اِک خواہشِ سادہ

javedجاویداختر بھٹی

جب میں کالج میں ایف اے کا طالب علم تھا۔ان دنوں ذوالفقارعلی بھٹوکی حکومت تھی۔الیکشن ہوئے اور پھرتحریکِ نظام مصطفی چلی۔اس طرح مارشل لاء کی راہ ہموارہوئی اور ضیاء الحق کی قسمت میں مملکت خداداد کی بربادی لکھی تھی سو وہ ہوکے رہی۔

ان دنوں میرا ایک دوست تھا۔جب دوستوں میں گرما گرم بحث ہوتی تو وہ دوست بھی برابرشریک ہوتا۔لیکن تھوڑی دیر کے بعد اس کی گفتگو ختم ہوجاتی اور وہ بیزار ہوجاتا اور بحث کو ختم کرنے کے لئے وہ آخری جملہ بولتا۔’’چھڈوجی! نا تمہیں پتا ہے نا ہمیں پتا ہے۔بس باتیں کررہے ہیں۔‘‘ اس وقت تو دوست اس بات کو ہنسی میں ٹال دیتے تھے۔آج 40 سال بعد میں محسوس کرتا ہوں کہ وہ ٹھیک ہی کہتا تھا۔ اس ملک میں جو کچھ ہوا وہ ہماری سوچ سے مختلف تھا۔

ہمارے اندازے سے کہیں زیادہ مارشل لاء نے اس ملک کو برباد کیا اور جمہوری حکومتیں بھی کوئی بہتری لانے میں کامیاب نہ ہوئیں۔انقلاب لانے والے دنیا سے رخصت ہوئے اور ہم جو اپنے طور جمہوریت کے جیالے بنے پھرتے تھے ۔بوڑھے ہو رہے ہیں(نہیں بوڑھے ہو چکے ہیں)نہ ڈھنگ کی جمہوریت آئی اور نہ ہی انقلاب آیا۔

آج ٹی وی کے ٹاک شوز اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔ہم پی ٹی وی کی مخلوق تھے ۔نئے ٹی وی چینلزآئے اور ایسی زبردست گفتگو ہوئی کہ ہمارے ہوش اُڑگئے۔ہم آنکھیں گاڑے ٹی وی کے سامنے بیٹھ گئے۔ یہی حالت ہماری اس وقت ہوئی جب موبائل فون آئے وہاں ہمارے ہوش اس لئے اُڑگئے ، کہاں تو فون وزیرمشیر کی سفارش سے ملتے تھے اور اب ہر جیب میں گھنٹی بج رہی ہے ۔اس کے بعد جمہوریت کے بادشاہ ہمارے ہوش اُڑاتے رہے اور حکومت کرتے رہے۔تا حال کر رہے ہیں۔

آج کل ٹاک شوز کی گفتگو اتنی فضول ہے کہ جو کوئی سنتا ہے اور اسے درست سمجھتا ہے مجھے اس پر ترس آتا ہے کہ بیچارہ اپنا وقت ضائع کررہاہے۔یہ پروگرام دیکھنا اب فارغ لوگوں کا مشغلہ ہے۔

اِدھرہر اخبار میں کالموں نگار کی برسات ہورہی ہے۔ہر روز دودو صفحات کالموں سے بھرے ہوتے ہیں۔ہر کالم نگار کا خیال ہے کہ ہزاروں لوگ اس کا کالم پڑھتے ہیں۔ارشادحقانی مرحوم ہر کالم میں لکھاکرتے تھے کہ ’’ہم نے گزشتہ کالم میں اس مسئلے پر لکھا تھا لیکن حکومت نے توجہ نہ دی۔اب نتائج بھگتے۔صدر اور وزیراعظم کو عقل نہیں آتی وہ ہمارے کالم غور سے نہیں پڑھتے وغیرہ وغیرہ۔‘‘بے چارے اس اندازسے کالم لکھتے لکھتے راہئ عدم ہوئے ۔اس کے بعد یہ بیماری ایسی عام ہوئی کہ کالم نگاروں نے عوام کے لئے لکھنا چھوڑدیا اور حکمرانوں کے لئے لکھنے لگے۔

انہیں کون سمجھائے،کالم حکمرانوں کیلئے نہیں ہوتے ۔انہیں ان کالموں کی ضرورت نہیں ہوتی ۔یہ عوام کے لئے ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ کالم اور ٹی وی پروگرام اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔اس سے زیادہ ذلت کی بات اور کیاہوسکتی ہے ۔اینکر اپنے پروگرام میں کہتے ہیں ۔انہیں چڑیا خبردیتی ہے ۔اس چڑیا سے مراد سرکاری ادارے ہیں۔جہاں سے انہیں اطلاع ملتی ہے۔یہ بات اس لئے کہی جاتی ہے کہ سننے والا یقین کر لے ۔ایک بزرگ بتایا کرتے تھے کہ ایک مولانا جب تقریرکے دوران جذباتی ہوتے تو فارسی کا ایک شعر سُرمیں پڑھتے اور پھر کہتے ۔’’میں نہیں کہتا،یہ تمہارا باپ جامی کہتا ہے‘‘(صوفی شاعرمولانا نورالدین عبدالرحمن الجامی۔1414 ء ۔ 1472 ء۔معروف بہ جامی)۔

ہمارے اینکر بھی یہی کہتے ہیں۔’’میں نہیں کہتا۔یہ تمہارا باپ چڑیا والا کہتا ہے۔اب یقین نہیں کرتے تو جاؤ مزے کرو۔میری بات کا یقین نہیں آتا تو کل اپنے باپ چڑیا والے کو یاد کروگے۔‘‘(اسے نجم سیٹھی نہ سمجھا جائے ۔یہ کردار فرضی ہے۔)۔

اگر میں یہ کہوں کہ ایک اینکر بات کرنے سے پہلے جذباتی ہوجاتا ہے (جیسے سردار جی شراب آنے سے پہلے ٹُن ہوجاتے ہیں۔)اور دیوانوں سی خودکلامی کرنے لگتا ہے ۔یہ کالم نگار بھی ہے اورروزانہ ٹی وی پر آتا ہے۔(اسے حسن نثار نہ سمجھا جائے ۔یہ کردار بھی فرضی ہے)۔

جب خبردینے والے اور تجزیہ نگار دیکھتے ہی دیکھتے امیرہونے لگیں تو سمجھ لیں آپ کو سچی خبر نہیں مل رہی ۔آج صحافیوں کی ایک تنخواہ پر گزربسر نہیں ہوتی۔یہ سب اپنی جگہ درست ہے لیکن جب لوگ یقین کرنا چھوڑدیں تو پھر ان کی کیا حیثیت رہ جائے گی۔

محسن بھوپالی کے دو شعر پیش کرتا ہوں ان لوگوں کے لئے جو اخبار پڑھتے اور ٹی وی دیکھتے ہیں شاید انہیں اندازہ ہو کہ کاغذپر کیا چھپ رہا ہے اور ٹی وی پر کیا دکھایا جا رہا ہے۔

جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثۂ وقت کو کیا نام دیا جائے
میخانے کی توہیں ہے رندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے

2 Comments