نوازحکومت کے آمرانہ رویے

عظمٰی اوشو

NawazSharif-QaimAliShah-Karachi_7-1-2015_189798_l

وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی اسلام آباد میں وزیر اعظم سے ملاقات کوئی مفاہمتی راستہ نکالنے میں فی الحال نا کام نظر آتی ہے ۔پچھلے چند ہفتوں سے سندھ حکومت اور وفاق میں سرد جنگ جاری ہے وجہ تنازعہ رینجرز کے سندھ میں لا محدود اختیارات ہیں ۔

سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ وفاق ہماری صوبائی خود مختاری کو چیلنج کر رہا ہے اوروفاق کا کہنا ہے کہ ہم نیشنل ایکشن پلان کو کا میاب بنانے کے لیے رینجرز کو لا محدود اختیارات دینا چاہتے ہیں ۔یہ ساری صورت حال کافی کمپلیکس ہے۔ 18 ویں ترمیم کے بعد صو بے اپنے انتظامی معاملات چلانے میں خود مختار ہیں اوراس خود مختاری سے نہ صرف سندھ بلکہ دوسرے صوبے بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ہاں یہ الگ بات ہے کہ سندھ حکومت اپنی صوبائی خود مختاری پر کا فی عرصہ سے کمپرومائز کیے ہو ئے تھی جو نہیں کرنا چاہیے تھا ۔

جہا ں تک بات ہے نیشنل ایکشن پلان کی تو اس میں محکموں کی کر پشن کو شامل کرنا کا فی مضحکہ خیز صورتحال ہے ۔نیشنل ایکشن پلان اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام سیا سی جماعتیں متفق ہیں۔ دہشت گردی کا نشانہ بننے والی جماعتوں میں سندھ کی حکمران جماعت سر فہرست ہے جس نے اپنی لیڈر محترمہ بینظیر سمیت بے شمار کارکن اس دہشت گردی کی وجہ سے کھو دیے ۔مگر اس کے باوجود ملک میں جمہوریت کے سفر کو رکنے نہیں دیا۔

آصف علی زرداری پر اس حوالے بہت تنقید ہوئی لیکن وہ میثاق جمہوریت پر قائم رہے ۔نواز حکومت کو اقتدار میں آئے ابھی اڑھائی برس ہی ہوئے ہیں تو انہوں نے کچھ ایسی غلطیوں کو دہرانے کی ریت برقرار رکھی جس کی وجہ سے وہ پہلے بھی نہ صرف خود مشکلات کا شکار ہوئے بلکہ جمہوریت کو بوٹوں کے نیچے روندنے کا سبب بھی بنے اور پھر ایک طویل جدوجہد کے بعد جمہوریت کی ریل پٹڑی پرچڑ ھ سکی ۔2008 میں بھی وفاق اور صوبہ اختیارات سے تجاویز کے مسئلہ پر آپس میں ٹکرائے تھے مگر اس وقت پیپلز پارٹی وفاق میں تھی اور ن لیگ پنجاب میں۔

اختلافات کی وجہ چیف سیکرٹری کی تقرری بنی تھی اس وقت چوہدری نثار صوبائی خود مختاری کے سب سے بڑے وکیل تھے ۔موجودہ تنا زعہ رینجرز کے اختیارات پر شروع ہوا ۔رینجرز کا دہشت گردی کے خلاف آپریشن وقت کی اہم ضرورت ہے مگرآئین اورقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ۔سندھ میں رینجرز آپریشن کے بعدایک با اثر آواز سنائی دی کہ کرپشن کے خلاف بھی کاروائیوں کا آغاز کر دیا اس میں کوئی شک نہیں کہ کرپشن معاشرے کو کھوکھلا کر رہی ہے اور ہر پا کستانی متمنی ہے کہ کر پشن کا خاتمہ ہو لیکن عقل کی کسوٹی پررکھ کر سو چا جا ئے تو کرپشن ٹارگٹ سے ختم نہیں ہوتی اس کے لیے پورا پراسس ہوتا ہے اور یہ پراسس اس وقت تک کامیاب نہیں ہوتا جب تک جمہوری ادارے مضبوط نہیں ہوتے ۔

پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، بد نصیبی سے ہمیشہ کر پشن کو جواز بنا کر ہی جمہوریت کے چراغ گل کیے گئے ہیں اور اس کا آغاز سیاسی جماعتیں کرتی ہیں قانونا اور آئین پا کستان کے مطابق کسی بھی سیکورٹی ادارے کو صوبائی اداروں کی کرپشن کی چھان بین یا کاروائی کرنے کا اختیار نہیں ہے ۔کرپشن کے احتساب کے لیے ملک میں علیحدہ اداراے موجود ہیں ۔اس وقت ضرورت ہے کہ ان اداروں کو با اختیار اور مضبوط بنایا جائے نہ کہ احتساب کا کام بھی سیکورٹی اداروں کے حوالے کر دیا جا ئے تو پھر جو ادارے احتساب کے لیے بنائے گئے تھے ان کو قومی خزانے پربوجھ کیوں بنایا ہوا ہے ۔انہیں بند کردینا چاہیے۔

جب ادارے اپنی حدودسے باہر نکلتے ہیں تو 90 دن بعد بھی یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ ڈاکٹر عاصم دہشت گرد ہے یا کر پٹ ،پھر وزیر داخلہ کو اپنے سلطانی رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے میڈیا سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے پاس ڈاکٹر عاصم کی وڈیو ہے وہ ہم جاری کر دیں گے جس ملک کاایک اہم وزیر ایسی سودے بازی کررہا ہو وہاں اچھے کی امید کیسے ہوسکتی ہے ۔ایک بندے کی آپ 200 گھنٹے کی ویڈیو بناتے ہیں اور پھر صوبے کو بلیک میل کرتے ہیں ۔آخر ایک جمہوری حکومت کیوں غیر جمہوری طریقہ سے کرپشن کی تحقیقات کرنا چاہتی ہے ۔اس سارے عمل سے تو پتہ چلتا ہے کہ معاملہ احتساب کا نہیں وجہ کچھ اور ہے ۔

کیا ایک صوبے کو ایک ایسے ادارے کے حوالے کر دینا جس کا مینڈیٹ ہی نہیں کہ وہ کرپشن کے نام پر صوبائی اداروں کے ریکارڈ اپنے قبضے میں لے جس ادارے میں چاہیں دندناتے ہوئے گھس جائیں تو کیا اس سے جمہوریت پنپنے گی یا پھر میاں نواز شریف سے ان کے کچھ پیارے ایسی غلطی کروانے جا رہے ہیں جس کاخمیازہ ان سمیت ساری قوم بھگتے گی کہ ایسے سیکورٹی ادارئے صرف قائم علی شاہ کے صوبے کوٹارگٹ کر کے خاموش ہوجائیں گے یا پھر کسی دوسرے صوبے کے وزیر اعلیٰ کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جا ئیگا جن پر نندی پاور پراجیکٹ ،میٹرو بس ،اورنج ٹرین اور دھشت گردوں کو شیلٹر دینے جسے الزامات کی باز گشت سنائی دیتی ہے ۔

یہ انتہائی تلخ حقائق ہیں جوشاید اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے میاں نواز شریف کو سمجھ نہیں آرہے انہیں یہ سمجھ جا نا چاہیے کہ ملک میں جمہوری اقدار کے لیے ضروری ہے کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان ہم آہنگی رہے اور تنازعات کا حل قانونی طریقہ سے نکالا جا ئے۔ سندھ میں احتساب ضرور ہونا چا ہیے مگر نہ انصافی نہیں اس صورت حال میں وزیر اعظم کو حکمت عملی سے کا م لینا ہو گا ورنہ اس آ گ کی لپیٹ میں پورا گھر آئے گا ایک کمرہ نہیں ۔

Comments are closed.