ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

 بھارتی پریس سے ۔۔ظفر آغا 

nawaz-narendra-meeting (1)
کمال ہوگیا! پٹھان کوٹ ایئربیس پر پاکستانی دہشت گرد حملے کے باوجود ہند و پاک مذاکرات معطل نہیں ہوئے ۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ پندرہ جنوری کو اسلام آباد میں دونوں ممالک کے خارجہ سکریٹریوں کی جو گفتگو ہونی تھی وہ کچھ عرصے کے لئے ملتوی ہوگئی ۔ لیکن یہ مدت بھی لمبی نہیں ہوگی ۔

تازہ ترین خبروں کے مطابق ہمارے خارجہ سکریٹری پی شیوشنکر مینن اس ماہ پاکستان جانے والے ہیں اور دہشت گرد حملے کے باوجود ہند و پاک گفتگو کا سلسلہ جاری رہے گا ۔ یہ اسی لئے ممکن ہوا کہ پچھلے ماہ وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے ہم منصب نواز شریف کے درمیان جو عہد و پیمان لاہور میں ہوئے تھے ان کو یہ دونوں حضرات دہشت گردوں کے دباؤ میں توڑنے کو تیار نہیں ہیں ۔

اب سوال یہ ہے کہ مودی اور شریف کے درمیان لاہور میں کیا طے ہوا تھا ۔ یہ تو خود وہی بتاسکتے ہیں لیکن قیاس ہی نہیں بلکہ عقل بھی یہی اشارہ دیتی ہے کہ مودی اور شریف نے دو باتیں ہی طے کی ہوں گی ۔ پہلے تو دونوں نے ایک دوسرے سے یہی سوال کیا ہوگا کہ آیا ہم ہند و پاک کے درمیان واقعی مستحکم امن قائم کرنا چاہتے ہیں یا نہیں ؟ اور اگر ہم دونوں (یعنی مودی و نواز) امن کے خواہاں ہیں تو پھر امن برقرار رکھنے کے لئے ہر کوشش کریں گے ۔

ظاہر ہے کہ دوسری اہم بات جو ان دونوں وزرائے اعظم کے درمیان ہوئی ہوگی وہ یہی ہوگی کہ اگر امن قائم کرنے کی کوششوں میں رخنے ڈالے گئے تو کیا ہم واجپائی ، منموہن سنگھ اور مشرف کی طرح دباؤ میں آکر گفتگو ختم تو نہیں کریں گے ۔ اس نکتے پر مودی اور نواز کے درمیان عہد و پیمان ہوا ہوگا اب ہم دباؤ میں نہیں آئیں گے ۔ ظاہر ہے کہ دباؤ دو ہی طرح سے ہوسکتا تھا یا تو ہندوستانی فوج بلاوجہ پاکستانی سرحد پر گولی باری شروع کردے اور پاکستان دباؤ میں آکر گفتگو بند کردے ۔

ہندوستان ایسا کرنے والا نہیں ہے ۔ اس لئے دباؤ صرف پاکستان کی جانب سے دہشت گرد حملے کی شکل میں ہوسکتا ہے  ۔اور ہوا بھی وہی ۔ نریندر مودی کو لاہور سے واپس آئے پورے تین ہفتے بھی نہیں گزرے تھے کہ دہشت گردوں نے پٹھان کوٹ ایئربیس پر حملہ کردیا  ۔

بس یہی نریندر مودی کے لئے امتحان کی گھڑی تھی ۔ کیونکہ یہ وہی مودی ہیں جنہوں نے ایسے ہی حالات میں منموہن سنگھ کی تمام کوششوں کو ناکام بنادیا تھا  ۔اب بحیثیت وزیراعظم خود مودی کو فیصلہ کرنا تھا کہ آیا وہ جذباتی فیصلہ کریں یا پھر ملک کے مفاد میں سوچا سمجھا فیصلہ کریں ۔ مودی خاموش ہوگئے ۔ پس پردہ نواز شریف سے فون پر گفتگو کی ۔ جو ثبوت پاکستانیوں کے ملوث ہونے کے ملے تھے وہ پاکستان بھجوائے ۔ پھر انتظار کیا کہ نواز شریف اب اپنی جانب سے کیا کرتے ہیں ۔

نواز شریف بھی وعدے کے کھرے ثابت ہوئے ۔ انہوں نے جیش محمد کے افراد کو گرفتار کرنا شروع کردیا ۔ فوج اور آئی ایس آئی پر دباؤ ڈالا کہ ہم اپنے وعدے سے منحرف نہیں ہوسکتے ہیں ۔ بس اس کے بعد مودی حکومت نے پاکستان کے خلاف کوئی شور شرابہ نہیں کیا اور اس طرح ابھی تک ہند و پاک مذاکرات ختم ہونے کے آثار نہیں پیدا ہوئے بلکہ ہمارے فارن آفس نے یہ اعلان کیا ہے کہ ہمارے خارجہ سکریٹری ’’بہت جلد‘‘ پاکستان جائیں گے ۔

اس طرح نریندر مودی اور نواز شریف دونوں نے واقعی کمال کردیا۔ لیکن کیا پاکستانی فوج اس قدر آسانی سے مان جائے گی ۔ وہ جیش محمد ہو یا لشکر طیبہ یا پھر ان کے سربراہ مسعود اظہر ، یہ سب پاکستانی فوج کے چہرے ہیں ۔ یہ تنظیمیں ہندوستان کے ساتھ امن قائم نہ ہو اس مقصد سے بنائی گئی ہیں اور ان کو جو فنڈ مل رہے ہیں وہ فوج اور آئی ایس آئی کی جانب سے ہی ملتے ہیں ۔

دراصل 1980 کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق کی قیادت میں پاکستان نے دہشت گردی کو اپنے تحفظ کی حکمت عملی کا ایک اہم جز بنایا تھا ۔ اس پالیسی کا مقصد اپنے ہمسایوں کو دہشت گردی کے ذریعہ خود ان کے ملک کے اندر پریشان رکھنا تھا تاکہ ان کی فوج اپنے اندرونی معاملات میں الجھی رہے اور پاکستان کی طرف نگاہ نہ اٹھائے ۔ چنانچہ افغانستان کوتنگ کرنے کے لئے طالبان اور پاکستانی طالبان بنائے گئے اور ہندوستان کو پریشان کرنے کے لئے حافظ سعید اور مسعود اظہر جیسوں کو کھڑا کیا گیا ۔

ظاہر ہے کہ پاکستانی فوج ان کو پیسہ ،ٹریننگ سب کچھ مہیا کرواتی ہے اور یہ تنظیمیں پاکستانی فوج کے اشارے پر ہی کام کرتی ہیں اور اس کے عوض میں ان کو پاکستانی فوج تحفظ عطا کرتی ہے ۔ پٹھان کوٹ ایئربیس پر حملہ پاکستانی فوج کی ایما پر ہی ہوا تھا  ۔نواز شریف اور مودی کی کوششوں سے پاکستانی فوج ناراض ہواٹھی تھی ۔ اس لئے فوراً پٹھان کوٹ مسعود اظہر کے گرگے بھیج دئے گئے ۔ چنانچہ سوال اب یہ ہے کہ کیا پاکستانی فوج آسانی سے ہتھیار ڈال دے گی ۔

اس سوال کا جواب اور حل نریندر مودی کو نہیں بلکہ نواز شریف کو تلاش کرنا ہے ۔ اور سوال کچھ یوں ہے کہ کیا نواز شریف پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کو اپنے قبضے میں کرلیں گے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے یہی کوشش کی تھی تو فوج نے ان کو پھانسی  پر لٹکا دیا تھا ۔ خود نواز شریف نے جب واجپائی کے ساتھ دوستی بڑھائی تھی تو مشرف نے کارگل رچ دیا تھا ۔ اب منموہن اور مشرف کی گفتگو پس پردہ رنگ لانے لگی تو ممبئی پر دہشت گرد حملہ ہوگیاتھا ۔

ابھی جب نواز اور مودی نے ایک قدم بڑھایا تو فوراً پٹھان کوٹ ہوگیا ۔ تو کیا اب پاکستانی فوج مودی اور نواز کے ارادوں کے آگے ہتھیار ڈال دے گی ؟ یہ اس قدر آسان نہیں ہے ۔ ہندوستان پر پھر کوئی دہشت گرد حملہ ہوسکتا ہے ۔اگر پھر بھی نواز نے ہتھیار نہیں ڈالے تو پاکستان میں فوجی بغاوت ہوسکتی ہے اور نواز شریف کی وہی گت بن سکتی ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کی بنی تھی ۔

جنگ بے حد آسان ہے ، قیام امن اسی قدر مشکل کام ہے ۔ اس لئے یہ مت سمجھئے کہ اگر پٹھان کوٹ کے باوجود ہمارے خارجہ سکریٹری پاکستان چلے گئے تو بس ہند و پاک کے درمیان تمام مرحلے طے ہوگئے ۔ بس یوں سمجھئے کہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں ۔ پھر حملہ ہوسکتا ہے اور نواز شریف کی جان و اقتدار دونوں خطرے میں پڑسکتے ہیں ۔ اس لئے لاہور میں مودی اور نواز شریف نے جو عہد و پیمان کئے ہیں ان میں نواز شریف کی ڈگر بہت کٹھن ہے۔

لیکن نواز شریف کو کامیابی تب ہی مل پائے گی جب مودی پوری طرح ان کا ساتھ دیں ۔ یعنی اگر کل کو دوسرا پٹھان کوٹ ہوتا ہے ، تب بھی ہندوستان ، پاکستان کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے ۔ اگر مودی اس کے لئے تیار ہیں تو ہند و پاک کے درمیان امن قائم ہونے کے امکانات بہت وسیع ہوجائیں گے اور اگر کہیں مودی بیچ میں پچک گئے تو بیچارے نواز شریف جان سے بھی جاسکتے ہیں ۔

اب دیکھیں امن کی وہ بساط جو مودی اور نواز نے لاہور میں بچھائی تھی اس پر یہ دونوں مل کر پاکستانی فوج کو مات دے پاتے ہیں یا نہیں ۔ قطعی طور پر ابھی کچھ کہنا مشکل ہے لیکن ہاں پہلی شہ مودی نے بڑی سوجھ بوجھ سے بچالی لیکن کھیل ابھی بہت باقی ہے ۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ؟

Comments are closed.