ایرانی موسیقی تاریخ کے تناظر میں

ارشد نذیر

IranianMusicGroup

ایرانی فنِ موسیقی میں بھی یکتاتھے۔ تاریخ میں آیا ہے کہ خسرو پرویز اور بہرام گور رقص اور موسیقی کے بڑے شیدائی تھے۔ بہرام گور نے تو اپنے عہد میں بارہ ہزار گانے بجانے والی لُوریوں کو ہندوستان سے بلوایا ۔ خسرو پرویز کے دور میں درباری گویوں میں باربند اور نگیا فنِ موسیقی کوبامِ عروج تک لے گئے۔ ان گویوں نے نئے نئے راگ ایجاد کئے اور موسیقی کو فنِ کمال بخشا۔ نوائے باربند ایرانی ادب میں ضربِ المثل کا درجہ رکھتی ہے۔

موسیقی کی ابتداء اور اس سے ایرانیوں کے لگاؤ کے حوالے سے بھی ایک قدیم افسانوی روایت مشہور ہے ۔ قدیم ایرانیوں کا خیال تھا کہ ققنس یا موسیقار ایک ایسا پرندہ تھا جس کی چونچ میں سات سوراخ تھے ۔ ہر سوراخ ستر راگ نکالتا تھا ۔ سپتک اور راگنیوں کا ذکر بھی اسی افسانوی روایت میں ملتا ہے۔ اگرچہ یہ روایت مضبوط حوالوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے محض ایک داستان ہی تصور کی جاتی ہے لیکن اس سے ایرانیوں کے موسیقی سے والہانہ عشق کا پتا ضرور ملتا ہے۔

بہرام گور اور خسرو پرویز کے عہد میں فنِ موسیقی کے نئے نئے آلات بھی متعارف ہوئے ۔ دف، بربط ، چنگ ، شہنائی اور بانسری اُس وقت کے مشہور آلاتِ موسیقی تھے۔

ایرانی موسیقی نے اپنے اثرات ہندوستان پر بھی مرتب کئے ۔ ایرانی شہنشاہوں کے محلوں کے دروازوں پر پانچ مرتبہ نوبت بجائی جاتی تھی۔ یہی رسم مغل بادشاہوں کے دور میں ہندوستان میں بھی داخل ہوئی۔ مغل بادشاہوں نے اپنے شاہی نوبت خانے بنائے ہوئے تھے۔ ہندوستان میں جشنِ نوروز (ایرانی سال کا پہلا مہینہ اور انگریزی کا ماہِ مارچ) منایا جاتا اور اس موقع پر شاہی نوبت خانے سے نقارے بجا کر اس کا اعلان کیا جاتا۔

شاہی نوبت خانوں میں نوبت دن رات مختلف وقفوں سے بجائی جاتی تھی۔ آدھی رات کے وقت، فجر کے وقت ، سورج نکلنے سے ۲۴ منٹ پہلے اور سورج غروب ہونے کے ۲۴ منٹ بعد ، پھر سارے دن میں سات مرتبہ نوبت بجا کرتی تھی۔ مختلف دھنیں بجا کر بادشاہ کی نقل و حرکت کا اعلان کیا جاتا تھا۔ بادشاہ کے دربار لگنے اور اس کے برخواست ہونے کے اعلانات بھی موسیقی کی دھنوں سے ہی کئے جاتے تھے۔ علاوہ بریں اتوار کو سارے دن کے لئے یہ موسیقی بجائی جاتی تھی۔

یہ رسم 1582 ء میں ہندوستان میں شروع ہوئی۔ اس کے علاوہ تولدان یا جسے جشن وزن بھی کہا جاتا ہے کی روایت بھی قدیم ایرانی روایت ہی ہے جسے ہندوستان میں 1565ء میں شروع ہوئی۔ یہ شہنشاہوں اور بادشاہوں کی شمسی اور قمری سالگرہ کے مواقع کے جشن ہوتے تھے۔ عوام اس تقریب کو دعوتوں، موسیقی ، رقص اور آتش بازی سے منایا کرتے تھے ۔ دربار میں بہترین رقاصاؤں اور گلوکاروں کو بلوایا جاتاجو دربار میں اپنے فن کے جوہر دکھلاتے تھے۔ شادی بیاہ کے موقع پررامشگر (گویئے اور سازندے) رود بجاتے تھے جس میں تار کے بجائے بکری کے بچے کی خشک اور بٹی ہوئی آنت لگاتے تھے۔

کیکاؤس کے جشنِ تاج پوشی پر ماژندرانی گانے کے حوالے بھی موجود ہیں۔ہندوستان میں جب شاہجہان تخت نشین ہوا تو اُس نے ہندوستان میں جاری نوروز کی رسم کو منسوخ کردیا۔ اس کے علاوہ مغل دربار میں وسط ایشیاء ایران اور ہندوستان کے موسیقار بھی جمع ہوتے تھے اور اپنے اپنے کمالات کا مظاہرہ کرتے ۔ جب یہ موسیقی آپس میں ملی تو اس سے نئے سازوں اور آہنگوں نے جنم لیا۔ اس طرح ہندو اور مسلمان موسیقاروں نے ہندوستان میں ہندی موسیقی کی روایات کو آگے بڑھایا۔

ایرانی موسیقی بھی ہندی سنگیت کی طرح ریاضیاتی ہے ۔ علمِ نجوم کے بارہ برجوں کی نسبت سے ایرانی موسیقی کے سادہ اور بسیط راگوں کے مقامات کی تقسیم بھی کی گئی ہے۔ انہیں دو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور چوبیس گھنٹوں کی رعایت سے چوبیس راگ بنائے گئے ہیں۔یہی موسیقی کے اصول کہلاتے ہیں۔ ایرانی موسیقی کی بھی بحریں ہیں جو ہندی شاعری کے علمِ عروض کی طرح ہیں ۔ ہندی میں انہیں تال کہا جاتا ہے۔ یہ دویک، چہار ضرب، دُرافشاں، اُصولِ فاختہ (ہمارے ہاں کی سُلفاختہ) وغیرہ ہیں۔

بسیط راگوں کے علاوہ انہوں نے مرکب راگ بھی بنائے جو دو دو راگوں کا ملاپ ہیں۔ انہیں اصطلاح میں’’ آہنگ ‘‘کہا جاتا ہے ۔ چند ایک یہ ہیں :سلمک، گردانیہ، نوروز، گوِشت، مارہ، شہناز۔ اس کے علاوہ گوشہ جنہیں راگنیاں بھی کہا جاتا ہے ایرانی موسیقی کے فن میں چاشنی پیدا کرنے کا سبب بنے رہے ہیں۔ ان راگنیوں کے نام خاصے دلکش ہیں۔مثلاً بہارِ نشاط، دبر، شادباد، شباب، فانوس، باد، نوروز ، دل انگیز وغیرہ ۔ ان کے سازوں میں بربط، دف، چنگ، اور نَے وغیر ہ خاصے مشہور رہے۔ چنگی باجوں میں دُہل، کوس، اور قرنا تھے۔ چنگ مضراب سے بجایا جاتا تھا۔ نَے وہی ہے جسے ہم بانسری کہتے ہیں۔


Comments are closed.