مبالغہ آرائی ، خوشامد کا کلچر اور اس کے نتائج

رشاد بخاری

55cb5867e7e47

ایک مولانا صاحب بہت مرنجان مرنج شخصیت کے مالک تھے۔ آپ ایک چھوٹے شہر کی ایک بڑی مسجد میں خطیب تھے۔ آپ کی بدن بولی سے مسلسل تقوی، تواضح، انکسار اور للہیت کا اظہار ہوتا تھا۔ اپنے رکھ رکھاوٗ، بول چال اور خطابت و امامت میں توازن آپ کا طرہ امتیاز تھا۔ شان صحابہ بیان کی تو کبھی اہل بیت پر نقد نہیں کیا۔ حب علی کا ذکر چھیڑا تو کبھی بات بغض معاویہ تک نہ پہنچی۔ اپنے پیرو کاروں کو بھی ہمیشہ صلح جوئی اور اعتدال کا سبق دیا۔

شہر میں فرقہ واریت کی وبا پھیلی، ساتھ کی مسجد میں کافر کافر کے نعرے لگے لیکن حضرت نے اپنا چلن نہ بدلا اور دین کی اخلاقی تعلیمات اور اکابر کی سیدھے سبھاو پیروی کا درس دیتے رہے۔ آپ کسی ایک چیز میں اگر غلو کے قائل تھے تو وہ محض عشق رسول تھا۔ فرماتے کہ حضور صلعم کی شان جتنی بھی بیان کی جائے اس کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ اس معاملے میں جتنا بھی مبالغہ کیا جائے جائز ہے، اس لیے کہ اس باب میں مبالغہ ممکن ہی نہیں۔ اپنے پرائے، دوست دشمن سب آپ کی دین داری اور خلوص کے قائل تھے۔

حضرت کے ایک بھائی اور شاگرد، جنہوں نے آپ ہی کے زیر سایہ تربیت حاصل کی تھی اور علمی ثقاہت اور فن خطابت میں آپ ہی کی طرز اپنائی تھی، حسن اتفاق اور اپنے وسیع نیٹ ورک کی بدولت، یورپ کے ایک اسلامی سنٹر (مسجد) میں امامت کے لیے منتخب ہوئے اور یورپ کو اپنے دعوت و تبلیغ کے مشن کا مرکز بنا لیا۔ کچھ عرصے بعد اس ہونہار شاگرد نے اپنے استاد محترم کو یورپ آنے کی دعوت دی اور وہاں کے مسلمانوں کی مختلف مجالس میں آپ کے خطاب کا بھی اہتمام کیا۔

آپ قریباٌ ڈیڑھ ماہ کے قریب یورپ میں قیام پذیر رہے اور وہاں خاص طور پر پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ محفلوں میں مختلف دینی اور فقہی موضوعات پر لوگوں کی رہنمائی کی۔ جب آپ یورپ کے دورے کے بعد اپنے ملک واپس پہنچے تو آپ کے شہر کے لوگوں نے بڑے بڑے بینرز کے ساتھ ایک بڑے شہر کے ائرپورٹ پر آپ کا استقبال کیا اور قافلے کی صورت میں آپ کو اپنے چھوٹے شہر میں لے آئے۔ اس چھوٹے سے قصبہ نما شہر میں بھی ہر طرف استقبالیہ بینر لگائے گئے جن پر

حضرت کے لئے فاتح یورپ اور خطیب اعظم کی اصطلاح استعمال کی گئی تھی۔

آپ اس مبالغہ آرائی پر تھوڑے جز بز تو ہوئے لیکن اپنے دوستوں اور پیروکاروں کی دل جوئی کی خاطر خاموش رہے۔ فاتح یورپ اور خطیب اعظم کے طور پر آس پاس کے چھوٹے چھوٹے گاوں اور قصبوں کی مسجدوں میں آپ نے جلسوں سے خطاب کیا۔ آپ جہاں جاتے آپ کے نام کے ساتھ کچھ نئے القابات کا اضافہ ہو جاتا، خطیب بے بدل، مقرر شیریں بیاں، وارث علم نبوت، مصلح اعظم، شارح قران، محقق دوراں، نباض حقیقت، غرض حاشیہ آراوں نے آپ کے علم و فضل، تقوی و طہارت، اور فنی جوہر کے بیان میں اردو زبان کے تمام امکانات استعمال کر ڈالے۔ علاقے کے ایک بڑے پیر صاحب نے جن کے حلقہ ارادت کا آپ دم بھرتے تھے، آپ کو خرقہ خلافت بھی عطا کر دیا اور یوں آپ پیر طریقت اور رہبر شریعت کے منصب پر بھی فائز ہو گئے۔

شروع میں یہ سب القابات اور لوگوں کی طرف سے بے تحاشہ پذیرائی آپ کو ذہنی طور پر کچھ الجھن میں مبتلا کر دیتی لیکن آہستہ آہستہ آپ کو بھی، زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو کے مصداق اپنے ان تمام فضائل پر یقین ہوتا چلا گیا اور آپ لوگوں کی عقیدت کو سراہنے لگے بلکہ یہاں تک کہ اگر کبھی کسی جگہ القابات میں کمی ہوتی تو آپ سخت بے چینی محسوس کرنے لگتے۔ رفتہ رفتہ آپ کا انکسار تمکنت میں بدل گیا، شیریں بیانی، شعلہ افشانی میں تبدیل ہونے لگی، جمال جلال ہو گیا، آپ کے لہجے میں شدت، آپ کے الفاظ میں عزم اور آپ کے لہجے میں قطعیت آنا شروع ہو گئی۔

آپ کی شخصیت کا یہ نیا رخ لوگوں کو مزید پسند آیا جنہیں لگا کہ ان کی محرومیوں، حسرتوں،غلبہ اسلام اور ایک دین دار زندگی کی خواہشوں کو ایک توانا آواز میسر آگئی ہے۔ انہیں لگا کہ یہی وہ مرد قلندر ہے جو بے راہ روی کے سمندر میں غوطہ زن لوگوں کی درست مذہبی تربیت کرکے ان کی دنیا اور آخرت سنوار سکتا ہے۔ معاشرے سے کفر و الحاد کا خاتمہ کرسکتا ہے اور مذہب کی حرمت و وقار کو بچا سکتا ہے۔

حضرت کی شخصیت میں یہ انقلاب علاقے میں کئی طرح کی تبدیلیوں کا باعث بنا۔ حضرت کی مقبولیت میں جیسے جیسے اضافہ ہوتا چلا گیا، فرقہ وارانہ مسائل پر آپ کی رائے میں سختی آتی چلی گئی اور حساس موضوعات پر بحث اہل علم کے حلقے سے نکل کر تھڑے کی سیاست کا موضوع بن گئی، عوام میں نور و بشر، حیات و ممات، کفر و شرک، بدعت و گستاخی جیسے مسائل پر تفریق واضح ہونے لگی۔

ایک دوسرے مسلک کے مولانا صاحب نے بھی دیکھا دیکھی اپنے علم کا بوجھ عوام پر ڈالنا شروع کر دیا اور شہر میں واضح دھڑے بن گئے جو ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کے لیے ہر طرح کی زبان استعمال کرنے لگے اور نوبت گالم گلوچ سے سماجی مقاطعے اور پھر لڑائی جھگڑے اور سر پھٹول تک پہنچ گئی۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ علاقے میں مذہبی طبقات جو قبل ازیں ہم اہنگی، اتحاد و اتفاق اور باہم انحصار کی فضا قائم رکھے ہوئے تھے، اب اپنے اور اپنے اکابرین کی عظمت اور دوسرے طبقے کی گمراہی اور ضلالت میں زمین آسمان کے قلابے ملانے لگے، اور نتیجہ صاف ظاہر ہے فرقہ وارانہ تشدد کی صورت میں سامنے آیا۔

سوال یہ ہے کہ کیا اس صورت حال کا ذمہ دار کسی ایک فرد کو ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ کیا مولانا صاحب کے رویے اور طرز عمل میں تبدیلی صرف ان کی خواہشوں اور شخصی کمزوری کی پیداوار تھی؟ جی نہیں مبالغہ اور خوشامد دو ایسی بلائیں ہیں جو اچھے خاصے مضبوط اور متوازن شخص کو خود پسندی، افراط و تفریط اور اکثر اوقات ناانصافی، زیادتی اور ظلم کے راستے پر ڈال سکتی ہیں۔ کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ مبالغے اور خوشامد کے کلچر نے، جو ہمارے ہاں سٹیٹ اور سوسائٹی کے ہر درجے میں سرایت کر چکا ہے، ہماری صحیح الفکری کی تمام تر صلاحیت کا گلا گھونٹ دیا ہے۔

اور سچ پوچھیں تو یہ مبالغہ اور خوشامد ایک سطح پر ہمارے تعلیمی نظام (بشمول سرکاری، پرائیویٹ سکول اور دینی مدارس) کی دین ہے جس نے تنقیدی اور سائنسی فکر کو پنپنے نہیں دیا اور دوسری سطح پر کسی بھی بلند آہنگ شے سے ہماری مرعوبیت، مقبولیت کا شوق اور رد عمل کی نفسیات۔ اس بات پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں مبالغہ آرائی کا ذوق، خوشامد کا کلچر، خود شناسی سے اعراض، شعلہ بیانی سے لوگوں کا جذباتی استحصال ہمارے اور سچ کے درمیان دیوار نہ بن جائے۔ حق اور انصاف کی راہ کا روڑا نہ بن جائے۔ اس موضوع پر بہت سوچنے، سمجھنے اور کام کرنے کی ضرورت ہے۔

2 Comments