتی اور جہاز کی ایجادات نے سامان کی منتقلی کے ساتھ ساتھ سفر بھی سہل اور تیز رفتار کردیا سالوں، مہینوں،ہفتوں اور دنوں کاسفر گھنٹوں،منٹوں اور سیکنڈوں میں طے ہونے لگا۔

بجلی کی ایجاد کے ساتھ انسان کو چراغ،لالٹین اور موم بتی جلانے اور اس کے باربار بجھنے کی تکلیف سے نجات مل گئی گیس کی دریافت نے مرد کو جنگلات اور بیابان سے لکڑیاں اور جھاڑیاں کاٹ کر لانے اور عورت کو پھونکیں مار مار کر آگ کو جلائے رکھنے کی تکلیف و اذیت سے آزاد کردیا پنکھے اور ائیر کنڈیشنر کی ایجادات نے گرمیوں کی تپش ،پسینے ،نہروں اور دریاؤں پر جاکر باربار نہانے سے خلاصی دے دی۔

واشنگ مشین نے خواتین کی کپڑوں کو کوڑنے اوردھوپ پر گھنٹوں رکھ کر سوکھنے کے انتظار سے جان چھڑالی ایک بندہ گھر سے نکلتا اور کہیں دور کا سفر اختیار کرتا تو ماں باپ سمیت ہر ایک کو یہ فکر لاحق رہتی کہ ان کا جگر گوشہ،جیون ساتھی،باپ،ماں ، بھائی یا بہن اس وقت کہاں اور کس حال میں ہوگاٹیلی فون،موبائل اور کمپیوٹر نے یہ مشکل بھی آسان کردی۔

اس طرح جدید ایجادات نے فیکٹری اور کارخانے کے لئے راستہ ہموار کیااور پیداوار بڑھانے کے لئے مزید جدید ایجادات کی ضرورت بڑھ گئی تو تعلیمی اداروں خصوصاً جدید سائنسی، تیکنیکی مضامین اور سکولوں کا قیام وقت کا تقاضہ بن گیاتعلیمی ادارے بن گئے تو دیہات کے غریب محنت کشوں کے بچے بھی ان میں پڑھنے لگے یہ بچے تعلیم یافتہ ہوکر فیکٹری اور کارخانہ میں بابو،افسر اور منیجر بننے لگے تو کھیت مزدور سمیت ہر غریب پر روزگار اور ترقی کے نئے دروازے کھل گئے۔

ان ایجادات نے انسان کی سوچ کی نئی راہوں کو متعین کیا وہ نئے زاویوں اور پہلوؤں سے اپنے ارد گرد کا جائزہ لے کر اس پر سوچنے لگا لاعلمی اور جہالت کے اندھیاروں سے نکل کر علم اور فلسفہ کی روشنی نظر آنے لگی یہ نئے اور جدید تصورات سے آشنا ہوا ان دریافتوں اور نئی سانئسی ایجادات نے انسان کی زندگی کو پہلے سے بہتراورزیادہ آسان بنادیا اور اس پر ترقی کے دروازے ایک ایک کرکے کھلتے گئے۔

ایجادات اور اختراعات کا سلسلہ ہر شعبہ حیات میں جاری وساری رہا اور رہتا ہے اس میں زراعت کا شعبہ بھی شامل ہے اس شعبہ میں پہلے بیل،بیل گاڑی،ہل،رہٹ اور نہری پانی سے مدد لی جاتی تھی اور اب ٹریکٹر اور تھریشر سے پیداوار میں اضافہ ہوا ہے تو ٹرکوں اور ٹرالروں کے ذریعہ اشیاء کی دوردراز علاقوں کو منتقلی کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہوگئی ہیں علاوہ ازیں سڑکوں اور کارخانوں میں پھلوں کی کینینگ کے باعث ان کے ضیاع کو روکنے کا حل بھی نکل آیا ہے۔

نئی دریافتوں اور ایجادوں سے سماج کے تمام طبقات کو فائدے پہنچنے لگے کھیت مزدور کو ایک سے زائد روزگار کے ذرائع ہاتھ آگئے غریب کا بچہ تعلیم حاصل کرنے لگا اور اس کی ترقی کے امکانات پیدا ہوگئے کارخانہ و فیکٹر ی کے لئے سڑکوں کی تعمیر و مرمت سے آمد ورفت میں سہولت پیدا ہوگئی جاگیردار کو جدید زرعی آلات کی مدد سے زمین کی کوکھ سے زیادہ سے زیادہ پیداوار کا حصول آسان ہوگیا اور زیادہ منافع بھی پہنچنے لگا جدید آلات پیداوار سے وہ کھیت جن پر پہلے دس افراد ملکر محنت مشقت کرتے تھے دو اور تین افراد کی محنت کافی ہوگئی

بلاشبہ دریافتوں اور نئی ایجادوں نے انسانی زندگی کو پہلے کی نسبت آسان کردیا کھیت مزدور کا بچہ سائنسی علوم سے آشنا ہونے لگا اس میں شعور پیدا ہوا سرمایہ دار کی شکل میں ایک نیا طبقہ وجود میں آگیا اس عمل سے نئے تصورات بھی سماج میں پیدا ہونا شروع ہوگئے مگر ان حقائق کے باوجود ان ایجادات کی مخالفت کی گئی اور بالآخر دیہات میں زور و شور سے کیوں ہوتی رہی یہ اس لئے کہ جاگیردار طبقے نے اپنی جان اور جائیداد کی حفاظت کے لئے روایات،رواجات،رسومات اور نظریات کا جو جالا بنا ہواتھا اور وہ اپنے علاقہ کا بلا شرکت غیرے مالک ہوتا تھا اس پر سوالات ا ٹھنے لگے۔

رفتہ رفتہ جاگیردار کی سماج پر گرفت ڈھیلی ہو تی گئی غیر محسوس طور پر اس کے اختیارات نئے سرمایہ دار طبقہ کو منتقل ہونے لگے چنانچہ یہ وہ حالات تھے جس نے اس طبقہ میں مستقبل کے حوالے سے خوف کے احساسات جگا دئیے اور جسے وہ عوام کی جانب منتقل کرنے لگا مگر حسب معمول اس نے براہ راست ٹکر لینے سے گریز کیا اور نئی ایجادات اور جدید علوم کو مروجہ روایات اور عقائد سے متصادم قرار دینے پر زور صرف کرتا رہا اس لئے دیہات میں نئی ایجادات کی مخالفت شروع ہوگئی اور زور و شور سے ہونے لگی چونکہ کھیت مزدوراپنی ناخواندگی اور معاشی مجبوری کے باعث اس کے زیر اثر ہوتا ہے اس لئے مخالفت میں یہ پیش پیش رہا

سرمایہ دار طبقہ نے کھیت مزدور کو معاش کے جدید اور زیادہ مفید ذرائع پیداوار سے روشناس کرایا اسے جاگیرداروں کے ذاتی عقوبت خانوں سے نجات دے دی اس کے بچہ کوجدید سائنسی علوم کے ذریعے تابناک مستقبل کی جھلک بھی دکھائی حق رائے دہی اور جمہوریت کے ذریعہ حکومت اور ریاستی امور میں شامل بھی کیا میڈیا مجبور و مقہور محنت کش کے مسائل سے حاکم،وزراء اور پارلیمنٹ کو آگاہ اور نتائج سے باخبر رکھنے لگا مزدوروں کو فیکٹری و کارخانہ میں ٹریڈ یونین بناکر اپنے حقوق کا دفاع کرنے کا موقع ملا۔

نوزائیدہ مملکت پاکستان میں سرمایہ دار طبقہ پیسے اور اختیارات کے حوالے سے روز اول سے کمزور اور بے اختیار رہا جاگیردار طبقہ نے اپنے صدیوں کے تجربے،علم اور اختیارات سے فائدہ اٹھانے کا تہیہ کیا چنانچہ یہ عوام کو جدید ایجادات سے پیدا شدہ تصورات سے دور اور متنفر رکھنے کے لئے مغرب و مشرق کی اصطلاحات تسلسل سے استعمال کرتا آرہا ہے ہمسایہ ممالک کے عوام کے عوام سے روابط کی راہ میں روڑے اٹکانے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہا۔

پاک بھارت جنگ،مشکوک اور ناگوار تعلقات کے باعث وطن عزیز ہند میں زرعی اصلاحات کے اثرات سے محفوظ رہا گو کہ نئی مملکت میں جاگیرداری کے توڑ اور سرمایہ داری کے فروغ کے لئے ایک سے زائد مرتبہ زرعی اصلاحات کی گئیں مگر ایسا نظام ہی چلنے اور پنپنے نہیں دیا گیا جو اس پر عمل درآمد ہونے دے۔

پاکستان میں جاگیردار طبقہ کتنا طاقت ور، باختیار اور بااثر ہے اس حقیقت کا اظہار مختلف شکلوں میں ہوتا ہے کئی دیہات میں تاحال تعلیمی ادارے نہیں ہیں اگر ہیں تو وہ ناکافی ہیں سکول ہے عمارت نہیں ہے اساتذہ اور سہولیات کا فقدان ہے محکمہ انہار وآب پاشی اور جنگلات ہے ہزاروں ایکڑ زمین تاحال بنجر اور بارانی ہے زمینیں ہی مالکان نظر نہیں آتے ہیں کارخانہ ہے دل برداشتہ اورحوصلہ شکن مشکلات حائل ہیں کتاب ہے اس میں شعور دینے والا مواد نہیں ہے ٹیلی ویژن ہے اس پر جاگیردارانہ محبت اور عشق کے قصے اور کہانیاں ہیں فلم انڈسٹری ہے مگر وہ جاگیردارانہ طبقاتی عشق کے لئے وقف ہے چینلز اور ان پر گیت اور ڈرامے عاشق پیدا کررہے ہیں میڈیا،کمپیوٹر اور انٹر نیٹ ہے ان کے لئے قواعد و ضوابط ہیں اور یو ٹیوب بند کیا گیا ہے۔

محکمہ واپڈا ہے بجلی نہیں ہے محکمہ سوئی گیس ہے گیس ناپید ہے وطن عزیز وسائل سے مالا مال ہے قرضے لئے جاتے ہیں نوجوان ہیں ان کی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا جارہا ہے پارلیمنٹ ہے اس پر ناخواندہ اور نیم خواندہ ارکان کا قبضہ ہے جمہوریت ہے مگر بیساکھیوں کی محتاج ہے ہر مہینے قانون سازی ہوتی ہے ان پر عمل درآمد نہیں ہے ہر مسئلہ کے حل اور ترقی کے لئے وزارت اور سرکاری ادارے ہیں اس میں بیورو کریسی کے بچوں کو کھپایا گیا ہے میڈیا پر ترقیاتی منصوبوں کا روز ذکر اور پرچار اور افتتاح اور سنگ بنیاد رکھے جاتے ہیں مگر ملک روبہ زوال اور عوام مسائل کی دلدل میں پھنستے ہی جار ہے ہیں۔

یہ صورت حال ملک اور معاشرے پر جاگیردار طبقہ کی مضبوط گرفت کی بڑی علامات اور نشانیاں ہیں۔

پاکستان میں وہ سب کچھ ہے جو اسے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کے لئے کافی ہے اس کی زمین سونا اگلتی ہے اس کے پہاڑوں میں خزانے چھپے ہوئے ہیں دریا کھیتوں کو سیراب کرسکتے ہیں یہاں بہترین قسم کا پھل ہوتا ہے اس کے قبائلی نوجوانوں نے جنگ عظیم میں اپنی جنگجویانہ مہارت کا لوہا منوایا اس کا نوجوان کچھ کر دکھانے کے لئے کمر بستہ ہے مگر موافق مواقع کا شدید فقدان ہے

ڈاکٹر علامہ اقبال نے بجا طور پر کہا تھا، ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

ملک میں سالہا سال سے جاری دہشت گردی اور بجلی کے بحران نے اس طبقہ کی طاقت اور قوت میں مزید اضافہ کردیا ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ جاگیردار طبقہ کوزراعت سے وابستہ سرمایہ کاری اور ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات کے ذریعے نئے سر مایہ دارانہ نظام کی جانب راغب کیا جائے خطے کی صورت حال اور ملکی حالات تمام طبقات اور اس طبقے سے خصوصاًحب الوطنی کا تقاضہ کرتے ہیں۔

Comments are closed.