کیا پاکستان جمہوری عمل سے بنا؟

تبصرہ : لیاقت علی ایڈووکیٹ

Au cours d'une conférence historique à New-Delhi le 3 juin 1947, Lord MOUNTBATTEN et les principaux leaders des Indes concluent la partition des Indes suivant le plan britannique. Pendant la conférence à New-Delhi de gauche à droite : Pandit JAWAHARLAL NEHRU, vice-président du gouvernement par intérim, Lord ISMAY, conseiller de Lord MOUNTBATTEN vice-roi des Indes, Lord MOUNTBATTEN et Ali JINNAH, président de la ligue musulmane pour les Indes.

کیاپاکستان کا قیام جمہوری عمل کا نتیجہ تھا یا کسی ساز با ز کا ؟ یہ سوال وقفے وقفے سے ہمارے ہاں کچھ افراد اٹھاتے رہتے ہیں ۔ یہ سوال اٹھانے والوں کے نزدیک متحدہ ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کا قیام دراصل برطانوی سرکار کے بین الاقوامی اور علاقا ئی معاشی وسیاسی مفادات کو تحفظ دینے کے پلان کا حصہ تھا ۔ کچھ حضرات تو یہ تک کہتے ہیں کہ پاکستان کا جغرافیہ بالخصوص فاٹا اور گلگت ، بلتستا ن کی پاکستان میں شمولیت تیزی سے ابھرتے ہوئے کمیونسٹ اثرات پر روک لگانے کے لئے تھی ۔

ایک صاحب تو یہ دور کی کوڑی بھی لے کر آئے ہیں کہ پاکستان کا موجودہ نقشہ برطانوی وائسرے ہند لارڈ ویول کے ذہن رسا کی دین ہے ۔ ویول واحد وائسراے تھا جو وائسراے کے عہدے پر فائز ہونے سے قبل برٹش انڈین آرمی کا کمانڈر انچیف بھی رہا تھا اس لئے ہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں بننے والے ملک کی سرحدوں کا نقشہ اُ س نے کچھ اس انداز سے بنایا تھا کہ مستقبل میں بر طانیہ کے فوجی مقاصد کے حصول میں ان سے مدد لی جاسکے ۔

اُن کا موقف ہے کہ بر طانیہ ایک وقت میں ہندوستان میں اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے لئے مشرق وسطی کی سرزمین سے مدد لیتا تھا لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد مشرق وسطی میں نو دریافت شدہ تیل کی دولت پر اپنا قبضہ جمانے کے لئے اس نے ہندوستان اور بالخصوص اس کے شمالی علاقوں کو استعمال کرنے کا پلان بنایا تھا ۔ نہرو کیونکہ برطانیہ کو اپنی سر زمین پرفوجی اڈے دینے سے انکاری تھا جب کہ مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت برطانیہ کو سیاسی اور عسکری تعاون فراہم تیار کرنے میں یکسو تھی لہذا اُ س نے ہندوستان کو تقسیم کرنے اور نو تخلیق شدہ ریاست کا اقتدار مسلم لیگ کے حوالے کر نے کا پلان بنایا تھا ۔

ان کے نزدیک مجوزہ پاکستان کے نقشے میں شمالی علاقہ جات کی شمولیت کے پس پشت یہی پلان تھا کیونکہ ویول کا موقف تھا کہ اگر مجوزہ پاکستان میں شمال مغربی سرحدی صوبے اور اس ملحقہ قبائلی علاقوں کو شامل نہیں ہونا تو ایسی ریاست کے قیام کا برطانیہ کو کیا فائدہ اور وہ ہندوستان کی تقسیم کی حمایت کیوں کرے؟۔

عارف میاں ایک ایسے ہی سکالر ہیں جو قیام پاکستان کو ہندوستان کے مسلمان عوام بالعموم اور شمالی و مشرقی ہندوستان کے صوبوں کے مسلم عوام بالخصوص کی آزادی کے لئے کی جانے والی جمہوری جدوجہد کا نتیجہ سمجھنے سے انکاری ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا قیام جمہوری عمل کی بجائے بر طانوی سرکارکے ’ انتظام و انصرام ‘ کا شاخسانہ تھا ۔ان کے نزدیک پاکستان کے موجودہ ابتر معاشی اور سیاسی حالات اس بات کے غماز ہیں کہ پاکستان جمہوری عمل کا نتیجہ نہیں تھا ۔کیونکہ اگر وہ جمہوری عمل کا نتیجہ ہوتا تو پاکستان کے تعلیمی نظام کی زبوں حالی ، ، عوام میں سیاسی شعور کی پسماندگی ، سیاسی جماعتوں کی تنظیمی کمزوری اور فکری بانجھ پن اور فوجی جرنیلوں کا طویل اقتدار جیسے مظاہر دیکھنے کو نہ ملتے ۔

وہ کہتے ہیں کہ قیام پاکستان کی داعی جماعت آل انڈیا یونین مسلم لیگ اپنی تنظیم ، سیاسی فکر اور حکمت عملی کے اعتبار سے جمہوری سیاسی جماعت ہرگز نہیں تھی۔ مسلم لیگ کے قیام سے قبل1905 میں مسلم عمائدین کا جو وفد وائسرے ہند کو اپنے مطالبات پیش کرنے کے لئے شملہ میں ملا تھا اُس’ وفد میں اکثر نوابوں کی تھی ، سر کے خطاب والوں کی تھی ،انھیں بر طانوی سرکاری کے اہلکاروں کی آشیر باد حاصل تھی اور انھیں آشیر باد ہونا بھی چاہیے تھی۔

کیونکہ انگریزوں کو کانگریس کے مقابلہ میں ایک ایسی سیاسی جماعت کی ضرورت تھی جو کانگریس کا سیاسی اثر و رسوخ کم کرتی یا کانگریس میں شامل مسلمانوں کا جو عنصر تھا اس کو کانگریس سے برگشتہ کرتی اور کوشش کرتی کہ وہ گانگریس سے علیحدگی اختیار کر لے تاکہ کانگریس ممکنہ حد تک کم زور ہو ۔ اسے لڑاو اور حکومت کر و کی پالیسی کہتے ہیں ‘ ۔ یہ حقیقت ہے کہ 1934تک مسلم لیگ مسلمان جاگیرداروں اور تعلقہ داروں کی جماعت تھی لیکن 1937 کے صوبائی الیکشن نے جاگیرداروں کی اس سیاسی جماعت کو’ عوامی‘ سیاسی جماعت بنادیا تھا ۔

عارف میاں قبل ازیں اسی موضوع پر ایک کتاب ’بر صغیر کیوں ٹوٹا ‘ کے عنوان سے بھی لکھ چکے ہیں جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ اُن کی اُس کتاب میں موجود ’حقائق‘ اس قدر ٹھوس اور ناقابل تردید تھے کہ پاکستان کے ریاستی حکام کے پاس اس پر پابندی کے سوا ورکوئی چارہ نہیں تھا ۔ان کے نزدیک مسلم لیگ غیر منقسم ہندوستان کے سیاق و سباق میں ایک چھوٹی سیاسی جماعت تھی اور اس کا سیاسی اثر و نفوذ چند مخصوص علاقوں اور خطوں تک محدود تھا تو پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ وہ ہندوستان کو تقسیم کرانے اور ایک نیا ملک پاکستان بنوانے میں کامیاب ہوگئی ۔

عارف میاں اس سے یہ اخذ کرتے ہیں کہ یہ انگریز سرکار کی سرپرستی ہی تھی جس نے مسلم لیگ کو ا س قابل بنایا تھا کہ وہ اپنے علیحدگی پسندی کے موقف پر ڈٹی رہے اور بالآخر پاکستان کا قیام بھی انگریز سرکار کی پس پشت ’کار فرئیوں‘ ہی کا نتیجہ تھا۔

عارف میاں کی اس کتاب میں داخلی وحدت نہ ہونے کے برابر ہے ۔ مصنف اپنے تھیسس کے حق میں کوئی ٹھوس دلیل اور تجزیہ پیش کرنے کی بجائے مختلف مصنفین کی کتابوں سے لئے گئے طویل اقتباسات پر انحصار کرتے ہیں ۔ ان میں زیادہ تر مصنف وہ ہیں جو بوجوہ قیام پاکستان کے مخالف ہیں ۔ 1946کے صوبائی انتخابات کے نتائج جن کی بنیاد پر پنجاب اور بنگال کی تقسیم ہوئی اور یہ دونوں صوبے پاکستان میں شامل ہوئے ، اس بارے میں مصنف بالکل کوئی بات نہیں کرتے ۔

کیا یہ انتخابات جمہوری پراسس کا حصہ نہیں تھے ۔ کیا بھارت کا قیا م بھی انہی صوبائی انتخابات کا مرہون منت نہیں تھا ؟ کیا پنجاب اسمبلی کے مسلم ارکان کی اکثریت نے پنجاب کوتقسیم کرنے کی مخالفت نہیں کی تھی جب کہ ہندو اور سکھ ارکان اسمبلی نے پنجاب کو تقسیم کرنے کی حمایت کی تھی ؟ اور جمہوری عمل کیا ہوتا ہے ؟ ۔

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ہندوستان پر اپنے قبضے کو مستحکم رکھنے کی خاطر برطانوی سرکا ر کی پالیسی کا بنیادی پتھر ’لڑاو اور حکومت کرو‘ تھا ۔ یہ بات جزوی طور پر سچ ہے لیکن پورا سچ ہرگز نہیں ۔ مختلف ادوار میں برطانیہ کی پالیسی ہندوستان کے بارے میں مختلف ہوتی تھی ۔ برطانیہ میں وقوع پذیر ہونے والی معاشی اور سیاسی تبدیلیاں ہندوستان کے بارے میں بھی پالیسوں میں تغیر و تبدل کا باعث بنتی تھیں۔ اسی لئے اگرایک وقت میں وہ’ تقسیم کرو اور حکومت کرو ‘ کی پالیسی پر عمل پیرا تھے تو دوسرے وقت میں وہ ’متحد کرو اور حکومت کرو‘ کی پالیسی پر بھی عمل پیرا رہے تھے ۔

کیا پاکستان جمہوری عمل سے بنا ‘ میں مصنف  نےجو اقتباسات اکٹھے کئے ہیں ان سے یہ نتیجہ اخذ کر نا مشکل ہے کہ قیام پاکستان جمہوری عمل کا نتیجہ نہیں تھا ۔

نام کتاب:کیا پاکستان جمہوری عمل سے بنا؟
مصنف: عارف میاں
صفحات:232
قیمت:400روپے
ناشر:نیڈ کونسل ۔ 59انڈسٹریل ایریا ، گلبرگ ۔3،لاہور

2 Comments