جون ایلیا

ڈاکٹر طاہر منصور قاضی

abc

جناب سامعینِ کرام ۔۔۔ آج جس بھاری پتھر کو اٹھا نے کی ذمہ داری مجھ ناتواں پر آن پڑی ہے، وہ جون ایلیا کی علمی اور ادبی کاوشات کا جائزہ ہے جو قر یباَ 50 سال پر محیط ہیں ۔ جون ایلیا 1931 میں امروہہ میں پیدا ہوئے اور سن 2002 میں کراچی میں وفات پاِئی اس ستر، اکہتر سالہ زندگی میں دکھ ، سکھ ، بیماری ، ہجرت اور قبولِیت عام کی سند کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے زندگی کو اپنی جان پر سہا ہے ۔

رائیٹرز فورم کی طرف سے آج جون ایلیا پر گفتگو کی دعوت میرے لئے بڑی عزت کی بات ہے جس کے لئے میں انتظامیہ اور ممبران کا شکریہ ادا کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوںمیں جناب منیر سامی صاحب کا خاص طور سے شکر گزار ہوں کہ جب بھی مجھے کوئی مشکل مقام د ر پیش ہو یہ کتابیں میرے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں ۔ سو اِس دفعہ بھی یہی ہوا ، لکھنے کے حکم نامے کے ساتھ کتابوں کا پلندہ بھی تھا ۔ بقول پروین شاکر ۔۔۔ میں ، کس زباں میں ، بتا تجھ کو شکریہ لکھوں۔

یہ بات کوئی 20 برس پرانی ہو گی ۔ میں یونیورسٹی آف کیلگری میں نیا نیا وارد ہوا تھا کہ اچانک نزہت صدیقی صاحبہ کا فون آیا ۔ پوچھنے لگیں کیا جون ایلیا سے واقفیت ہے؟ میں نے ہاں میں جواب دیا اور حوالے کے طور پر چند ایک زبان ز دِ عام اشعار بھی داغ دیئے ۔۔۔

یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو

کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا

یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑ تا

ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

اور

میں بھی اذنِ نوا گری چاہوں

بے دلی بھی تو لب ہلاتی ہے

کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے

روز اک چیز ٹو ٹ جاتی ہے

کہنے لگیں ، یہ سب تو ٹھیک ہے مگر ان کی نظم رمزِ ھمیشہجو ان کے مجموعہ کلام شایدمیں ہے ، کو پڑھے اور سمجھے بغیر نہ جون ایلیا سے تعارف مکمل ہو سکتا ہے اور نہ ہی اردو شاعری کے فکری سرمائے سے ۔ یہ نظم اپنی نامیاتی وسعت میں اور کاسمالوجی کے اعتبار سے دنیا کی عظیم ترین نظموں میں شامل ہونے کے لائق ہے۔ اس کے بعد یہ نظم انہوں نے فون پر سنائی اور سبحان اللہ ، ہزار مرتبہ سنائی ۔ بھلا ہو نزہت کا کہ جن کی بدولت مجھے پہلی دفعہ جون ایلیا کے تدبر اور وسعتِ نظر کا اندازہ ہوا ۔ میں نے فوراَ یہ نظم نجانے کتنے ہی اور دوستوں کو سنائی اور اب بھی یہی عالم ہے ۔ ہر دفعہ اس نظم میں ایک نئی معنی آفرینی محسوس ہوتی ہے ۔ اس نظم کی تفصیل تو پھر کبھی سہی مگر میں جون ایلیا کی نظری وسعت اور فکری گہرائی کا اسیر ہو کر رہ گیا۔

جون ایلیا کی تمام شاعری اور نثری تحریر کے اندر فکر ، انگیخت اور جذباتی تنا وء کے پیرائے میں ایک رائیگانی کی دکھتی رگ ہے اور مرگِ انبوہ کا ایک ماتم ہے جو قدیم یونانی ٹریجڈی کی یاد دلاتا ہے زندگی کو مرتسم کرنے کے تخلیقی لمحے میں بہ حیثیتِ شاعر اور نثر نگار جون ایلیا وہ ما سک mask ہیں جسے قدیم یونانی ڈرامہ کار اپنے چہرے پہ چڑہاتے تھے۔ اسے انگریزی لٹریچر کی اصطلاح میں پرسونا Persona کہا جاتا ہے کیونکہ اصلِ حقیقت تو وہ تخلیقی قوت ہے جس کا اظہار مو قلم، ساز ، i گلِ تازہ اور تھرکتے پاوںہیں اور شاعر ، موسیقار ، ادا کار اور تخلیق کار تو اُس تخلیقی وحدت کا محض آلہء کار ہیں۔

جون ایلیا سر شار ، مجذوب اور سر تا پا ایک تخلیق کار تھے اور انہوں نے اپنے وجدان کو تخلیق کے الوہی دھارے پہ چھوڑ رکھا تھا جس کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ان کے اندر اور باہر ، ہر جانب تھا ۔ تخلیقی وجدان کے سمندر کی گہرائی اور گیرائی کا احاطہ انسان کے بس سے باہر ہے۔ سو تخلیقی وجد میں ڈوبے ہوئے جون ایلیا شعروادب کے معاملے پُر گو ہونے کے باوجود زندگی بھر رائیگاںی کے احساس میں رہے ۔۔۔ کیسے میں بھر لاوءں مدھوا سے مٹکی۔ انسانی معاشرے کے مجموعی رویوں کا ملال بھی اُن کے یہاں کچھ ایسا ہی ہے :

ایک ہی حادثہ تو ہے، اور وہ یہ کہ آج تک

بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سنی گئی ۔

بات سننے، کرنے اور کہنے سے پہلے سوچنے کا عمل کوئی Spontaneous Generation” جیسی چیز نہیں ہے ۔ اس کے لئے شعور کو فکر کی تربیت چاہیئے ۔ سوچ اور فکر کا ذکر چلا ہے تو یاد آیا کہ 800 سال قبل ازمسیح سے 200 سال ق۔م تک کا زمانہ Axial Age کہلاتا ہے کیو نکہ اُس زمانے میں چار دانگ عالم سے فکر و دانش کی بہت سی تحریکیں شروع ہوئیں ۔ علماء تو یہاں تک کہتے ہیں کہ وہ قومیں جنہوں نے Axial Age میں اپنا فکری حصہ نہیں ڈالا ، وقت نے انہیں نیست و نابود کر ڈالا ہے ۔ اُس زمانے کا مطالعہ دراصل نوع انساں کے فکری ارتقاء کو سمجھنے کے لئے نہا یت ضروری ہے ۔ یہ وہی زمانہ ہے جب خدائے واحد کے نظریئے نے جڑ پکڑی ، ہندوستان میں بدھ مت کی روشنی پھیلی ، چین میں حضرت کنفیو شس اور یورپ میں Rationalism جنم لیتا ہے جس کے بانی مبانی سقراط علیہ السلام مانے جاتے ہیں ۔ تاہم اسی زمانے میں یونان سے فلسفیوں کا ایک اور گروہ اٹھا جو سوفسٹ Sophistکہلاتا ہے ۔ یہ لوگ خاص طور سے علم البیان کے پرچارک تھے اور اس کی ترویج میں ان کا بڑا کام اور مقام ہے ۔

جون ایلیا نے جہاں مشرقی علوم اور مغربی فلسفے کی تعلیم حاصل کی وہیں سوفسٹ سکول سے بھی کسبِ فیض کیا بلکہ ان کے طرزِ استدلال کو استعمال بھی کیا ۔ کہا جاتا ہے کہ معنی، لفظ کا خالق ہے ۔ جون ایلیا کے اندر کا سوفسٹ اس نقطئہ نظر کو کس طرح چیلنج کرتا ہے ۔ ذ را مثال ملاحظہ ہو :

ہاں لفظ ا یجاد ہیں

یہ ہزاروں، ہزاروں برس کے

سراسیمہ گر اجتہادِ تکلم کا انعام ہیں

ان کے انساب ہیں

اور پھر ان کی تاریخ ہے

اور معنی کی تاریخ کوئی نہیں ۔

تو جون صاحب سوفسٹ ہونے کے ناطے فرماتے کہ معنی کا نہ کوئی حسب نسب ہے اور نہ ہی اس کی کوئی تاریخ ہے اس جگہ میں نے یہ مثال اس وجہ سے پیش نہیں کی کہ کسی طور معنی کا نسب نامہ اونچا کروں ۔ میرا مطمع نظر ایک الّوین Illusion کو واضح کرنا ہے اور جون ایلیا کے کمالِ بیان کا اعتراف کرنا ہے کہ وہ کس طرح سے لفظ کےساتھ با ز یگری کر سکتے ہیں ۔ کسی دوسری جگہ کہتے ہیں :

وہ خجستہ وہ خوش ماجرا روز و شب

روز و شب ہی نہ تھے

اک زمانِ الوہی کا انعامِ جاری تھے

اور ایک رمزِ ہمیشہ کا

سر چشمئہ جاوداں تھے

وہ سر چشمئہ جاوداں جس کی تاثیر سے

اپنا احساسِ ذات ایک الہام تھا

جس سے روحِ د ر و بام سرشار تھی

اُس فضا میں کوئی شے فقط شے نہ تھی

ایک معنی تھی

معنی کا فیضان تھی

سامعینِ گرامی : اب ہم پھر سے لفظ اور معنی کے رشتے کی طرف واپس لوٹ آتے ہیں ۔

لفظوں کے حسب نسب کا کھوج نکالنے والے محققین نے لغات کی جلدوں پر جلدیں مرتب کر دیں ہیں ۔ معنی کو اس طرح کے تحقیق دان میسر نہیں آئے مگر خوش قسمتی سے معنی حصے میں تخلیق کار آئے ہیں جو Libido یعنی زندگی کی رگوں میں دوڑنے والی لائف فورس کی کشیدہ کاری کرتے چلے آئیں ہیں اور کرتے رہیں گے ۔ زندگی خود سے ایک معنی ہے ، زندگی کا شعور ایک معنی ہے ۔ معنی موسیقی ہے۔ معنی موسیقی کی راگنی کے بیچوں بیچ بنا ہوا خامشی کا وقفہ جس پر سُر قربان ہو ہو جا تا ہےاِسے کہیں اور سے ہونےکی سند لینے کی ضرورت نہیں۔ بس یہی رویہ اور یہی اندازِ فکر Existentialism ہے جس میں Ontosہونےکے اندر معنی کا موج د ر موج بہتا دریا ہے ۔ لفظ اگر معنی سے pregnant نہ ہو تو یہ بہت بنجر اور بے جان چیز ہے ۔ لفظ کے امکان کا جوہر معنی میں مزمر ہے جو عہد نامہء قدیم میں Genesis یعنی سورہ پیدائشمیں ہے اور قرآن کا کُن فیکونہے ۔

مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ جون ایلیا نطشے کے uberman سے کسی طور متاثر تھے یا نہیں مگر یقیناَ کسی نہ کسی سطح پر وہ انسان کے اجتمائی امکانات کے متمنی ضرور تھے۔ ان کے نزدیک انسان کا مجموعی امکان گردشِ دوراں کی چکی میں پسے جانے کے باوجود ققنس Phoenixپرندے سے مطابقت رکھتا ہے جو زندہ ہو کر مرتا ہے اور مر مر کر زندہ ہوتا ہے ۔ نظم فونیسکی چند لا ئینیں ملا حظہ ہوں :

میں جو اب ایک رسوا کنِ آلِ ققنس ہوں

بائیس خواجہ کی چوکھٹ کا ، اپنے پر و بال سے

ایک جاروب کش ، اک مجاور رہا ہوں

مگر اب میں روزانہ پیتا ہوں، روزانہ

اپنے تنفس کی بخشش سے زہرِ ہلال

کی نعمت پہ جیتا ہوں

اب مری زندگی کا ہزرارہ تمامی پہ ہے

والسلامُ علی من یحب الصناء

والسلامُ علی من یر ید الو فا ء ۔۔۔۔۔ یعنی ۔۔۔ سلام ان پر جو وفا پرست ہیں

سامعینِ کرام : جون ایلیا جو من یرید الوفاءکی وفا پرستی سے سرشار ہیں اور اِسی پہ سلام بھیجتے ہیں ۔۔۔ ان کی اپنی وفا زبان سے ہے ، تاریخ سے ہے ، تہذیب سے ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان سے ہے ۔ اُن کی ذات کی یہ سب جہتیں اِس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہ دیوانہ شاعر ہی نہیں بلکہ دانشور بھی تھے ۔ یہ سب باتیں تفصیل کی متقاضی ہیں مگر ایک بات جس کی طرف توجہ ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جون ایلیا ایک انٹیلیکچول intellectual کی حیثیت میں آج کے معاشرے میں انسان کی شکست و ریخت کے اندو ہ سے پوری طرح واقف تھے ۔ شکست و ریخت کے اس عمل کو کلچرل سبوتاز کا نام بھی دیا جاتا ہے ۔

کلچر جو پرانے زمانوں سے تاریخ کے دھارے میں شخصی اور معاشرتی رویوں کی طنابیں سنبھال کر رکھتا تھا ۔۔۔ کلونیل، نیو کلونیل اور اب کے گلوبل امپیریل ازم کے بگولوں کی نذ ر ہو گیا ہے اور مزید ہو رہا ہے۔ ان سونامیوں میں انسان اپنی جڑوں سے اکھڑ گیا ہے اور اس کی شناخت کے تمام آزمودہ نسخے پامال ہو کر رہ گئے ہیں ۔ یہاں میں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ یورپ اور امریکہ میں شناختکے مسئلے پر نفسیات اور سوشیالوجی کے نقطہَ نظر سے کئی دہائیوں سے تحقیق ہو رہی ہے ۔ یہ علیحدہ سے ایک توجہ طلب موضوع ہے مگر میں یہ ضرور کہوں گا کہ ہمارے یہاں شناخت کے موضوع پر اور اس سوال کے جواب میں اسلام اور پاکستانی نیشنل ازم کا جھنڈا کھڑا کر دیا جاتا ہے جو کہ معاملے کی نوعیت کے اعتبار سے نہا یت نا کافی ہے جون ایلیا اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ تاریخ اور تہذیب کا راندہء د رگاہ کہیں کا نہیں رہتا اور یہی وجہہ ہے کہ جون ایلیا کے یہاں شاعری اور نثر میں تاریخ کے حوالے جا بجا ملتے ہیں ۔ میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ نارملکی اصطلاح ایک متنازع معاملہ ہے لیکن نارملکا حصول ہمیشہ سے انسان کا مطمعِ نظر رہا ہے انسانی نفسیات کی یہ جہت ہمیشہ اس بات کی متقاضی ہوتی ہے کہ انسان نارمل رہنے کے لئے تاریخ و تہذیب کے اندر رچا بسا ہوا ہو ۔ اس موضوع پر بڑی توجہ طلب باتیں ان کی نثر میں ہیں مگر آپ یہی بات اب جون ایلیا سے نظم کی زبان میں ملاحظہ فرمائیے :

ہم کو اپنا نسب نامہ تا آدمِ بوالبشر یاد تھا

قبلِ تاریخ کی ساری تاریخ ذہنوں میں محفوظ تھی

ہم کو صبحِ نخستینِ ایجاد سے

اپنے اجداد تک

اپنے دالان و د ر

اُن کی بنیا د تک

ساری تفصیلِ کون و مکاں یاد تھی

ہم سب اپنے یقین و گماں کے فرحناک

اسرار میں

شاد و خرم تھے

خوش بین و خُرسند تھے

اے خداوند ، میں تجھ سے معمور تھا ۔

سامعینِ کرام ۔۔۔ میں نے حوالے کے لئے یہ چند لائینیں اُن کی نظم رمزِ ہمیشہجس کا ذکر میں پہلے بھی کر چکا ہوں ، سے انتخاب کی ہیں ۔ کون و مکاں کا جو حوالہ اس نظم میں ہے ، اُس کی تفصیل جون ایلیا کی کتاب فرنوداور اُن کی کتاب شایدکے دیباچے میں ہے مگر یہ کہنا بے محل نہ ہو گا کہ وہ جس آسانی سے اپنی بات کہنے پہ قادر ہیں ، انسانی تاریخ میں اُسی بات کی ترسیل کی سعی کرتے ہوئے ہزار ہا آبلہ پا گزرے ہیں لیکن جون ایلیا ہزار ہا سالوں کی تاریخ کا ست نچوڑتے ہیں تو زبان سادہ اور بیان سلیس ہے ۔کبھی کبھی تو بقول یاس یگانہ چنگیزی یوں محسوس ہوتا ہے کہ 

یہ کنارہ چلا کہ نا وء چلی

کہیئے کیا بات دھیان میں آئی

انسان کا شعوری سفر اب تاریخ کے جس مقام پر ہے اُس میں ظالم کی دراز دستی اور جبر و استبداد کی داستان کہنے میں جون ایلیا سے زیادہ پُر انگیخت اور کون ہو گا ۔ انہیں کی زبانی سنئے اور سر دھنئے :

ابھی کچھ باتیں باقی ہیں جن کا بیان ضروری ہے ۔ ہم دانتے کا اعتراف و احترام کرنے میں کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے ۔ جبکہ اس نے آنحضرت اور حضرت علی کی شان میں شدید گستاخی کی تھی ۔ ہم ڈارون اور لیمارک کے نظر یئہ ارتقا پر گفتگو کرتے اور اس پر لکھتے ہوئے کوئی خوف محسوس نہیں کرتے ۔ حالانکہ یہ نظریہ مذہب کے خلاف ہے ۔ ہم فرائیڈ کے جنسی نظرئیے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے اپنے آپ کو بالکل محفوظ پاتے ہیں جب کہ اس نظرئیے کے مطابق ایک بچے کا منہ میں چسنی لینا اور اسے چوستے رہنا اور ایک بوڑھے کا کسی مقدس شے کو بوسہ دینا ، ان دونوں کا محرّک جنس ہے ۔ اور منارے اور گنبد جنہیں ہم مقدس حیثیت دیتے آئے ہیں جنس کی علامتیں ہیں ۔ یہ نظر یات و خیالات صحیح ہوں یا غلط ، یہ اُن لوگوں کے نظر یات ہیں جنہیں امریکہ اور دوسرے سرمایہ دار ملکوں کے سیاسی کلیساوءں نے کبھی اپنی برہمی کا نشانہ نہیں بنایا لیکن جرمنی کے ایک غریب اور فاقہ کش مفکّر نے جو اپنے مرتے ہوئے بچے کا علاج تک نہیں کر سکا ، جو اس کے مرنے پر کفن خریدنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتا تھا ، اس نے جب انسانوں کے بنیادی مسئلے کی سائینسی نشان دہی کی تو وہ سرمایہ داروں کی تمام اقلیموں میں مذہب روحانیت اور اخلاق کا باغی اور غدّار ٹھہرا ۔ یہ شخص مارکس تھا یہ شخص جو نیم فاقہ کشی کی حالت میں ساری دنیا کے انسانوں کے دکھ کا مداوا سوچا کرتا تھا اور ایک دن اپنے عظیم اور قابلِ تمجید استغراق کی حالت میں بیٹھے بیٹھے مر گیا ہم جب تاریخِ فکر کے اس محبوب اور برگز یدہ بوڑھے اور اس کے حکیمانہ نظریئے کا ۔۔۔ کمیونزم کا ذکر کرتے ہیں اور اس کے ذریعےَ اپنے عوام کی نیم جاں زندگی کا مداوا چاہتے ہیں تو ہم نئے مغربی سامراج اور اس کے مقامی دلّالوں لے نزدیک اپنے ملکوں کے باغی اور غدار ٹھہرتے ہیں ۔

میں محسوس کر رہا ہوں جیسے میں فریادی ماتم کرنے لگا ہوں اور انفعالیت کا شکار ہو گیا ہوں نہیں جناب ایسا ہر گز نہیں ہے ، میں تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سرمایہ داری نظام کے قحبہ خانوں کا گریبان پکڑ کر انہیں سرِ عام کھینچ کے لانا ہمارے فنون اور ہماری دانش کا فرض ہے ۔ امریکہ اور مغربی یورپ کی ڈیرے دار سرمایہ داری کا وجود بیسویں صدی کے تہذیبی شعور اور عمرانی احساسِ جمال کی توہین ہے ۔

یہ تو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے میعادِ ستم

جُز حریفانِ ستم کس کو پکارا جائے

وقت نے ایک ہی نکتہ تو کیا ہے تعلیم

حاکمِ وقت کو مسند سے اتارا جا ئے ۔

سامعین : افسوس کی بات یہ ہے کہ جون ایلیا جیسے سنجیدہ مفکر کی عمومی پہچان اپنے فکری حوالوں کی بجائے روز مرہ کی زبان میں لکھی ہوئی غزل سے ہے ایک جہان صرف اور صرف ان کی غزل سے واقف ہے اور مشاعرے میں وہ خود بھی غزل ہی پڑھتے تھے ۔ لیکن آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ میں نےان کی غزل کا حوالہ نہ ہونے کے برابر دیا ہے اس کی وجہ بڑی سادہ ہے۔ چونکہ غزل کا پیرایہ فکری دلیل کے لئے ناکافی ہوتا ہے اس لئے ان کے تفکر کی مختلف جہات جن کا ذکر میں نے اس مضمون میں کیا ہے وہ اُن کی نثر اور نظم میں نمایاں ہیں جن کی ترسیل عوام الناس تک نہیں ہو سکی لیکن اِس سے اُن کا تخلیقی مقام متاثر نہیں ہوتا کیونکہ علم و حکمت کے متلاشی اُن کے فکری سرمائے سے ہمیشہ مستفید ہوتے رہیں گے ۔ ۔۔ شکریہ

 

3 Comments