اسلام دین حق ہے

خالد تھتھال۔ ناروے

irani sadar

اسلام دین حق ہے اور اب مسلمانوں نے مغربی ممالک نے بھی اسے تسلیم کروانا شروع کر دیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے امریکہ کے کسی فوڈ سٹور پر ایک مسلمان خاتون نے اپنے کاؤنٹر پر ان گاہکوں کو بھگتانے سے انکار کر دیا جو شراب یا سؤر کا گوشت خریدنا چاہ رہے تھے۔ اس خاتون کے اس حق کو تسلیم کرتے ہوئے گاہکوں کو ہدایت دی گئی کہ وہ دوسرے کاؤنٹرز پر چلے جائیں۔

پچھلے سال امریکہ میں مقیم ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور نے شلوار قمیض کو اسلامی لباس ٹھہراتے ہوئے عام وردی پہننے سے انکار کر دیا معاملہ عدالت تک جا پہنچا۔ عدالت نے پاکستانی ڈرائیور کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ اسے حق ہے کہ وہ اپنے دین پر عمل کرتے ہوئے کام کے دوران اسلامی لباس پہنے۔

ایک ماہ پہلے گزری کرسمس پر لارش گُولے نامی ایک نارویجن فلاسفر نے نارویجن لوگوں کو مشورہ دیا کہ وہ کرسمس پارٹیوں میں شراب نہ پیا کریں تاکہ ملک میں موجود مسلمان اپنے آپ کو ویلکم محسوس کریں شائد کچھ عرصہ بعد لارش یا ان کا کوئی ہم خیال سؤر کا گوشت کھانے سے اجتناب کا مشورہ بھی دے دیں۔

چند دنوں سے پہلے ایران کے صدر حسن روحانی یورپ کے پانچ روزہ دورے پر ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا پہلا پڑاؤ اٹلی میں ہوا جہاں 18.4 ارب ڈالر مالیت کے سمجھوتے ہوئے۔ ان سمجھوتوں پر دستخط کرنے کیلئے روم کے عجائب گھر کا انتخاب ہوا۔ چونکہ عجائب گھر میں کافی عریاں مجسمے ہیں جن پر صدر ایران کی نظر پڑنے پر ان کے ایمان کو خطرہ لاحق ہو سکتا تھا، لہذا پیش بندی کے طور پر ان مجسموں کو کپڑے سے ڈھانک دیا گیا۔ ایرانی صدر کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیے میں شراب بھی پیش نہیں رکھی گئی۔

ایرانی صدر اپنے قیام کے دوران مسیحیوں کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس سے ملاقات ویٹیکن بھی گئے، جہاں انہوں نے پوپ فرانسس کو ہاتھ سے بنایا گیا قالین تحفے میں دیا۔ بدھ کے روز ہونے والی مشترکہ کانفرنس میں صدر روحانی نے کہا۔ آزادی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی ایسی چیز پر تنقید کی جائے جو دوسروں کے لیے مقدس ہو۔ یہ اخلاقی طور پر غلط ہونے کے علاوہ تفرقہ پیدا کرتی ہے۔ صدر روحانی کے بقول پوپ فرانسس ان سے متفق ہوئے ہیں کہ گستاخی مذہب کا کوئی فقرہ یا اظہار برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ ہم دونوں نے مختلف زبانوں میں اس کی مذمت کی ہے

پوپ فرانسس نے ایرانی صدر کے بیان پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ البتہ چارلی ہیبڈو کے دہشت گردانہ واقعہ کے دفاع میں ان کے یہ فقرے خاصی تنقید کی زد میں آئے۔ ” ہمیں کھل کر ، دوسروں کو ٹھیس پہنچائے بغیر بولنے کی آزادی ہے ۔ یقیناً ایسی صورت میں کوئی تشدد کا راستہ نہیں اپنائے گا، لیکن اگر کوئی ملازم میری ماں کو غصہ دلانے کا باعث بنے گا تو اسے مار کھانے کی توقع کرنی چاہیئے۔

12651005_1673304056273646_7797427154255526726_n (1)

ایرانی صدر بدھ کے روز فرانس کو روانہ ہوئے جہاں انہوں نے ایئر بس کمپنی سے ایک سو سے زیادہ طیارے خریدنے کے معاہدے کو حتمی شکل دینا تھی۔

لیکن کھانے کے مینیو نے بدمزگی پیداکر دی جس کی وجہ سے عشائیے کو معطل کر دیا گیا۔ ایرانی صدر چاہ رہے تھے کہ ان کے مذہب کا احترام کرتے ہوئے حلال گوشت کے انتظام کے علاوہ کھانے کی میزوں پر شراب موجود نہیں ہونا چاہیئے، یعنی اس عشائیے میں کوئی بھی شراب نہیں پیئے گا کہ یہ ان کی مذہبی اقدار کے خلاف ہے۔

لیکن فرانسیسی صدر فرانسوا اولاندے نے ایرانی صدر کی خواہش کو رد کر دیا۔ کہ ان کے ملک کی جمہوری (ریپبلیکن) اقدار کھانے کے مطابق میز پر گوشت کی موجودگی میں ریڈ وائن کا ہونا ضروری ہے۔ اور وہ کسی ملک کی مذہبی اقدار کے سامنے جھکنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔

فرانسیسی ٹی وی چینل آر ٹی ایک کے مطابق فرانسیسی صدر نے ایرانی صدر کو اکٹھا ناشتہ کرنے کی دعوت دی جہاں شراب نہیں ہو گی، لیکن ایرانی صدر نے اسی ایک سستی ڈیٹ ( A cheap date) کہہ کر رد کر دیا۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق فرانس صدارتی تقاریب میں کھانے کے دوران شراب رکھنے کے سلسلے میں بہت سخت رویہ رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے 2009 میں جب پچھلے عراقی وزیر اعظم نور المالکی فرانس تشریف لائے تو اس وقت کے صدر نکولس سرکوزی ے دیئے گئے عشائیے میں شرکت سے انکار کر دیا تھ کہ وہ کھانے کی میز پر شراب برداشت نہیں کر سکتے۔

ایرانی اقدار کی بے حرمتی کرنے کا ایک واقعہ دو سال پہلے سویڈن کے سفیر سے بھی سر زد ہوا تھا، جب وہ اس وقت کے صدر محمود احمدی نژاد کے سامنے ٹانگوںپر ٹانگ رکھ کر بیٹھے تھے۔ جس سے ان کے بوٹ کا تلا نظر آ رہا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ایرانی صدر نے اپنی اس بے عزتی کا بدلہ لینے کیلئے خود بھی اپنی ٹانگ دوسری ٹانگ کے اوپر رکھ دی تاکہ ان کے بوٹ کا تلا سویڈش سفیر کو نظر آئے۔

ایران پابندیوں کے ہٹنے کی وجہ سے بہت زیادہ خریداری کرنے نکلا ہے، اٹلی جرمنی سمیت ہر مغربی ملک اس کیک کا کچھ حصہ حاصل کرنا چاہ رہا ہے لیکن فرانس کے داخلی حالات شاید اس کے راستے میں حائل ہو جائیں۔ ملک میں دائیں بازو والے بہت طاقت پکڑ رہے ہیں۔ پچھلے سال سعودی بادشاہ کے فرانس میں چھٹیاں گزارنے کے موقع پر ارد گرد کے علاقے کو بند کرنے پر بہت زیادہ لے دے ہوئی تھی۔

ملک کے اندر فرانس کو اسلامائے جانے کا بہت زور و شور سے ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔ نیشنل فرنٹ ملک میں ہر جگہ کباب کی دوکانوں کے سٹالز اور دوکانوں کے ابھرنے کو فرانسیسی ثقافت پر حملے گردان رہا ہے۔ شائد مغربی معاشرے اپنا پرانا صبر کھو رہے ہیں؟۔

2 Comments