برلن میں انتہا پسند سلفی مسلمانوں کااضافہ

0,,17915633_303,00

جرمن اخبار برلینر مارگن پوسٹ کے مطابق جرمن دارالحکوت میں روزبروز انتہا پسند سلفیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

آئینی تحفظ کی وفاقی جرمن عدالت کے ذرائع کے حوالے سے اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت برلن لگ بھگ 680 سلفیوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ ان میں سے 360 انتہا پسند پُرتشدد کارروائیوں کے لیے تیار ہیں۔

پانچ سال قبل برلن میں ان انتہا پسند مسلمانوں کی تعداد آج کے مقابلے میں نصف تھی اور اُن میں سے بمشکل 100 سلفی مذہبی جنون اور انتہا پسندی کا شکار تھے۔

جرمنی کی وفاقی آئینی عدالت کے دفتر کی طرف سے سلفی مسلمانوں کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ ایسے انتہا پسند مسلمانوں کا گروپ ہے جو اسلام کی ابتدائی شکل کو آج کے جدید دور میں بھی اپنانے کی مہم چلائے ہوئے ہے اور انتہائی قدامت پسند اور فرسودہ خیالات کا حامل ہے۔

سلفی گروپ جرمنی میں بھی مذہبی حکومت کا قیام چاہتا ہے تا کہ اُن کی زندگیوں میں بنیادی حقوق و قوانین اور ملکی آئین کا سرے سے عمل دخل نہ ہو۔

آئینی تحفظ کی وفاقی جرمن عدالت کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اب تک قریب 100 انتہا پسند سلفی مسلمان جرمنی سے عراق اور شام جا کر ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی صف میں شامل ہو چُکے ہیں۔

ان میں سے 12 مسلح کارروائیوں کے دوران ہلاک ہو چُکے ہیں جبکہ 50 کے قریب بحران زدہ ممالک شام اور عراق سے جرمنی لوٹ چُکے ہیں۔

تحفظ آئین کی عدالت کا کہنا ہے کہ اب تک جرمنی بھر سے کوئی 700 جہادی یا جنگجو شام اور عراق جا کر ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا دیگر دہشت گرد گروپوں کے شانہ بشانہ جنگ میں لڑنے کے لیے جرمنی چھوڑ چُکے ہیں۔

عراق اور شام جیسے ممالک میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ گروپ کی قوت میں اضافے میں یورپی جہادیوں کی بھرتی کا عمل بھی خیال کیا جاتا ہے۔

بتایا گیا ہے کہ سلفیوں کا گروپ پناہ گزینوں کے مختلف مراکز میں بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھاتے ہوئے وہاں پناہ لیے ہوئے مہاجرین کو اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم بیشتر مہاجرین سلفیوں کے چنگل میں پھنسنے سے گریز کر رہے ہیں۔

DW

Comments are closed.